shia aur sahyouni mein koi farq nahi hai ye apas mein mile huye hain aur in ka muqsad hai Islam ko mitana hai aur us k zumedar ye behrupey shia hain jo muslman ki khaal pehne huey hain.
Afzal Hussain
From: aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, May 12, 2012 11:03 AM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
ایرانی حکومت کا ہدف اسرائیل نہیں سعودی عرب ہےایرانی حکومت نے جو اسرائیل سے اسلحہ خریدتی رہی ہےاس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ایران فقط حرمین پر قبضہ چاہتا ہےکیونکہ وہ اپنے علاوہ تمام فرقوں کے لوگوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں۔ان ہی لوگوں نے سعودی عرب میں فتنے پیدا کیےجس کی وجہ سے سعودی حکومت کو ان کی طرف سے محتاط ہونا پڑ رہا ہے۔ایران اسرائیل کی مخالفت صرف عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہےعراق نے بھی یہی کیا تھامغرب میں اسرائیل کی طرف بڑھنے کی بجائے جنوب میں کویت کی طرف چل پڑا
From: Al-Syed <only_abidi@yahoo.com>
To:
Sent: Saturday, May 12, 2012 8:35 AM
Subject: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
آل سعود اسرائیل کی آخری امید
مقبوضہ فلسطین کے شہر اور غاصب صہیونی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب کی اسرائیلی یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں آل سعود کی حکومت کو علاقے میں اس ریاست کی آخری دفاعی لائن قرار دیا ہے/ ادھر یہودی ریاست کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ تمام ایرانی اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں۔اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ کی رپورٹ کے مطابق "عصر امت" نیوز ویب سائٹ نے اس رپورٹ کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "علاقے میں صہیونی ریاست کی حامی تمام حکومتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ مزید کوئی اہم کردار ادار نہیں کرسکتیں چنانچہ ان حالات میں صرف آل سعود کی حکومت ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے کھڑی ہے اور یہ حکومت ایران کے مقابلے میں علاقے میں صہیونی ریاست کی آخری دفاعی لائن سمجھی جاتی ہے"۔
عصر امت کے مطابق اسرائیلی یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے حکومت یمن، مصر، لبنان، عراق اور بہت سے دوسرے ممالک میں مداخلت کررہا ہے چنانچہ آل سعود کا خاندان صہیونی ریاست کے لئے بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
عصر امت کے مطابق "علاقے کے ممالک میں آل سعود کی مداخلت بہت حد تک واضح ہوچکی ہے اور یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ آل سعود کے حکام خطے کی عرب اقوام کے انقلابات کو ہائی جیک کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں گو کہ آل سعود کو عرب ممالک میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے حتی کہ مصر کے سنی عالم دین "شیخ محمد علاء االدین" نے مارچ 2012 میں اسلامی ممالک میں آل سعود اور قطر کے آل ثانی خاندان کی مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہوئے آل سعود اور آل ثانی کو یہودی ریاست کے خادمین کا لقب دیا ہے"۔
عصر امت نے لکھا: "محمد علاء الدین المہدی نے یہ بھی کہا تھا کہ سعودی عرب اور قطر شام میں امریکی صہیونی منصوبوں پر عملدرآمد کررہے ہیں اور آل سعود کا "العربیہ نیوز چینل" نیز آل ثانی کا "الجزیرہ" چینل صہیونیوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں"۔
عصر امت نے لکھا: "حال ہی میں ویکی لیکس پر منکشف ہونے والی خفیہ سفارتی دستاویزات سے واضح ہوگیا تھا کہ آل سعود نے یہودی ریاست کی خفیہ ایجنسی ـ موساد ـ کے ساتھ رابطہ بحال کرکے ایران کے خلاف جاسوسی اقدامات اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلے میں موساد کے ماہرین دہشت گردی سے صلاح مشورے کئے تھے ، اور ان خفیہ دستاویزات سے واضح ہوگیا تھا کہ موساد کے سابق افسران بڑی بڑی رقوم لے کر آل سعود کو مشورے بھی دے رہے ہيں اور جاسوسی کے لئے ضروری آلات بھی آل سعود کو فروخت کررہے ہیں۔
ادھر عربی پریس نامی نیوز ویب بیس نے "آل سعود عرب دنیا میں اسرائیل کی آخری امید" کے زیر عنوان اپنی ایک رپورٹ میں تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "بعض عرب حکومتوں کا تختہ الٹ جانے کے بعد اسرائیل کا "تزویری ماحول Strategic Environment" تزلزل کا شکار ہوچکا ہے اور اس کے عرب حلیف یا تو رخصت ہوچکے ہیں یا پھر اپنا کردار کھو چکے ہیں چنانچہ ایران کے مقابلے میں یہودی ریاست کے تحفظ کی واحد باقی ماندہ امید آل سعود کی حکومت ہے؛ تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ آل سعود کے حکمران ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے تمام ممالک میں مداخلت کررہے ہیں اور جس دن آل سعود کی حکومت کا تختہ الٹے گا علاقے میں ایران کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹ جائیں گی"۔
تل ابیب یونیورسٹی کی اس رپورٹ سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ کہ صہیونی ریاست رو بہ زوال ہے اور آل سعود کی حکومت کا انجام بھی آل صہیون سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے چنانچہ آل سعود کی تمام تر ریشہ دوانیوں کا مقصد اپنی حکمرانی کو بچانا ہے اور آل سعود کو بچانے کے لئے اسرائیل کا بچاؤ بھی ضروری ہے چنانچہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے ہاتھوں بنی ہوئی ان دو حکومتوں (آل سعود اور آل صہیون) کا انجام ایک جیسا ہے اور ایک کے زوال سے دوسری کا زوال یقینی ہوجاتا ہے اور اسی بنا پر آل سعود کے حکمران اپنے تحفظ کے لئے یہودی ریاست کا تحفظ چاہتے ہيں اور آل صہیون کے پاس بھی اپنے بچاؤ کے لئے آل سعود کے تحفظ کے سوا کوئی چارہ نہيں ہے۔
عربی پریس نے تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ "آخری جنگ کی تیاریاں، جدوجہد برائے بقائے آل سعود" کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب، اردن اور خلیج فارس کی کم اہم عرب ممالک کے ساتھ مل کر علاقے میں رونما ہونے والی "بد انتظامی" [یعنی انقلابی تحریکوں] کو لگام دینے کے لئے قریبی تعاون کررہے ہیں۔
اس رپورٹ ميں کہا گیا ہے کہ یہودی ریاست نیز آل سعود کے حکمران اپنا تزویری حلیف "حسنی مبارک" ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اور مصر کا مستقبل غیر واضح ہے اسی وجہ سے سعودی حکومت نے پرانی پالیسی تبدیل کرکے بحرین میں فوجی مداخلت کررکھی ہے اور ایران کے حلیف ملک شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "آل سعود علاقے میں ایران کے مد مقابل [امریکہ اور اسرائیل کی] آخری دفاعی لائن ہے اور آل سعود کا خاندان اپنی کمزور پوزیشن مستحکم کرنے اور امریکی و صہیونی مفادات کے تحفظ کرنے کے لئے مصر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے؛ تیل کے ہتھیار کو بروئے کار لانا چاہتا ہے اور اوپک کے رکن ممالک میں اختلاف ڈال کر نیز خلیج فارس تعاون کونسل کو توسیع دے کر ایران کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
واضح سی بات ہے کہ آل سعود کا زوال آل صہیون کے لئے کافی مہنگا پڑ رہا ہے اور اگر ایک طرف سے صہیونیوں کو اپنا اور آل سعود کا زوال قریب آرہا ہے تو دوسری طرف سے آل سعود کو بھی اپنا اور اپنے صہیونی حلیف کا زوال قریب ہی نظر آرہا ہے اور آل سعود کی اتنی وسیع و عریض اور عجلت زدہ ریش دوانیوں سے اس خاندان کی قوت کا نہیں بلکہ ضعف کا مظاہرہ ہورہا ہے لیکن آل سعود کی فکرمندیوں میں مسلم امت کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا اس کو امت کی بقاء کے سلسلے میں بھی اسرائیل کی بقاء جتنی فکر لاحق ہے؟ کم از کم ان سطور میں ہمیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آرہی ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے یہودی تجزیہ نگاروں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: آل سعود خاندان میں تزلزل، ایران کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ علاقے پر حکمفرما تسلیم شدہ نظام (اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کی اندھی تقلید) کے پیروکار حکمرانوں کا مکمل صفایا کردے اور یہيں سے اسرائیل کے لئے آل سعود کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور چونکہ آل سعود اور یہودی ریاست کی تزویری پالیسیاں یکساں ہے چنانچہ دو طرفہ (ریاض ـ تل ابیب) مذاکرات "میں توسیع" کی ضرورت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔
رپورٹ کے اس آخری جملے کا مفہوم یہ ہے کہ آل سعود اور آل صہیون کے درمیان خفیہ اور خائنانہ مذاکرات کا سلسلہ عرصۂ دراز سے چل رہا ہے اور اس رپورٹ میں بھی اس کا سبب "یکسان حکمت عملیاں" (Similar Strategies) ہیں۔
ادھر صہیونی ریاست کے وزير جنگ "ایہود بارک" کا موقف بھی کافی دلچسپ ہے اس سے مذکورہ بالا رپورٹ کی تصدیق ہوتی ہے۔
ایہود بارک نے کہا ہے کہ تمام ایرانی اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں
ایہود بارک نے کہا کہ ایران کے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی، بقول اس کے، اعتدال پسند سیاستدان تھے لیکن ان کا بھی کہنا تھا کہ "اسرائیل کے لئے ایک بم کافی ہے اور اسرائیل کو ایک بم مار کر نیست و نابود کرنا چاہئے"۔
ایرانی روزنامے "کیہان" کی رپورٹ کے مطابق ایہود بارک نے حال ہی میں "اسرائیل الیوم" نامی صہیونی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے 2003 میں ہاشمی رفسنجانی کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رفسنجانی ایک اعتدال پسند سیاستدان ہیں لیکن ان کے موقف سے ایرانی تفکر کی اسرائیل مخالف رجحان کی اتہاہ گہرائیوں کا پتہ ملتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں سب اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں۔
بارک نے کہا: ہاشمی رفسنجانی نے 2003 میں کہا تھا کہ: "عالم اسلام کے مدمقابل اسرائیل کے سوا کوئی نہيں ہے اور ہماری معلومات اور اسرائیل کی حقیقت کی بنا پر صہیونی ریاست بہت چھوٹی اور ناچیز ہے اور اس کی نابودی کے لئے صرف ایک بم کافی ہے؛ اور اگر اسرائیل نے کبھی ایران کے خلاف اقدام کیا تو ہم ضرورجوابی کارروائی کریں گے لیکن ہمارے علاوہ 20 دوسری مسلم قومیں بھی اسرائیل پر حملے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ کسی شرارت کی صورت میں اسرائیل کا وجود ہمیشہکے لئے روئے زمین سے مٹ جائے گا۔.**************************************
Maan Baap Ki Duaon Ka TalibSag-e-dar-e-Ahailaybait a.s
Raza Abidi*************************************
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment