JAZZAK ALLAH BAHI AP NE HAKEET KHOOL KER BIAN KER DI HAI ALLAH HAMAIN
MAZEED SAMJHNEY OR AMAL KI TUFEEK DAY
From: aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Thursday, March 29, 2012 7:06 AM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] لمحہء فکریہ
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ آپ کی بات بجا ہے۔ اب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جو خدمت خلق میں بہت ممتاز مقام رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے مسلمان نہیں ہیں۔ وہ مشرکانہ عقائد یا ملحدانہ نظریات رکھتے ہیں۔ یا نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں رکھتے تو ان لوگوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی حصہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح بظاہر مسلمان ہو کر جو فی الحقیقت منافق ہیں، فکری یا عملی،اور اسی طرح جو مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہیں وہ کیسے نجات پا سکیں گے۔
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>
Sent: Thursday, March 29, 2012 2:10 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] لمحہء فکریہآپ نے شاید میری بات کو درست طور پر سجمھا نہین یہ میں ہی سمجھا نہیں سکی۔۔۔ میرا مقصد تو صرف یہ تھا کہ اگر کوئی تمام گناہون سے علیہدہ رہتا ہے کوئی برائی نہیں کرتا ہور شخص کے حقوق بھی ادا کرتا ہے لیکن شرک کرتا ہے تو یہ انسان تمام تر بھلائیوں کے جہنم کا حقدار ہے اسکے برعکس اگر کوئی مواحد ہے جو بالکل شرک و بدعات سے مکمل طور پر دور ہے مگر فحش کام کرتا ہے (اول تو مواحدین سے یہ ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر فرض کرلیا جائے تو) تو یہ شخص بخشش کا اہل ہوتا، اللہ کی مشیعت کے تحت وہ چاہےیگا تو گناہ کے برابر سزا دیگا یا چاہے تو بغیر سزا کے معاف فرما کر بخش دیگا۔
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com From: aapka10@yahoo.com Date: Mon, 26 Mar 2012 13:25:18 -0700 Subject: Re: [Yaadein_Meri] لمحہء فکریہآپ نے اس آدمی کے صرف ایک ہی خطا کا ذکر کیا ہے، دوسری خطا کا ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ یہ چیزیں نہیں دیکھتامگر ان کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا تو وہ بھی برائی پھیلانے والوں کے ساتھ برابر کا مجرم ہے۔باقی رہی بات فوت شدہ ہستیوں سے دعا مانگنا تو یہی کام تو مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے۔From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; bazmeqalam@googlegroups.com; joinpakistan@googlegroups.com; vuguyscom@googlegroups.com; vu-tinkoo@googlegroups.com; alwayz2gather@yahoogroups.com
Sent: Monday, March 26, 2012 8:26 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] لمحہء فکریہمخلص بھائی۔۔ آپ نے پروفیسر عقیل صاحب کا اچھا مضمون بھیجا،شکریہ، لیکن میرے ذہن میں ایک سوال اس تحریر کو پڑھ کا ابھرا جو میں یہاں پوچھنا چاہتی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ
اگر کوئی فحش اشتہارارت نہیں دیکھتا، نہ کوئی گانا سنتا ہے، نہ کوئی دوسری بد عملی کرتا ہے، پڑوسیوں کے حقوق ادا کارتا ہے، لوگوں کو کھان کھلاتا ہے اور دیگر اعمال صالح کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی بزرگ کے مزار پر جاکر انسے اللہ تعالیٰ کو سفارش کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ تو کیا یہ شخص بخشش کے لئے کقالیفائڈ ہوگا کہ نہیں۔۔۔?
To: bazmeqalam@googlegroups.com; joinpakistan@googlegroups.com; vuguyscom@googlegroups.com; vu-tinkoo@googlegroups.com; alwayz2gather@yahoogroups.com; Yaadein_Meri@yahoogroups.com From: aapka10@yahoo.com Date: Sun, 25 Mar 2012 05:21:01 -0700 Subject: [Yaadein_Meri] لمحہء فکریہ
-- پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتے. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو. *
فحش اشتہاراتآج کل گرمی کی آمد ہے چنانچہ کراچی شہر میں جگہ جگہ لان کی ایڈورٹزمنٹ کے سائن بورڈز نصب کئے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر اخلاقی میعار سے گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کسی بورڈ میں کوئی ماڈل لیٹی ہوئی نسوانی اعضاء کو نمایاں کر رہی ہے تو کسی ہورڈنگ میں برہنہ پشت کی نمائش جار ی ہے۔ کہیں چست لباس اعضاء کو ابھارنے میں مصروف ہے تو کہیں خطرناک حد تک چاک گریباں راہ گیروں کودعوت گناہ دے رہا ہے۔ ایڈورٹائزنگ آج کل مارکیٹنگ کا ایک اہم اور لازمی جزو ہے جس کا بنیادی مقصد خریدار کو متوجہ کرنا، اسے پراڈکٹ کے بارے میں تفصیلات بتانا اور خریدنے پر مجبور کرنا ہے۔ اگرمارکیٹنگ کے اس کے اصل مقصد کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر اس میں کوئی اخلاقی قباحت نظر نہیں آتی۔لیکن دولت کمانے کی ہوس ، ایک دوسرے نیچا دکھانے کی کاوش اور ہر جائز ناجائز طریقے سے اپنے حریف پر سبقت لے جانے کی کوشش نے ایڈورٹائزنگ کو ایک غیر اخلاقی عمل بنادیا ہے۔ یہ آبرو باختہ عمل صرف لان کی ہورڈنگز تک محدود نہیں۔ ٹی وی پر چلنے والے اکثر اشتہارات اس برائی کو پھیلانے میں آگے بھی ہیں اور مؤثر بھی ۔ ان اشتہارات میں عورت کے وجود کا ایک ایک انگ نمایاں کرنے اور کیش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نیم عریاں عورت کے ساتھ ساتھ ، فحش ڈائلاگز، بے ہنگم موسیقی، آبرو باختہ لطیفے ، نوجوانوں کو رات بھر عشقیہ باتوں کی ترغیب اور دیگر پہلو بھی ان اشتہارات کا لازمی جزو ہیں۔ اگر صاف پانی کے تالاب میں گندگی ڈالی جائے تو پانی دھیرے دھیرے گدلا ہونے لگتا ہے اور اس کا دیکھنے والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اشتہارات میں یہ غیر اخلاقی پہلو اس آہستگی کے ساتھ سرایت کرگیا ہے کہ اب یہ سب کچھ شرفاء کو بھی برا نہیں لگتا۔ اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ نیم عریانی، فحش کلامی، گھٹیا مذاق اور بے ہنگم موسیقی کے ساتھ سمجھوتہ کرتا نظر آرہا ہے ۔ اگر اس قبیح عمل کو یہاں نہ روکا گیا تو یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں۔ حرص و ہوس کے پجاری ان معاملات کو اسی نہج پر لے آئیں گے کہ پھر واپسی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جائے گی۔شکوہ ان لوگوں سے نہیں جو مغربی ذہنیت کے غلام ہیں۔ شکایت تو قوم کے ان سنجیدہ حلقوں سے ہے جو حیا کو ایک بنیادی قدر مانتے اور اسے فروغ دینے کے حامی ہیں ۔ لیکن نہ تو ان کی زبانیں کسی فورم پر آواز اٹھاتی نظر آتیں اور نہ ہی ان کے قلم اس بے اخلاقی پر حرکت میں آتے ہیں۔ صورت حال اگر یہی رہی تو اگلی نسلوں کے آنے تک حیا ایک ماضی کی داستان بن کے رہ جائے گی اور مغربی و اسلامی اقدار کا فرق برائے نام رہ جائے گا۔ اس موقع پر صنعت کاروں ، تاجروں اور حکومتی اداروں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلا ش کرنا ضروری ہے تاکہ اس طرح کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے جو مارکیٹنگ کے مقاصد بھی حاصل کرتا ہو اور فحاشی کے زمرے میں بھی نہ آئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نتیجے کے طور پر جنسی ناآسودگی، آبروریزی اور آزادانہ جنسی اختلاط کا ایک طوفان جنم لے گا جو محض چند طبقات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا شکار ہر دوسرا محلہ اور گھر ہوگا اور کیا خبر یہ اسی اشتہار دینے والے کا گھر ہو جس نے عریانی کے ذریعے دولت کمانے کی کوشش کی تھی۔ از پروفیسر محمد عقیل aqilkhans@gmail.com http://aqilkhans.wordpress.com
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment