Search This Blog

Tuesday 17 April 2012

RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 

محترم بھائی ! آپ نے جو معلومات اپنے اور اپنے والد محترم کے بارے میں بتائیں ہیں انکے لئے شکریہ۔جہاں تک عاجزی و انکساری کی بات ہے تو یہ تو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہونتے کیونکہ اپ ہند میں رہتے ہیں کہ گاندھی نے اپنی زندگی کسطرح گززاری لیکن کیا آپ اسکو اللہ کا ولی کہہ سکتے ہیں،  خیر یہ تو اییک ضمنی بات تھی۔
یہ بات اپ کی حقیقت پر مبنی ہے کہ قرآن عربی میں سمجھنے کی جو بات ہے وہ دیگر زبانون میں نہیں ہوسکتی، ترجمہ قرآن ، قرآن کی ترجمانی  نہیں کرسکتا۔۔۔۔ لیکن میں نے عرض کیا تھا کہ اب ہم جیسے لوگ جو عربی سے نا بلد ہیں انکے لئے اسکے علاوہ کوئی آسرا نہین کہ اردو تراجم سے ہی قران کو اپنی بساط کے مطابق سمجھین مزید یہ کہ جو علماء عربی دان تھے انہوں نے اپنی مکمل صلاحیتوں کے ساتھ جو کچھ تحریر کیا ہے وہ ہی اب ہمارا واحد ذریعہ ہے ہم کو اسی پر اکتفا کرنا ہوگا۔
صحابہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپنے دو باتین اکھٹی فرما دی ہین ایک انکی محبت، انکا احترام اور دوسرا انکی اطاعت۔
میں نے اپنی میل میں اپکو کئی بار اللہ کے فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پیش کی ہیں اور اصحاب رسول کے فرامین بھی پیش کئے ہیں کہ صحابہ کی اطاعت غیر مشروط نہیں ہے یہ تابع ہے کتاب اللہ اور سنت رسوب کے۔ مین نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا طریقہ رکوع اس سلسلے میں پیش کیا تھا جسکو آپ نے مکمل نطر انداز کردیا ۔ کیونکہ یہ ایسی مثال ہے جو ثابت کرتا ہے کہ آپ بھی انکی اطاعت نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اور آپ ان کا بے حداحترام کرتے ہیں۔

میرے خیال میں اپ نے جو حضرت ابن عمر والی بات جس میں مسجد جانے سے عورتون کو روکنا بتا یا ہے ، اگر یہ اسکے علاوہ ہے جو کہ میں جانتی ہین کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے بیٹے نے عورتوں کو روکا تھا تو اٌپ نے فرمایا تھا کہ میں تم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتا رہا ہوں اور تم اسکی مخالفت کر رہے ہو تو اپ نے اپنے بیٹے سے بات چیت بند کردی تھی۔یہ بھی دلیل ہے کہ غیر مشوط اطاعت نہیں ہے۔۔
اسکے علاوہ اپ نے ایک مشہور واقع بھی سنا ہوگا جب حضرت عبداللہ بن عمر کو لوگوں نے کہا کہ آپکے والد نے حج تمتع سے منع فرمایا ہے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔ تو کیا آپ یہ کہینگے کہ وہ اپنے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت یا احترام نہیں کرتے تھے،   نہیں یہ غلط ہے ، محبت اور احترام الگ چیز ہے اور غلط بات کو تسلیم نہ کرنا ایک الگ بات ہے ان کو اپس میں لازم و ملزوم کرنا انصاف کے خلاف ہے۔  محبت و احترام میں غلو اختیار کرتے ہوئے ہی تو لوگون نے امام کو رسول کا درجہ دے دیا ہے ۔
تاریخ میں موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بعد میں اپنے تین فیصلوں پر ندامت کا اظہار فرمایا تھا جن میں ایک "ایک وقت کی تین طلاق" والا مسئلہ بھی تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جمعہ کو دوسری آذان کا حکم بھی ایک وقتی حکم تھا اسکو مستقل دین بنانا تکمیل دین کے بعد اس میں اضافہ کرنا ہے ۔ وقتی ضرورت کے تحت آپ رضی اللہ عنہ کا ایسا کرنا درست تھا جسکو ضرورت ختم ہونے کے ساتھ ختم ہنا ہی تھا۔ 

آپ ابھی تک شاید یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط یعنی جو کہابو وہی حرف آخر ہے زراہ برابر انحراف کی گنجائش نہیں  جبکہ کسی اور کی چاہے وہ صاحابہ کرام ہی کیون نہ ہوں مکمل شدہ دین کے خلاف یا اسمین اضافہ کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسیا کرنا شرک فی الاطاعت ہوگا اور دوسرے کو نبی کا درجہ دینا ہوگا۔
بہت معمولی سی بات ہے نجانے اپ کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی یا شادی آتو رہی ہو لیکن اپ اپنے مذہب کی نصرت کی خاطر اسکو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔۔
میں نے اپنی میل کے آخر میں ایک شکایت کی تھی جسپر بھی آپ نےتوجہ نہیں فرمائی۔۔ یا تو میری بات کو قبول فرمائیں یا اسکے خلاف اپنے دلائل پیش فرمائیں،  خاموشی بھی تو رضا مندی ہی ہوتی ہے۔ تو میں یہ سمجھوں کہ اپ میری باتون سے متفق ہین اور میں اسکا اعلان کردوں۔۔?

 


To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Mon, 16 Apr 2012 21:19:22 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
 
میری پیاری بہن و علیکم اسلام و رحمت اللہ و برکاتہ،
 
سب سے پہلے میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں جو شاید آپ کو معلوم نہیں ہے۔ میرا تعلق سرزمین پاکستان سے بالکل نہیں ہے میں ہندستان سے تعلق رکھتا ہوں ہاں ایک بار بچپن میں کرانچی گیا تھا تقریبا 25-26 سال پہلے اور اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ اس لیے زرداری سے کسی قسم کی رشتہ داری ہونے کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔
 
میں اپنے بارے میں آپ کو بتانا چہاتا ہوں اور امید ہے کہ بہن اسے یہ نہ سمجھیں گی کہ میں اپنی کوئی بڑھائی بیان کر رہا ہو۔
 
میرے والد، ایک ڈاکٹر، طبیب، عالم دین، قاری، حافظ اور مفکر تھے جنکا انتقال ڈھائی سال پہلے ہی ہوا ہے (ان للہ و ان الیہ راجعون) میرے والد کو 8 زبانوں پر فوقیت حاصل تھی لیکن ساری ذندگی اللہ کے نبی کی اطاعت میں گزاری۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے باوجود صرف کرتا اور پائجاما ہی پہنا کرتے تھے اور وہ بھی اس وقت بدلتے تھے جب گھٹنوں پر 6 -7 بار اپنے ہاتھ سے سلائی نہ کر لیا کرتے تھے۔ کرتا اکثر بٹنوں اور مونڈھوں سے پھٹا ہوتا تھا۔ زندگی پھر ایک ٹاٹ کو اپنا بستر بنایا اور میں نے انہیں کبھی بھی پلنگ پر سوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے گھر میں اکثر فاقع ہوا کرتے تھے کیونکہ ہمارے والد صاحب اکثر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ جب ہم بیمار ہو جاتے تھے تو دوائی دینے کے بجائے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو کہا کرتے تھے۔ راتوں کا جاگ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور تسبیحات کرنا ان کا معمول تھا۔
 
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بیٹا موئمن ہونے کے لیے یقین شرط ہے اور تمہار یقین اس وقت کامل ہوگا جب دنیا سے تمہاری محبت کم ہوگی۔ یعنی انہوں نے ہماری تربیت شرک بالیقین کی بنیاد پر کی۔ شرک بالیقین کیا ہے اس کا ذکر ان شاہ اللہ کسی اور وقت میں بہتر رہے گا۔ تو میری پیاری بہن مینے جو کچھ بھی علم حاصل کیا وہ اپنے والد کی سرپرستی میں حاصل کیا۔ بچپن میں میں حافظ قرآن بننا چاہتا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ جب تک تم ‍قرآن کریم کو سیکھوں گے نہیں اس پر عمل کہاں سے کروگے۔ اس لیے مینے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے مینے عربی زبان کو سیکھا۔ اور یقین جانیے کہ عربی زبان میں اتنی مٹھاس اور پختگی ہے کہ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو وہ اپنی لطافت کھو دیتی ہے۔
 
کوئی شخص اگر یہ دعوی کرے کہ ہم قرآن کریم کو اپنی زبان میں پڑھیں گیں تو میری بہن دنیا کو کوئی بھی انسان کلام الاہی کی ایک آیت کو بھی حفظ نہیں کر سکتا جبکہ عربی زبان کی خاصیت یہ ہے کہ ایک زیر اور زبر کی بھی زیادتی اس میں نہیں ہو سکتی۔
 
اب رہا سوال ترجمہ کا تو میں خود بھی سات سال سے انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتا ہوں۔ اگر ہم لفظی ترجمہ کرتے ہیں تو زبان کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے معنوی ترجمہ کرتے ہیں تو الفاظوں کی تبدیلی بھی کرنی پڑھتی ہے۔
 
میری بہن جہاں تک کلام الہی کا تعلق ہے اس کی ایک آیت کو پڑھ کر دوسری کو نظر انداز کرنے کے بعد پہلی آیت کو سمجھنا اور سمجھانا کلام الہی کی نہ تو تعلیم ہے اور نہ حق کی پیروی۔
 
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی کے حکم کے سامنے صحابہ اکرام کے فیصلوں کی کیا اہمیت!
 
اللہ کے نبی کے زمانے میں عورتوں کا مسجد نبوی میں آنا کسرت سے شامل تھا اور اللہ کے نبی نے انہیں کھی نہیں روکا حالانکہ نماز کے بارے میں آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ نے کہا قریبی مسجد، پھر گھر اور گھر کا کونا زیادہ بہتر ہے۔
 
لیکن حضرت عمر (رضی) نے اپنے دور میں عورتوں کے مسجد آنے پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ ابھی اللہ کے نبی کے وصال کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کی حرکتوں میں فرق واقع ہو گیا تھا۔ لیکن کسی نے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کسی کہ ایمان کے بارے میں آپ کیسے جان سکتے ہیں اور جب اللہ کے نبی نے مسجدوں میں آنے پر پابندی نہیں لگائی تو آپ کون ہونے ہیں۔
 
حضرت عمر نے اپنے دور میں تراویح کو باجماعت پڑھنے کا حکم دیا اور جب مسجد میں آئے تو کہاں "ما احسن البدعہ" بدعت کا مطلب innovation  ہے یعنی نئی چیز۔ انہوں نے اس بدعت کو بدعت حسنی کا نام دیا۔
 
حالنکہ اگر آپ غور کریں یا حضرت عائشہ کی وہ حدیث پڑھیں جس میں ان سے یہ پوچھا گیا کہ اللہ کے نبی کا معمول رمضان میں کیا تھا تو ان کا جواب یہ تھا کہ "رمضان اور غیر رمضان دونوں میں" حضرت عائشہ نے یہ نہیں کہا کہ صرف رمضان کے مہینے۔
 
اللہ کے نبی نے تین روں لگاتار صحابہ کر رمضان کے مہینے میں نماز پڑھائی اور جوتھے روز اس میں وقف کیا اور وجہ یہ بتائی کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر یہ فرض نہ ہو جائے۔
 
میری بہن اب ذرا غور کریں کہ جس کام سے اللہ کے نبی نے منع کیا اس کو کرنے کے لیے تو مسجدوں میں جگہ نہیں ہوتی لیکن جس کا کرنے کا حکم دیا اس کا کہیں کوئی پتہ نہیں۔
 
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ کے نبی نے اپنی زندگی میں رمضان کے پورے مہینے رات کے پہلے پہر میں عشاء کی نماز کے عالاہ تین دن سے زيادہ کوئی نماز ہی نہیں پڑھیں تو حضرت عمر کون ہونے ہیں۔ جب اللہ کے نبی کو ڈر تھا تو ہم بلا وجہ رمضان میں کڑھے ہوکر اللہ کی عبادت کریں۔
 
کیا اللہ کے نبی نے رمضان کے مہینے میں قرآن سننے اور سنانے، شیرینی تقسیم کرنے، حافظوں کو تحفوں اور دوسرے انعامت سے نوازنے اور مسجدوں میں شور شرابہ کرنے کی کوئی خش خبری دی ہے۔ میری پیاری بہن میرے علم میں نہیں ہے اگر ہو تو آپ ضرور بتائیں۔
 
حضرت ابوکر صدیق (رضی) نے کوئی ایسا عمل نہ کیا نہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن میری پیاری بہن ہم پھر بھی حضرت عمر کے اس فیصلے کو مانتے ہیں اور اس کی اطباع کرتے ہیں کیونہ ایک عدنی سے صحابی کو بھی اللہ نے وہ مقام دیا ہے جو ساری دنیا مل کر بھی حاصل نہیں کر سکتی۔ اب اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں حضرت عمر کی اس بات کو نہ مانوگاں کوینکہ ان کا یہ فیصلہ اللہ کے بنی کے حکم کے خلاف ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی محبت صحابہ سے زيادہ ہے؟
 
جب اس کی محبت صحابہ کی محبت سے زیادہ ہے تو مرتبہ بھی تو صحابہ سے زيادہ ہونا چاہیے!
 
اور اگر کسی انسان کو صحابہ سے زيادہ مرتبہ دیا گیا تو یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ٹکرائیں گی۔ اب اگر کوئی انسان اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے قرآن اور حدیث سے ٹکرائے تو وہ جہنمی نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا میری بہن۔
 
میری بہن، صحابہ اکرام سے متعلق کلام پاک کی بے شمار آیات کو پڑھنے سمجھنے اور حدیثوں کی روشنی میں ان کر درجات کو جاننے کے بعد بی اگر میرے دماغ میں کوئی ایسی بات ہوں جس سے میں اپنے اپ کو ان سے بہتر تصور کروں یا یہ کہوں کہ اگر صحابہ کا کوئی عمل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے خلاف ہوگا میں میں اللہ کے نبی کی ہی اطباع کرونگا تو میرے بہن میں اپنے بارے میں صرف یہ کہونگا کہ اللہ مجھے ہدایت دے ہو سکتا ہے میں اپنی زندگی گمراہی میں گزار رہا ہوں۔
 


From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Monday, 16 April 2012 2:38 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 

محترم بھائی، السلام علیکم۔۔۔
میں جناب کی ہر بات کا جواب یا اسپر اپنی طرف سے کچھ تحریر کر دیتی ہون اور اسیطرح اب بھی کر رہی ہوں؛

قرآن کریم و ست رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام ہی عربی زبان میں ہیں اب یہ میری اور مجھے جیسے پاک و ہند بنگلادیش و افغانستان کی 95 فصد آبادی کی بد نصیبی ہے کہ ہمیں عربی زبان سے دور رکھا گیا اور اب کافی عمر گمراہی میں گزرجانے کے بعد جبکہ حافظہ بھی اتنا قوی نہ رہا تو کیا عربی جانی جاسکتی ہے ۔۔? نہیں تو کیا اسبکا مطلب یہ لے لیں کہ کیونکہ ہمیں عربی نہیں آتی تو ہم قرآن و سنت کا علم کسی دوسری زبان میں حاصل نہ کریں جیسا کہ( اس بات کو تو جناب کو بھی تسلیم کر نا چاہئے ) ہندوستان میں فقہ حنفی کے رائج ہونے کی وجہ سے وہاں کے علماء نے عوام کو قرآن کو سمجھنے سے روک دیا تھا اور حکم تھا کہ قرآن کو صرف عربی زبان میں صرف برکت کے لئے تو پڑھا جاسکتا ہے لیکن اگر کسی نے اسکو سمجھنے کی کوشش کی تو سزا دی جائیگی اور اسکی ایک مثال خود ایک حنفی عالم شاہ ولی اللہ صاحب کی ہے کہ جب انہون نے فارسی میں قرآن کا ترجمہ کیا تو کافی تعداد میں لوگ انکے قتل کے درپے ہوگئے اور اللہ ہی نے انکو بچایا۔ اب آپ فرمائیں کہ اس میں میرا زاتی کیا قصور ہے بلکہ مجھے اس بات کا قلق ہے کہ میں عربی نہیں جانتی لیکن میں اب کچھ کر نہیں سکتی ۔

اسکا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو کتابین علماء نے تحریر کی ہیں وہ بھی تو زیادہ تر عربی و فارسی ہی میں تھیں جنکے تراجم بھی عربی جاننے والے علماء نے کئے اور ان میں سے بیشتر کتابیں قرآن و سنت کی بلواستہ یا بلا واسہ تفاسیر ہی کے زمرہ میں آتی ہیں۔ تو کیا انکو پڑھ کر استافادہ کرنا گناہ ہے اگر نہیں تو کہیں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا ایک قول پڑھا تھا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم نہ ہونگے تو ہماری یہ تحریریں ہی ہماری نمائندگی کرینگی۔۔ یعنی علماء کی کتابیں بھی تو استاد کا درجہ رکھتی ہیں کیا ان سے استافدہ کرنا غلط اور گمراہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔? جواب کی ظالب ہوں
دوسرا پراگراف: کئی مرتبہ جناب کی تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب نے کبھی نہ کبھی زرداری کی شاگردگی ضرور کی ہوگی کیونکہ ایسے الفاظ میں جناب تحریر فرماتے ہیں جسکا جواب دینا ممکن نہ ہو۔ میرے عزیز بھائی ۔ میری اور آپکی کوئی بحث "آئمہ اربعہ" کے بارے میں نہیں ہو رہی بلکہ صرف فقہ حنفی کے بارے میں ہے، یا کتاب و سنت کے بارے مین ہے۔ لہٰذا آئمہ اربعہ کی تحریروں سے کسی بات کا ثبوت طلب کرنا زرداری کی شاگردگی نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ اسکے علاوہ جب ہمارے درمیان یہ ہی طے نہیں ہو پایا ہے کہ آیا امام ابو حنیفہ کا کوئی تعلق واسطہ اس فقہ حنفی سے ہے یا نہیں تو امام ابو حنیفہ کی کوئی تحریر جو موجود ہی نہ ہو کیسے پیش کی جاسکتی ہے۔۔۔
جہاں تک شاگردوں کا تعلق ہے تو اسکا تو مجھے علم نہیں لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردون میں اتو آج کے علماء و فقہ بھی شامل ہیں اگر آپ فرمائیں تو انکی تحریروں کے حوالوں سے پیش کرسکتی ہوں لیکن اصل کتاب نہ تو میں نے دیکھی ہوگی اور نہ ہی میرے پاس موجود ہوگی لیکن علماء کی تحریر کردہ کتابیں جہاں سے میں وہ حوالے پیش کرونگی وہ مستند ہونگے جن کو چھپے ہوئے عرصہ دراز گرزرچکا ہوگا اور انپر کسی نے کوئی نقد نہ کیا ہوگا جسکا مطلب ہے کہ ہو درست حوالے ہیں لیکن باہر حال اُ ن اصل کتابوں کا وجود تو ہوگا لیکن وہ میری پہنچ سے باہر ہین۔
 
آپ اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا کریں برائے مہربانی اور یہ بات آپ اپنی پہلی یا دوسری تحریر میں مجھے بتا چکے ہیں کہ میں کوئی عالمہ نہیں ہوں نہ ہی میں نے کسی مدرسہ مین تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی میں نے اسکو بطور پیشہ اختیار کیا ہے بس اتنا ہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تو قرآن کریم کو ترجمہ و تفاسیر کے ساتھ پڑھا، احادیث کے تراجم وہ شروحات پڑھیں اور دیگر علماء کی کتابین پڑھیں اور یہی سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ جاری رہیگا۔ جبکہ جناب باقائدہ عالم و مدرس معلوم ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جناب کے پاس جو ذخیر کُتب ہوگا میں تو اسکا تصور بھی نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ کیا میری بات غلط ہے بیشک اسکے حوالے اصل کتابون سے نہ بھی ہوں لیکن کیا وہ گمراہی کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔? اگر میری بات گمراہی کی بات ہے یا غلط ہے تو جناب پر لازم ہے کہ اسکو ایسا ثابت فرمائیں اور اسکے مقابلہ میں درست عقیدہ بھی دلیل کے ساتھ پیش فرمائیں۔۔
جہاں تک جناب کی شکایت کہ وہ حدیث پیش کروں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کا حکم دیا ہو پیش کرنے کا تعلق ہے تو جناب یہ شکایت تو جناب نے از خود دور فرمادی کیونکہ اگلے جملہ میں جناب نے تحریر فرما یا ہے کہ """"میری پیاری بہن جو جواب آپ نے تحریر کیا ہے وہ صحیح ہے"""""" مجھے امید ہے کہ شکایت بھی ختم ہوگئی ہوگی۔
اب جناب کی اس بات کی طرف آتی ہوں کہ جناب نے فرمایا """"اگر کوئی بھی انسان یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی محبت اور دین کی سمجھ صحابہ اکرام سے زیادہ ہے تو وہ یقینا جہنمی ہے۔""""""" میں ایک طرف تو اس سے اتفاق کرتی ہوں اور مزید عرض ہے کہ میں بھی اس سے مکمل اتفاق کرتی ہوں۔۔۔ لیکن ایسا کس نے اور کہا فرمایا یہ ایک ضروری بات ہے وہ جناب نے نہیں بتائی تو اس پر کیا جواب دوں۔۔
?
 
اس آگے کی جتنی بھی تحریر جناب کی ہے وہ بالکل درست اور صحیح ہے لیکن اس سے کسی نے اختلاف ہی نہیں کیا تو اتنا صفحہ کالا کرنے کا فائدہ۔۔۔۔۔۔
???????
نہ تو مین نے کہیں اپنی کسی تحریر میں اصحاب رسول کے ایمان پر کوئی لفظ تحریر کیا ہے اور نہ ہی کر سکتی ہوں تو تنقید کا کیا مطلب ہے۔
????

لیکن اس تحریر میں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ جسکی زندگی میں صحابہ کی اطاعت کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ گمراہی ہے (اپنے الفاظ میں جناب کی تحریر پیش کی ہے اگر غلط ہو تو مطلع فرمائیں) ۔۔۔۔ میرے بھائی، میرے عزیز اصل بات یہی ہے کہ صحابہ کرام کی اطاعت بھی مشروط ہے نہ کہ غیر مشروط، جو فرما رسول مین نے جناب کی خدمت میں اپنی اولاامر والی تحریر مین پشی کئیے ہیں انکا مطلب بھی تو یہی ہے کہ غیر مشروط اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی اور اسکے بعد تمام کی اطاعت اس اطاعت کے ساتھ مشروط۔ ۔۔۔ اپنی اس بات کو جناب سے تسلیم کرانے کے لئے میں ایک سوال کرتی ہوں کہ اگر اپ کو کسی صحابی کا قول ایسا ملے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکم کے خلاف ہو تو کیا آپ اسکی اطاعت کرینگے۔ (میں یہ ایمان رکھتی ہوں کہ کسی صحابی نے کبھی کوئی قول ایسا نہیں کہا جو اللہ اور رسول کے حکم کے خلاف ہو)آپ کے اس سوال کے جواب پر یہ بات طے ہو جائیگی۔۔ یہ بھی یاد رکھئے گا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے کہ اگر میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کروں تو تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر میں اسکے خلاف کروں تو تم مجھے سیدھا کردو۔۔۔اسکے علاوہ غیر مشروط اطاعت تو صرف معصوم عن الخطا کی ہوسکتی ہے جبکہ دنیا کا ہر انسان سے غلطی کا امکان ہے لیکن وہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی غلطیوں کو بھی معاف فرما کر ان سے راضی ہونے اور انکو راضی کرنے کا اعلان فرما یا ہے۔
دیکھئے مسند امام احمد کے مترجم و شارح مولانا محمد ظفر اقبال حنفی نے اپنی کتاب مسند احمد میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کی آخری نماز بھی تطبیق کے ساتھ رکوع سے پڑھی لیکن آج کوئی بھی اسکی اطاعت نہیں کرتا کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
????????????
اسکی اگر اطاعت کی جائیگی تو کیا نماز ہو جائیگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
??????????????
 اب آخری بات: یہ جو میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالا دیا ہے جبکہ اسکے لئے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا، اور میری تحریرون میں اسی قسم کے مزید بھی اور شروع سے اب تک ایسا ہی ہے۔ پر جناب کو اعتراض ہے کہ میں تمام تر حوالے و تفصیل تحریر نہیں کرتی تو جناب بھائی صاحب ! میرا واسطہ ایک مذہبی عالم سے ہے اور عالم کے علم میں کیا کچھ ہوتا ہے اسکا ذکر غیر ضروری ہوگا تو اگر میں نے کوئی ایسی بات تحریر کی ہے جسکا باقائدہ حوالہ نہیں ہے اور اگر واقعی اور حقیقتا" وہ آپ کے علم میں نہیں ہے تو مجھے وہ خاص بات ضرور تحریر فرمائیں تو میں ضرور لکھوں گی لیکن صرف صفحے کالے کرانے کے لئے انکی تکرار چے مان دارد۔۔۔۔
?
سامنے والے کی حیثیت، علمیت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے ہی بات کی جاتی ہے نہ کہ رسم کو پورا کرنے کے لئے طویل تحریریں ۔۔۔

اب جناب سے مجھے ایک شاکایت ہے جو میں مودبانہ پیش کرتی ہوں۔

ہمارے درمیان گفتگو ہورہی تھی توحید و ایمان پر، جسپر جناب نے کوئی جواب نہ دیا اور موضوع کو لے گئے سنت و حدیث کی تعریف پر، وہ ابھی ختم نہ ہوئی تو جناب نے گفتگو کو موڑ دیا اولولاامر کی طرف وہ ابھی مکمل نہ ہوا تو جناب چل پڑے متعہ کی طرف۔ سوئے ادب مزید کچھ نہ تحریر کرتے ہوئے امید رکھتی ہوں کہ اس شکایت کو دور فرمائینگے۔ جسکے لئے میں جناب بھائی صاحب کی بے حد شکر گزار ہونگی۔۔ اب بھی شکریہ
 


 

To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Mon, 16 Apr 2012 02:05:20 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
 
میری پیاری بہن اسلام علیکم و رحمت اللہ،
سب سے پہلے تو میں یہ بات عرض کر دوں کہ قرآن کریم اور احادیث کا زیادہ تر خزانہ عربی زبان میں ہے۔ آپ ترجمہ کو پڑھ کر اپنی بات کو ثابت کرتی ہیں اور میں ان کے منبع سے آپ کو معلومات فراہم کرتا ہوں۔
 
ائمہ اربعہ یا ان کے شاگردوں کی کون کون سی کتابوں میں موطا کو جائز یا حلال قرار دیا گیا ہے براہ مہربانی ان کا حوالہ ضرور پیش کریں۔ بہتر تو یہ ہے کہ اصل کتابوں میں موجود ہو یعنی عربی میں۔ آپ سے خصوصی طور پر یہ التجا ہے، امید کرتا ہوں میرے بہن مجھے مایوس نہیں کرینگی۔
آپ سے مجھے ایک شکایت ہے میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ اللہ کے نبی کی کوئی ایسی حدیث موجود ہے جس میں انہوں نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کو لازم قرار دیا ہو؟
 
میری پیاری بہن جو جواب آپ نے تحریر کیا ہے وہ صحیح ہے لیکن دوبارہ اس بات کو عرض کرنا چاہنوگا کہ کلام الاہی یا احادیث کا حوالہ دیتے وقت پورے کلام الاہی اور احادیث پر نظر رکھنا ایک ضروری امر ہے۔
 
اپنی سابقہ میل میں ہی میں نے جناب کو یہ بتا دیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے بلکہ کتاب اللہ میں تو یہاں تک ہے کہ رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے اور رسول کی نافرمانی دراصل اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ ایک مکمل بات ہے اور  اس سے زیادہ کیا آپ کو دلیل چاہئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم اللہ کے رسول نے خود اور اللہ تعالیٰ نے بھی دیا ہے۔  اسکے علاوہ صحابہ کرام، علماء و امرا یا کسی کی بھی اطاعت کا حکم اسطرح غیہر مشروط نہیں جسیا کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا غیر مشروط حکم ہے، اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف دنیا کے کسی شخص یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت بھی ضرور نہیں بلکہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے خلاف حکم کو نہ ماننا حقیقی اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔یہ ایک مکمل بات ہے لیکن اگر آپ اسکو نہ سمجھنے کی ہی قسم اٹھا چکے ہیں تو پھر واقعی میں نے کوئی دلیل نہیں دی۔ لیکن اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات صد فیصد مکمل ہے۔
میرا نہیں خیال کہ ماسوا کسی مخصوس ارادے کے  اس میں کوئی کمی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ کسی کی اطاعت غیر مشروط ہے۔ اگر آپ اس جواب کو کسی خاص زاوئے سے سننا چاہتے ہیں تو اور بات ہے۔ تو پھر آپ خود ہی فرما دیں کہ آپ کیا سننا چاہتے ہین۔۔۔?
 
اگر کوئی بھی انسان یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی محبت اور دین کی سمجھ صحابہ اکرام سے زیادہ ہے تو وہ یقینا جہنمی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی نے صاف کہا ہے کہ ایمان کی کسوٹی کو حصابہ اکرام کے ایمان پر پرکھا جائے گا، کیونکہ صحابہ اکرام کے معیار کو دنیا کی کوئی بھی مخلوق نہیں پہنچ سکتی۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا "رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ"۔ اگر اس بات سے آپ کا کوئی انکار ہو تو ضرور بتائیں۔
 
اب ذرا آپ صحابہ اکرام کے بارے میں نازل ہونے والی آیات اور حدیث مبارک پر بھی غور کر لیں۔
 
 
أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ
 
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے جا بجا انہیں '' ایماندار '' کے لقب سے نوازا بلکہ یہ اعلان فرمایا :
أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے ـ اور انہیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے ـ المجادلة 22
گویا ان کے دلوں میں ایمان نقش برحجر کی مانند لکھ دیا گیا ہے اور فرمایا :
وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا
اور انہیں تقوی کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے لائق تھے ـ'' الفتح 26
سورة الأنفال میں اللہ سبحانہ وتعالی مہاجرین اور انصار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد فرمائی یہی لوگ سچے مومن ہیں ، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ـ الأنفال (74)
 
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (115 النساء)
'' اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے ، اس کے بعد اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستہ کے سوا( کسی اور راستہ ) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرح پھیردیں گے جس طرف وہ پھیرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے ـ''
یہاں سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ '' سے مراد اول دہلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ اور طریقہ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقہ سے جدا طریقہ اخیتار کرنا اور سراسر ضلالت اور جہنم کا راستہ ہے ، حدیث میں بھی گمراہی سے بچنے کا معیار یہ بیان ہوا ہے ـ '' «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِي»'' جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ـ ''جامع الترمذي 2641
 
اب اگر کوئی شخص اپنے ایمان، اپنی سمجھ کو صحابہ اکرام پر فوقیت دیتا ہے یا یہ کہتا ہے فلاں معاملہ میں انہوں نے اللہ کے نبی کی مخالفت ہے اس لیے اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسول کی ہی ہونی چاہیے۔ تو معاذاللہ نہ تو اللہ کو صحابہ اکرام کے ایمان اور سمجھ کے بارے میں معلوم تھا اور نہ اللہ کے نبی کو۔ ورنا قرآن کریم میں انہیں "رضی اللہ عنھم و رضو عنہ" کی کیا ضرورت تھی۔ اللہ کے نبی نے ایمان کا معیار بہت شاندار الفاظ میں کیا ہے " مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِي "
 
میں یہ بات بھول گیا تھا کہ آپ کو عربی نہيں آتی اسی لیے مینے مندرجہ ذیل سورۂ کی تفسیر تلاش کرنے کے لیے آپ سے کہا تھا۔ لیکن اگر آپ عربی جانتی ہوتی تو شاید یہ بھی جان لیتیں کہ صحابہ اکرام نے اس آیت کے بارے میں کیا کہا
 
يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله ; وأطيعوا الرسول , وأولي الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء , فردوه إلى الله والرسول . إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر . ذلك خير وأحسن تأويلا
 
وعن حذيفة بن اليمان قال : كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير ، وكنت أسأله عن الشر ، مخافة أن يدركني ، فقلت : يا رسول الله ، إنا كنا في جاهلية وشر ، فجاءنا الله بهذا الخير ، فهل بعد هذا الخير من شر ؟ قال : نعم ، فقلت : هل بعد ذلك الشر من خير ؟ قال : نعم ، وفيه دخن ، قال : قلت : وما دخنه ؟ قال : قوم يستنون بغير سنتي ، ويهتدون بغير هديي ، تعرف منهم وتنكر ، فقلت : هل بعد ذلك الخير من شر ؟ قال : نعم : دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها ، فقلت : يا رسول الله ، صفهم لنا ؟ قال : نعم ، قوم من جلدتنا ، يتكلمون بألسنتنا ، قلت : يا رسول الله ، فما ترى إذا أدركني ذلك ؟ قال : تلزم جماعة المسلمين ، وإمامهم . فقلت : فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام ؟ قال : فاعتزل تلك الفرق كلها ، ولو أن تعض على أصل شجرة ، حتى يدركك الموت وأنت على ذلك .
 
السلام عليكم
تفسير قوله تعالى: "يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم"
1-أبو جعفر محمد بن جرير الطبري –رحمه الله- (ت: 310):
قال -رحمه الله- في "جامع البيان" (4/150): "واختلف أهل التأويل في "أولي الأمر" الذين أمر الله عباده بطاعتهم في هذه الآية.
فقال بعضهم: هم الأمراء"، ثم ساق بسنده من قال ذلك؛ ومنهم: أبو هريرة، وابن عباس، وميمون بن مهران، وابن زيد، وغيرهم.
"وقال آخرون: هم أهل العلم والفقه"، ثم ذكر من قال ذلك؛ ومنهم: جابر، ومجاهد، وابن أبي نجيح، وابن عباس كذلك، وعطاء بن السائب، والحسن، وأبو العالية.
"وقال آخرون: هم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم"، وممن قال هذا: مجاهد.
"وقال آخرون: هم أبو بكر وعمر -رحمهما الله-"، وممن قال هذا: عكرمة.
"وأولى الأقوال في ذلك بالصواب قول من قال: هم الأمراء والولاة؛ لصحة الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بطاعة الأئمة والولاة فيما كان لله طاعة، وللمسلمين مصلحة"، ثم ساق بعض الأخبار في ذلك، ثم قال: "فإذ كان معلوما أنه لا طاعة واجبة لأحد غير الله أورسوله، أو إمام عادل، وكان الله قد أمر بقوله: "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم" بطاعة ذوي أمرنا، كان معلوما أن الذين أمر بطاعتهم تعالى ذكره من ذوي أمرنا هم الأئمة ومن وَلَّوْه المسلمين، دون غيرهم من الناس، وإن كان فرضا القبول من كل من أمر بترك معصية الله ودعا إلى طاعة الله، وأنه لا طاعة تجب لأحد فيما أمر ونهى فيما لم تقم به حجة وجوبه، إلا للأئمة الذين ألزم الله عباده بطاعتهم فيما أمروا به رعيتهم مما هو مصلحة لعامة الرعية، فإن على من أمروه يذلك بطاعتهم، وكذلك في كل ما لم يكن لله معصية.
وإذ كان ذلك كذلك كان معلوما بذلك صحة ما اخترنا من التأويل دون غيره".
2- أبو عبد الله محمد بن أحمد القرطبي –رحمه الله- (ت: ):
قال في "الجامع لأحكام القرآن" (3/1830) -بعد ذكر الخلاف-:"وأصح هذه الأقوال الأول والثاني [أي مذهب أبي هريرة، ومذهب جابر]؛ أما الأول فلأن أصل الأمر منهم والحكم إليهم، وروى الصحيحان عن ابن عباس قال: نزل "يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم" في عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي السهمي إذ بعثه النبي صلى الله عليه وسلم في سرية ...[وفيه قصة]... وأما القول الثاني فيدل على صحته قوله تعالى: "فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول"، فأمر الله تعالى برد المتنازع فيه إلى كتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم، وليس لغير العلماء معرفة كيفية الرد إلى الكتاب والسنة، ويدل هذا على صحة كون سؤال العلماء واجبا، وامتثال فتواهم لازما، قال سهل بن عبد الله: لا يزال الناس بخير ما عظموا السلطان والعلماء، فإذا عظموا هذين أصلح الله دنياهم وأخراهم، وإذا استخفوا بهذين فسد دنياهم وأخراهم".
3- أبو محمد الجسين بن مسعود البغوي –رحمه الله- (ت: 510):
قال في "معالم التنزيل" (2/59): "اختلفوا في أولي الأمر، قال ابن عباس وجابر رضي الله عنهم: هم الفقهاء والعلماء الذين يعلمون الناس معالم دينهم، وهو قول الحسن، والضحاك، ومجاهد، ودليله قوله: "ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم". وقال أبو هريرة: هم الأمراء والولاة، وقال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: حق على الإمام أن يحكم بما أنزل الله، ويؤدي الأمانة، فإذا فعل ذلك فحق على الرعية أن يسمعوا ويطيعوا"، ثم ساق أدلة هذا القول.
4- شيخ الإسلام ابن تيمية –رحمه الله- (ت: 728):
قال -رحمه الله- في "الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح" (2/238): "وأولوا الأمر هم: العلماء والأمراء، فإذا أمروا بما أمر الله به ورسوله وجبت طاعتهم وإن تنازع الناس في شيء وجب رده إلى الله والرسول، لا يرد إلى أحد دون الرسل الذين أرسلهم الله، كما قال في الآية الأخرى: "كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْياً بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ" [البقرة:213].
والتحقيق -كما قال ابن القيم -رحمه الله- "أن الأمراء إنما يطاعون إذا أمروا بمقتضى العلم، فطاعتهم تبع لطاعة العلماء، فإن الطاعة إنما تكون في المعروف وما أوجبه العلم، فكما أن طاعة العلماء تبع لطاعة الرسول فطاعة الأمراء تبع لطاعة العلماء". [ نقلا من "معاملة العلماء" (ص 3)].
5- أبو الفداء إسماعيل بن كثير الدمشقي –رحمه الله- (ت: 774):
قال في "تفسير القرآن العظيم" (2/326) -بعد أن ساق أقوال أهل العلم وأدلتهم-: "والظاهر –والله أعلم- أنها عامة في أولي الأمر من الأمراء والعلماء كما تقدم، وقال تعالى: "لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم وأكلهم السحت"، وقال تعالى: "فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون"، وفي الحديث الصحيح المتفق على صحته عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصا الله، ومن أطاع أميري فقد أطاعني، ومن عصا أميري فقد عصاني"، فهذه أوامر بطاعة العلماء والأمراء، ولهذا قال تعالى: "أطيعوا الله" أي اتبعوا كتابه، "وأطيعوا الرسول" أي خذوا بسنته، "وأولي الأمر منكم" أي فيما أمروكم به من طاعة الله، لا في معصية الله، فإنه لا طاعة لمخلوق في معصية الله، كما تقدم في الحديث الصحيح "إنما الطاعة في المعروف".
6- محمد بن علي الشوكاني –رحمه الله- (ت: 1250):
قال في "فتح القدير" (1/618) –بعد أن ذكر الخلاف-: "والراجح القول الأول". وهوقول أبي هريرة رضي الله عنه: هم الأمراء والولاة.
7- عبد الرحمن بن ناصر السعدي –رحمه الله- (ت: 1376):
قال في "تيسير الكريم الرحمن" (ص 183): "وأمر بطاعة أولي الأمر، وهم الولاة على الناس، من الأمراء والحكام والمفتين، فإنه لا يستقيم للناس أمر دينهم ودنياهم إلا بطاعتهم والانقياد لهم، طاعة لله ورغبة فيما عنده، ولكن بشرط أن لا يأمروا بمعصية الله، فإن أمروا بذلك فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق".
8- عبد القادر بن شيبة الحمد –حفظه الله-:
قال في "تهذيب التفسير وتجريد التأويل مما ألحق به من الأباطيل" (3/321): "ومعنى: "أولي الأمر منكم" أي وأطيعوا أمراءكم وعلماءكم الذين يستنبطون الأحكام الشرعية من كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم ومن أصول الدين وقواعده".
وليس لي حظ من هذا إلا النقل، وليس لنا حظ من هذا الكلام إلا السمع والطاعة والعمل.
أسأل الله تعالى أن يجعلنا ممن يستمعون القول فيتبعون أحسنه.
 
صحابہ اکرام کے معیار کو گرانے اور ان کی سمجھ کے اپنے سے کم تر سمجھنے کا کام سب سے پہلے خوارج نے ہی کیا تھا جس کا ذکر میں نے اپنے پہلے میل میں کیا تھا۔ ان کا کہنا یہی تھا کہ اطاعت صرف اللہ کی ہونی چاہیے۔ اللہ کے نبی نے خوارج کے بارے میں کہا تھا کہ تم میں ایک قوم ایسی ہوگی جس کی نمازیں اور روزے تم میں سب سے بہتر ہونگیں وہ قرآن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پڑھیں گے لیکن اسے سمجھنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہوگی، اگر میں اسے پاتا تو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتا۔
 
خوارج کی یہ شر انگیزی آج بھی جاری ہے لیکن افسوس کہ کلام الہی میں صحابہ کی بیان کردہ صفات ان کی سمجھ میں نہیں آتیں کیونہ ان کا مقصد ہی لوگوں میں گمراہی پھلانا ہے۔
 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نزول وحی کے اولین گواہ اور صحبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ ہیں۔ ان پاکباز اور قدسی صفات کے حامل نفوس پر بداعتمادی کا واضح مطلب دین اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا اور پورے دین پر سے اعتماد کوختم کردینا ہے۔ قرآن کریم نے اس پاکباز جماعت کو "اولئک ھم الراشدون" (کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں) ،  "اولئک ھم المفلحون" (کہ یہی لوگ کامیاب ہیں) کے خطابات سے نوازا اور ان کے ایمان کو ایک نمونہ قرار دے کر اس جیسے ایمان کو ھدایت اور کامیابی کے لیے کسوٹی قرار دیا۔ ارشاد ہوتا ہے: "فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا" کہ اگر ھدایت لینی ہے تو صحابہ جیسا ایمان بنانے کی کوشش کرو۔
 
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اصحابی کالنجوم فبایہم اقتدیتم اھتدیتم" کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جائو گے۔  مزید ارشاد ہوا: "اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم"  کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہے ہوں تو ان سے کہنا کہ تمہارے اس شر اور فتنہ پروری پر اللہ کی لعنت ہو۔
 
اب اگر قرآن کریم میں صحابہ کے درجات اور اللہ کے نبی (صلی) کے اقوال کے باوجود بھی کسی کو یہ لگتا ہے کہ صحابہ کے راستے، ان کی ا طاعت اور ان کی زندگی کی ایمان  میں کوئی جگہ نہیں ہے تو، میری بہن مجھے لگتا ہے کہ میں ہی گمراہ ہو گیا، ہدایت کی ضرورت مجھ جیسے جاہل کو ہو۔ دعا کیجیے اللہ مجھے ہدایت عطا فرمائيں۔ آمین۔
 


From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Sunday, 15 April 2012 1:27 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 

محترم بھائی وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ۔
"آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمی ہے جسے آپ مانے یہ نہ مانے یہ آپ کی مرضی ہے۔ "   جی بالکل میں  مانتی ہوں کہ مجھے میں یقنا" بہت کمیاں ہیں لیکن یہ بات تو سب پر ہی لاگو ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی تمام علوم پر مکمل دسترس نہیں رکھتا۔ لیکن کمی کو دورکرنے کی جتنی تڑپ میں اپنے میں پاتی ہوں وہ مین ہی جانتی ہوں اور ہر لمحہ کوزشاں ہوں۔

" اللہ کے  نبی نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کو ہی واجب اور فرض قرار دیا ہے یا نہیں، اگر ہاں تو اسے دلیل سے ثابت کریں "
اپنی سابقہ میل میں ہی میں نے جناب کو یہ بتا دیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے بلکہ کتاب اللہ میں تو یہاں تک ہے کہ رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے اور رسول کی نافرمانی دراصل اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ ایک مکمل بات ہے اور  اس سے زیادہ کیا آپ کو دلیل چاہئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم اللہ کے رسول نے خود اور اللہ تعالیٰ نے بھی دیا ہے۔  اسکے علاوہ صحابہ کرام، علماء و امرا یا کسی کی بھی اطاعت کا حکم اسطرح غیہر مشروط نہیں جسیا کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا غیر مشروط حکم ہے، اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف دنیا کے کسی شخص یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت بھی ضرور نہیں بلکہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے خلاف حکم کو نہ ماننا حقیقی اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔یہ ایک مکمل بات ہے لیکن اگر آپ اسکو نہ سمجھنے کی ہی قسم اٹھا چکے ہیں تو پھر واقعی میں نے کوئی دلیل نہیں دی۔ لیکن اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بات صد فیصد مکمل ہے۔
میرا نہیں خیال کہ ماسوا کسی مخصوس ارادے کے  اس میں کوئی کمی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ کسی کی اطاعت غیر مشروط ہے۔ اگر آپ اس جواب کو کسی خاص زاوئے سے سننا چاہتے ہیں تو اور بات ہے۔ تو پھر آپ خود ہی فرما دیں کہ آپ کیا سننا چاہتے ہین۔۔۔?

"" اس کا جواب ہے؛ بات اس کی مانی جائے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، متقی و پرہیز گار ہو، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہو، اپنی زندگی میں اللہ کے نبی کے طریقہ کو شامل کرتا ہو، امین و صادق ہو، علمی اور روحانی صلاحیت رکھتا ہو، اور جس نے اللہ کی نبی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا ہو۔ یہی سوال اس بات کا ہے کہ آپ کا مطالعہ کتنا، آپ نے اس شخص کے بارے میں اس کی تعلیم کے بارے میں کہاں تک معلومات حاصل کی ہے۔ اگر آپ نے یہ حدیث پڑھی ہوتی تو شاید یہ سوال آپ کھی نہ کرتی۔ ""
کسی شخص کو اس معیار پر جانچنے کا کیا اصول یا طریقہ ہے وہ بھی مندرجہ بالا اطاعت کی تعریف میں ہی آتا ہے ۔ ہاں وہ دوسری بات ہے کہ اپ کسی خاص شخصیت کو اس معیار پر پورا اتار کر باقی  تمام کو اس سے باہر کرنا چاہتے ہوں، یہ نرا تعصب ہوگا اور با الفاظ دیگر اللہ اور اسکے رسول کی نا فرمانی بھی۔ میرا فرض ہے کہ جہاں بھی اللہ اور رسول کی نافرمانی دیکھوں اسکو کم از کم اپنی تحریر یا زبان سے ضروررد کردوں کیونکہ معصیت کو دیکھ کا خاموش رہنا بھی بہت بڑا جرم ہے جو میں کرنا نہیں چاہتی، چاہے زمانہ ناراض ہوتو ہو۔ مصائب پر صبر کرنا ہی مومن کی نشانی ہے ، سورۃ عصر دیکھیں۔۔۔۔

"" خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ""
صحابہ رضی اللہ عنہا ہی تو  سب سے پہلے خیر القرون ہیں ۔جب انکی بات بھی خلاف اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مانی جاسکتی تو باقی  کی کیا حیثیت ہے۔۔۔?    شرح کو اگر آپ میرے لئے آسانی کے خاطر اردو میں فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا میں عربی سے نا بلد لوں۔

جہاں تک متعہ کے بارے میں ہے تو میں جناب کی سابقہ میل سے یہ سمجھی تھی کہ اپ کا اشارہ شیعہ کی طرف ہے لیکن اب آپ نے اپنا تعصب ظاہر کرتے ہوئے اسے اہل حدیث کی طرف ظاہر کیا ہے لیکن یہ آپکا ایک ذاتی اور گھٹیا الزام ہی ہے اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کوئی اہل حدیث متعہ کو جائز نہیں مانتا اور اسکی دلیل خود آپ ہی کی تحریر میں موجود ہے۔ اگر آپ کے بقول کوئی اہل حدیث ایسا کررہا ہے تو وہ یقینا" اہل حدیث نہیں بلکہ کسی  جماعت کا "عبداللہ ابن سبا " اور اسکا گروپ ہوگا۔  اسکے برعکس میں جناب کو فقہ حنفی سے یہ ثابت کر سکتی ہون کہ متعہ احناف کے مذاہب میں جائز ہے۔ اگر آپ کو نہ معلوم ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔?????
اسکے علاوہ کئی علاقوں کی حنفی مساجد کے اماموں نے تو اس کام کو باقئدہ جاری کیا ہوا ہے یہ میرے ذاتی علم میں ہے، لیکن انکی نشاندھی ممکن نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسا ہورہا ہے۔۔

میں تو جناب کی ہر ہر بات کا جواب با تفصیل مسلسل دے رہی ہوں لیکن اگر آپ پڑھنا گوارا فرمائیں تب۔  جبکہ آپ میری کسی تحریر اور سوال کا جواب نہیں دے رہے۔ پھر بھی الزام مجھ پر ہی ہے۔ میری سابقہ میل ہی کو دیکھ لیں کتنے ہی سوالا جو نہایت اہم ہیں کے بارے میں جناب کی طرف سے مکمل خاموشی ہی ہے۔ 
ٴ
آخری بات : میں نے جناب کو دعوت نہیں دی تھی کہ جناب میرے ساتھ گفتگو فرمائیں بلکہ اسکی پہل شاید آپ کی پہلی میل سے ہوئی، کیونکہ میری تحریر پر جناب ہی کی پہلی میل آئی تھی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میرے سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت جناب میں نہیں ہے اورایک دن
 یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں ایمان و توحید اور تقلید شخصی کے بارے میں ایک درست عقیدہ رکھتی ہوں اور آپ کا عقیدہ غیر درست ہے۔ جسکے ثابت ہوجانے کا جناب کو شدت کے ساتھ خوف ہے تو بے شک گفتگو کو بند فرمادیں ۔

گیند جناب کے کورٹ مین ہے۔ ولسلام علییکم۔۔۔
 
 

To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Sat, 14 Apr 2012 23:10:35 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
میری پیاری بہن اسلام علیکم و رحمت اللہ،
 
آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمی ہے جسے آپ مانے یہ نہ مانے یہ آپ کی مرضی ہے۔
 
اطاعت کے بارے میں مینے آپ سے 5 بار یہ سوال کیا کہ اللہ کے نبی نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کو ہی واجب اور فرض قرار دیا ہے یا نہیں، اگر ہاں تو اسے دلیل سے ثابت کریں جس کا جواب آپ نے اب تک نہیں دیا۔ آپ کسی دوسرے کے سوالوں کے جواب نہ دے تو کوئی بات نہیں، دوسروں کی تحریروں کو پورا پڑھے بغیر اپنے طور پر کوئی مطلب نکالیں تو صحیح۔ دوسروں پر لعن طعن کرنا چھوڑیں۔
 
رہا آپ کا سوال شخصی تقلید کا تو سوال یہ نہیں کہ تقلید کس کی کی جائے اور کس کی نہ کی جائے، یا تقلید ہی نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کلام اللہ، احادیث اور دین کو سمجھنے کے لیے کس کی بات مانی جانیں۔
 
اس کا جواب ہے؛ بات اس کی مانی جائے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، متقی و پرہیز گار ہو، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہو، اپنی زندگی میں اللہ کے نبی کے طریقہ کو شامل کرتا ہو، امین و صادق ہو، علمی اور روحانی صلاحیت رکھتا ہو، اور جس نے اللہ کی نبی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا ہو۔ یہی سوال اس بات کا ہے کہ آپ کا مطالعہ کتنا، آپ نے اس شخص کے بارے میں اس کی تعلیم کے بارے میں کہاں تک معلومات حاصل کی ہے۔ اگر آپ نے یہ حدیث پڑھی ہوتی تو شاید یہ سوال آپ کھی نہ کرتی۔
 
خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم
 
شرح آپ نیچے پڑھ سکتی ہیں۔
 
{ خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم } هذا من حيث الطبقة العامة لا من حيث كل فرد بذاته، ولا شك أن أفراد الصحابة جيل متميز لن يبلغ مثله أحد، أي: الطبقة العامة من الصحابة رضوان الله تعالى عليهم فهم أفضل الأمة جميعها، والطبقة التي تليهم وهم التابعون هم أفضل وخير من الطبقة التي بعدهم من هذه الأمة، ولكنك تجد أن في التابعين من هو خير وأكثر إيماناً ممن له مجرد صحبة، لأن الصحابة رضوان الله تعالى عليهم كما دل عليه حديث: {لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه } يدل على أن الصحابة كانوا طبقتين أيضاً، لأن المخاطب كان من الصحابة، وممن لهم صحبة، فالصحابة بمعنى أخص وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار هؤلاء درجة، ومن أسلم وجاهد من بعد الفتح أيضاً درجة.
 
فنقول: إن بعض أفراد التابعين، أي: كبار التابعين المجاهدين هم خير من آخر الطبقة الثانية، وهذا لا شك فيه، كما أن أفراداً من جيل تابعي التابعين من هو خير من أفراد التابعين... وهكذا، فهذا كطبقات.
 
أما الأمة في مجموعها فإن الخير فيها إلى قيام الساعة، وإذا كانت الطائفة المنصورة كما أخبر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تزال ظاهرة على الحق إلى قيام الساعة، فإنها قد تأتي مرحلة من المراحل فيها من الاستضعاف ومن الشر والظلم والكفر وما يكون عمل الواحد كخمسين، كما أخبر بذلك النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الحديث الآخر، فيكون حالها أعظم ممن كان في الأجيال أو القرون الثلاثة؛ بسبب ما حف به من المحن والبلاء وقلة المعين والنصير، لا أن هؤلاء في ذواتهم أو كأفراد فيهم من هو أفضل، لكن أيضاً بحسب الأحوال، فالخير في هذه الأمة باقٍ إلى قيام الساعة، والطائفة المنصورة لا تزال قائمة، وإن ضعفت في بلد فهي قوية في بلد آخر، فمن هنا ينبغي أن نعتقد أمرين:
 
أولاً: أن نعتقد أفضلية الثلاثة القرون الأولى على غيرها.
 
ثانياً: أن نعتقد أن هذه الأمة أمة مباركة خيرة، وأن الخير لا ينقطع فيها، وأن علينا أن نجاهد لكي نكون إن شاء الله ممن ينال شرف صحبة هؤلاء الكرام في الجنة، فيلحق بهم وإن لم يكن منهم، وإن لم يدركهم.
 
 
 
اب رہا سوال اللہ کے رسول اور ان کی اطاعت کا کہ اختالافت کی صورت میں اس معاملہ کے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے گا، بات ٹھیک ہے۔
 
قرآن کریم یا احادیث سے کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس انسان میں صلاحیت بھی ہونی چاہیے کیونکہ صرف قول کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
 
ہمارے علاقہ میں اہل حدیث کا ایک گروپ موطا کو جائز ٹھہرانے کے بارے میں بضد ہے اور سے صحیح مسلم سے ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کا پٹارا کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ اہل حدیث کا یہ گروپ عام لوگوں کو یہ کہ کر حدیث سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ کے نبی کی نافرمانی اللہ کی نا فرمانی ہے۔ اس لیے اس حدیث کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا کونسا فرد اپنی ماں،بہن یا بیٹی کو موطا کے لیے تیار کریگا۔ جو حدیثوں کا انکار کرتا ہے اس پر انہونے منکر حدیث کا فتوی لگا رکھا ہے۔ تو میری مخلص بہن اس مسئلہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کیسے لوٹائیں گیں ذرا واضح کر دیں۔
 
اگر آپ ان دونوں سوالوں کا جواب دیں سکیں جنہیں ہیں مینے پیلے رنگ سے ہائلائٹ کیا ہے تو ٹھیک ہے ورنا اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ کیونکہ اہل حدیث صاحبان صحیح بخاری کی وہ حدیث لوگوں کو دکھا کر حضرت عمر کے بارے میں وسوے پیدا کر رہے ہیں جو اللہ کے نبی کے آخری وقت وسال سے پہلے میں پیش آئی اور لوگوں سے کہ رہے ہیں کہ جو صحابی اللہ کے نبی کی بات کا انکار کرے کیا اس کی کوئی بات مانی جا سکتی ہے۔
 
اپنی بات پھر یہاں دہراتا ہو اگر سوالوں کے جواب دیں سکیں تو ٹیک ہے ورنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین


From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Saturday, 14 April 2012 3:56 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
بہت ہی محترم بھائی شمس ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو صحت اور شفاء عطا فرامائے۔ آمین
صحابہ کرام کے بارے میں اپکی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں، خوارج کے بارے میں جناب کی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں اگر یہ اشارہ کسی مومن کی طرف نہ ہو تو۔
جہان تک جناب کی تحریر اولواالامر سے متعلق ہے تو عرض ہے کہ جناب کی میل میں اولواالامر کی اطاعت میں یہ شبہ پیدا کیا گیا ہے ""اس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔ "" اس بارے میں کچھ تفصیل جو اسطرح ہے جو شاید جناب کی نظر میں نہ آئی ہو تفاسیر میں۔ کہ  " اس آیت کے بعد والے ٹکڑے میں اختلاف کے وقت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اولواالامر کی اطاعت عارضی ہے۔ یہ اطاعت عام اور سیاسی امور میں ہے۔نیز اللہ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط ہے جبکہ اُولواالامر کی اطاعت مشروط ہے جیسا کہ مشہور حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس اس آیت کے متعلق فرمایا ہے کہ (ترجمہ) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ میں امیر بنا کر بھیجا تھا (بخاری 4584 ۔ اس مشہور واقع کی تفصیل صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبداللہ بن حذافہ السہمی الرقم 4340 پر موجود ہے جسکے مطابق معصیت میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ چاہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کیا ہوا اُولواامر ہی کیوں نہ ہو اسکی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے نہ کہ منکر میں ۔
یہی بات صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (مسلمانوں کے امیر کا) حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ حکم پسند نہ آئے جب تک کہ وہ تمہیں کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جو وہ گناہ کا حکم دے تو ایسی صورت میں اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔۔بخاری و مسلم۔یہ ہے اولواالامر کے حکم کی حقیقت۔۔
محترم بھائی اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اولواالمر کی اطاعت صرف معروف کاموب میں ہے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے گا تو پھر کوئی سمع وطاعت جائز نہیں ہے پھر اولواالامر کی ہی نہیں بلکہ اولواالمر کے باپ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس حقیقت کو مزید تقویت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پاک سے ملتی ہے جو النساء:65 میں ہے کہ (ترجمہ) پس آپ کے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کر لیں۔۔ اس معنی کی مزید آیات بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔۔

میرے محترم بھائی ! اگر یہ آیت اپنے طلب پر جو آپ نے اپنی رائے سے  بیان فرمایا ہے پر پورئ اترتی ہوتی تو شیخ الحدیث و شیخ الھند مولانا محمود الحسن صاحب کو اپنی کتاب ادلہ کاملہ میں اس آیت میں تحریر کرکے اپنے مطلب پر لانے کی کوشش کرنے کئی ضرورت ہی نہ پڑتی۔یہ آیت آپ کے بیان کئے گئے مطلب پر پوری اترتی تو کیوں وہ اس میں اضافہ کرکے مقصد براری فرماتے۔۔۔۔? انہون نے اس آیت میں اضافہ کرکے آپ کے مطلب پر لانے کی کوشش کی لیکن اللہ بھلا کرے علماء حق کا کہ فورا" تاقب کیا اور عوام کے سامنے حقیقت کھول کر بیان فرمادی۔ اور انشاءاللہ تا قائم قیامت یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہیگا۔
اسکے علاوہ میں نے بار ہا اس بات پر ذور دیا ہے کہ اصل مسئلہ تقلید شخصی کا ہے  جسپر جناب نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب آپ خود ہی فرمائیں کہ یہ کیا انداز گفتگو ہے۔ سوال کچھ اور جواب کچھ۔۔
جناب کے آخری پراگافون کے بارے میں جہاں متعہ کا ذکر ہے تو یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ غلط کرتے ہیں، لیکن کسی ایک غلط فرقے کی بات کو دوسرے لوگون پر فٹ نہیں کیا جاسکتا،  اسکے علاوہ یہ بھی تو جناب نے ہی ثابت کرنا ہے کہ کون اپنی رائے سے قرآن کو سمجھتا ہے اور کو ن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو کُتب احادیث میں موجود ہیں جیسا کہ میں نے اولواالامر والی آیت میں ثابت کیا کہے کہ احادیث صحیحیہ کی روشنی میں جو مطلب اہل حدیث کا ہے وہ درست ہے اور جو مطلب جناب نے اختیار کیا ہے ہو درست نہین۔
 

میرے محترم بھائی تقلید شخصی پر بات کو آگے بڑھائیں۔۔

بھائی شمس میں نے اپنی میل میں سنت کی تعریف و اقسام تحریر کی تھیں اور جناب سے حدیث کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔  جناب نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار فرمائی ہے جبکہ مسئلہ بھی جناب نے ہی چھیرا ہے کہ سنت و حدیث میں فرق ہے۔۔  میری آپ سے گزارش ہے کہ جناب اس موضوع کو بھی مکمل فرمائیں۔
مزید برآں یہ کہ میں نے جناب کو ایک میل میں توحید و شرک کے بارے مین آیات و احادیث پیش کی تھیں تا دم تحریر جناب کی طرف سے اس بارے مین بھی مکمل خاموشی ہے۔ درخواست ہے کہ یا تو میرے دلائل کو قبول فرما کر میری حوصلہ افضائی فرمائیں اور شاباش دیں یا پھر با مقصد جوابی دلائل ارسال فرمائیں۔ شکریہ
 

 


To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Sat, 14 Apr 2012 16:02:21 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
 
میری پیارے بہن مسرت جہاں وعلیکم اسلام و رحمت اللہ و برکاتہ،
ایک بار پھر سے آپ کے رو برو پیش ہونے کا موقع ملا۔ جواب نہ دینے کی شکایت آپ کی معقول اور قابل قبول ہے۔ دراصل کچھ دنوں سے لگاتار راتوں کو جاگنے کی وجہ سے میرے طبیت کچھ زیادہ خراب ہو گئی ہے۔
 
جہاں تک تقلید کا تعلق ہے اس سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ یہ فرمایا ہے کہ ہماری نشانیوں پر غور و فکر کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا ہے وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ کلام الاہی کو آکھیں بند کر نے کے لیے تو اللہ تعالی نے بھی نہیں کہا اور اسی لیے اللہ نے اپنے نبی کو سب سے بہترین شارح بناکر بھیجا جس کے بعد یہ علم صحابہ اکرام کے ذریعہ آگے آنے والی نسلوں کو منتقل ہونے کے لیے محفوظ ہو گيا۔
 
اب میں یہاں آپ کے سامنے بہت تھوڑی سی بات خوارج کی بھی پیش کر دوں تو زيادہ اچھا ہوگا۔
 
خوارج ایک ایسا گروہ تھا جو رسول اللہ کی وفات کے بعد پیدا ہوا جس نے حضرت ابوکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) کو تو صحیح خلیفہ تسلیم کیا لیکن حضرت عمر اور علی (رضی اللہ عنھما) کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے حساب سے وہ لوگ قرآن کریم پر صحیح طرح سے عمل نہیں کرتے تھے اور اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کلام الہی کی آیات کو پیش کیا کرتے تھے۔ حضرت علی کو قتل کرنے کی بہت سی سازشیں ان کی طرف سے شروع بھی ہوئی کچھ کو ناکام بھی کیا گیا لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ان لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ لوگ صحابہ اکرام پر تہمتیں لگایا کرتے تھے اور کلام الاہی کو اپنے ہی انداز میں سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ان کی ایک خاصیت اور بھی تھی کہ یہ لوگ کلام اللہ اور احادیث کے لفظی معنوں پر ہی انحصار کیا کرتے تھے۔ خود حضرت علی کے زمانے میں بھی ان لوگوں نے ان کے فیصلوں کو کلام اللہ سے متضاد ‍‌قرار دیا۔ ان کی ایک نئی شاخ "الاباضية" کے نام سے بھی مشہور ہے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ صحابہ اکرام سے اس لیے بغض اور عداوت رکھتے ہیں کیونکہ ان ان کے نزدیک اطاعت صرف اللہ کی اور اللہ کے نبی کی ہی واجب ہے حالانکہ قرآن کریم کی واضح آیت
 
يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله ; وأطيعوا الرسول , وأولي الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء , فردوه إلى الله والرسول . إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر . ذلك خير وأحسن تأويلا
 
اس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔
 
کیونہ یہ لوگ خود تقلید کے مخالف تھے کلام الاہی کو سمجھنے اور احادیثوں سے استفادہ کرنے کے لیے یہ کسی بھی انسان کے رائے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔
 
اگر آپ اللہ کے نبی کی اس حدیث کو پڑھیں اور اس کی تفسیر سے استفادہ کریں تو یقینا آپ کو بہت فائدہ ہوگا:
 
خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم
 
آج ہمارے ملک میں ایک گروہ اور ایسا پیدا ہوا ہے جو براہ راست احادیث مبارک کی بنیاد پر تقلید کی مخالفت کر رہا ہے۔ میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ موطا کے بارے میں تو آپ جانتی ہی ہونگی۔ تمام ائمہ کے نزدیک قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسے حرام قرار دے دیا گیا ہے لیکن ایک فرقہ اسے اس لیے جائز قرار دے رہا ہے کیونکہ اس کے جائز ہونے کے ثبوت صحیح احادیثوں میں موجود ہہیں۔
 
جائز ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا رواج اللہ کے نبی کے زمانے تک رہا اور حضرت عمر نے اس پر حکم امتنائی عائد کیا۔
 
تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی کے مطابق کلام اللہ اور احادیثوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہیں یا وہ لوگ جو اللہ اور اس کے بنی سے سب سے زیادہ قریب رہے۔
 


From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
Sent: Friday, 13 April 2012 10:32 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
محترم بھائی شمس۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبراکتہ۔۔
آپ کی اس میل کو موصول ہوئے تین یوم گزرگئے ایسا لگتا تھا کہ آپ تقلید کے مطعلق اور سنت وحدیث کے فرق کو واضح کرنے کے لئے مزید معلومات یا تحریرات سے نوازیں گے۔ لیکن اس میل میں موجود معلومات میں جناب کی طرف سے مزید کوئی اضافہ یا معلومات فراہم نہ کی گئیں۔ 

آج تین دن بعد جرات کررہی ہوں کہ اس میل میں مزید اضافہ و معلومات فراہم کرنے کی درخواست کروں۔ اور ساتھہ ہی اس بارے میں اپنی معلومات بھی جناب سے شیر کرتی چلوں جو اسطرح ہیں۔۔
محترم بھائی ہم تقلید شخصی کے خلاف ہیں اور اسکے لئے ہمارے پاس متعد اقوال و تحریرات از طرف علماء مقلدین کی موجود ہیں جو اسکے خلاف ہیں۔ اور پھر تقلید شخصی کا حکم تو کسی امام نے دیا ہی نہیں تو پھر یہ زبردستی کیوں۔۔۔۔?
دوسری بات یہ کہ میری معلومات کے مطابق سنت کی تعیریف و اقسام اسطرح ہیں:   ""   سنت کی تعریف:
 سنت کا لغوی معنی طریقہ یا راستہ ہے، خواہ اچھا ہو یا برا ۔۔اسکی وضاحت کے لئے ترجمہ احادیث پیش ہے "حضرت ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ' جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا،تو جاری کرنے والے کو اپنے عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس اچھے طریقے پر چلنے ووالے دوسرے لوگون کے عمل کا ثواب بھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے کوئی برا طریقہ جاری کیا جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا تو اس پر اپنا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ کا بھی جنہوں نے اس پر عمل کیا جبکہ برے طریقے پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔صحیح سنن ابن ماجہ،للالبانی،الضزء الاول،رقم الحدیث 172
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے میرے طریقہ پر چلنے سے گریز کیاوہ مجھ سے نہی " بخاری کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح۔
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا '(میں نے یہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ) لوگوں کو علم ہوجائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے " بخاری، کتاب الجنائز،باب قرا ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ۔۔
سنت کی تین اقسام ہیں (2) سنتا فعلی (3) سنت تقریری
 ۔۔1۔۔ سنت قولی۔۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ارشاد مبارک "سنت قولی" کہلاتا ہے۔۔
۔۔2۔۔  رسول اکرم سلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کو "سنت فعلی" کہتے ہیں۔۔
۔۔3۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جو کام کیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہو یا اس پر اظہار پسندیدگی کیا ہو اسے "سنت تقریری" کہتے ہیں۔۔

جناب سےدرخواست ہے کہ مزکورہ تعریف و اقسام کے بارے مین اپے علم سے ہمیں بھی مستفید فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ""حدیث "" کے بارے میں بھی علمی مولومات فراہم فرمائیں۔ میں جناب کی بے حد شکرگزار ہوںگی۔

 

To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Wed, 11 Apr 2012 04:23:14 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)


assalamua alaikum warah matullahi wabaraktuhu,

My dear brother unless we learn and got the ability to differentiate between two words, we will not be able to understand Arabic language. As far as the matter of Taqleed is concerned, there are number of people opposing and favoring and each one of them claiming to be on the right path of Allah. ALLAH KNOWS BETTER
But, here, i would like to  tell you one thing that you can simply do, as it will help you to understand Taqleed in broader meaning.

learn and study the difference between Sunnah and Hadees.
What Mohammad (peace and blessing be upon him) said about Hadees and what he said about his Sunnah.
Sunnah is foundation and basis of your Islamic activities and rituals.

















From: Mohammad Usman <musman@kindasa.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>; "goooogle@yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Tuesday, 10 April 2012 4:22 PM
Subject: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)

 
 
 
 
Imitation (taqleed), following the evidence (daleel)

How can a person not make taqleed and still at the same time follow the teachings of one of the imams hanafi, maaliki, shaafi and ahmad bin hanbal (may allah (s.w) have mercy on them all). I am asking this because after reading a summary of the biography of Bin Baaz ( may allah (s.w) have mercy on him) that he followed the school of Ahmad Bin Hanbal (may allah(s.w) have mercy on him) but didn't do taqleed. Please explain this to me because I am confused .

Praise be to Allaah.  
Firstly: 
The followers of the madhhabs are not all the same. Some of them are mujtahids within their madhhab, and some are followers (muqallids) who do not go against their madhhabs in any regard. 
Al-Buwayti, al-Muzani, al-Nawawi and Ibn Hajr were followers of Imam al-Shaafa'i, but they were also mujtahids in their own right and differed with their imam when they had evidence. Similarly Ibn 'Abd al-Barr was a Maaliki but he differed with Maalik if the correct view was held by someone else. The same may be said of the Hanafi imams such as Abu Yoosuf and Muhammad al-Shaybaani, and the Hanbali imams such as Ibn Qudaamah, Ibn Muflih and others. 
The fact that a student studied with a madhhab does not mean that he cannot go beyond it if he finds sound evidence elsewhere; the only one who stubbornly clings to a particular madhhab (regardless of the evidence) is one who lacking in religious commitment and intellect, or he is doing that because of partisan attachment to his madhhab.  
The advice of the leading imams is that students should acquire knowledge from where they acquired it, and they should ignore the words of their imams if they go against the hadeeth of the Prophet SAWS (peace and blessings of Allaah be upon him). 
Abu Haneefah said: "This is my opinion, but if there comes someone whose opinion is better than mine, then accept that." Maalik said: "I am only human, I may be right or I may be wrong, so measure my words by the Qur'aan and Sunnah." Al-Shaafa'i said: "If the hadeeth is saheeh, then ignore my words. If you see well established evidence, then this is my view." Imam Ahmad said: "Do not follow me blindly, and do not follow Maalik or al-Shaafa'i or al-Thawri blindly. Learn as we have learned." And he said, "Do not follow men blindly with regard to your religion, for they can never be safe from error." 
No one has the right to follow an imam blindly and never accept anything but his worlds. Rather what he must do is accept that which is in accordance with the truth, whether it is from his imam or anyone else. 
Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah said: 
No one has to blindly follow any particular man in all that he enjoins or forbids or recommends, apart from the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him). The Muslims should always refer their questions to the Muslim scholars, following this one sometimes and that one sometimes. If the follower decides to follow the view of an imam with regard to a particular matter which he thinks is better for his religious commitment or is more correct etc, that is permissible according to the majority of Muslim scholars, and neither Abu Haneefah, Maalik, al-Shaafa'i or Ahmad said that this was forbidden. 
Majmoo' al-Fataawa, 23/382. 
Shaykh Sulaymaan ibn 'Abd-Allaah (may Allaah have mercy on him) said: 
Rather what the believer must do, if the Book of Allaah and the Sunnah of His Messenger (peace and blessings of Allaah be upon him) have reached him and he understands them with regard to any matter, is to act in accordance with them, no matter who he may be disagreeing with. This is what our Lord and our Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) have enjoined upon us, and all the scholars are unanimously agreed on that, apart from the ignorant blind followers and the hard-hearted. Such people are not scholars. 
Tayseer al-'Azeez al-Hameed, p. 546 
Based on this, there is nothing wrong with a Muslim being a follower of a certain madhhab, but if it becomes clear to him that the truth (concerning a given matter) is different from the view of his madhhab, then he must follow the truth.
 
And Allaah knows best.
 
Sheikh Muhammed Salih Al-Munajjid
 
Islam Q&A
 
 
~ Please join ~

< Al_Asr@Yahoogroups.com >
 
~And learn more about Islam
With Kind n Humble Regards,
Mohammed Usman
Jeddah-Saudi Arabia
 
The Messenger of Allah (sal Allahu alaihi wa sallam) said,
"When Allah wishes good for someone, He bestows upon him the understanding of the Deen." [Bukhari]
 
 










__._,_.___
Recent Activity:
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment