سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا مضمون قرآن کریم کی کئی آیتوں میں ارشاد ہوا ہے، اور یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ متواتر احادیث جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی اطلاع دی گئی ہے اور جن پر بقول مرزا صاحب کے "امت کا اعتقادی تعامل چلا آرہا ہے" وہ سب انہی آیات کریمہ کی تفسیر ہیں۔

پہلی آیت:
سورة الصف آیت:۹ میں ارشاد ہے: "وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول، ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ اسے غالب کردے تمام دینوں پر، اگرچہ کتنا ہی ناگوار ہو مشرکوں کو۔"
"یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے، اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دینِ اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے ․․․․․․ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیش گوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ یعنی حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر۔"
(براہین احمدیہ مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب ص:۴۹۸، ۴۹۹، روحانی خزائن ج:۱ص:۵۹۳، ۵۹۴)
"یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کردے یعنی ایک عالم گیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالم گیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔" (چشمہ معرفت مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب
ص:۸۳، ۹۱، روحانی خزائن ج:۲۳ ص۹۱)
جناب مرزا صاحب کی اس تفسیر سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
۱:…اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر دوبارہ آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
۲:…مرزا صاحب پر بذریعہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کی پیش گوئی کا جسمانی اور ظاہری طور پر مصداق ہیں۔
۳:…امت کے تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اسلام کا غلبہ کاملہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوگا۔
جناب مرزا صاحب کی اس الہامی تفسیر سے جس پر تمام مفسرین کے اتفاق کی مہر بھی ثبت ہے، یہ ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے اس قرآنی وعدہ کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ضرور دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ: "اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے۔"
(ابوداوٴد، مسند احمد، مستدرک حاکم)
بعد میں جناب مرزا صاحب نے خود مسیحیت کا منصب سنبھال لیا لیکن یہ تو فیصلہ آپ کرسکتے ہیں کہ کیا ان کے زمانے میں اسلام کو غلبہ کاملہ نصیب ہوا؟ نہیں! بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمان جناب مرزا صاحب کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ٹھہرے، ادھر مسلمانوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو اسلام سے الگ ایک فرقہ سمجھا، نتیجہ یہ کہ اسلام کا وہ غلبہ کاملہ ظہور میں نہ آیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے مقدر تھا۔ اس لئے جناب مرزا صاحب کے دعویٴ مسیحیت کے باوجود زمانہ قرآن کے وعدے کا منتظر ہے اور یقین رکھنا چاہئے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس وعدے کے ایفاء کے لئے خود بنفس نفیس تشریف لائیں گے، کیونکہ بقول مرزا صاحب ․․․ "ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔"
دوسری آیت:
سورة النساء آیت:۱۵۹ میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے اور تمام اہل کتاب کے ان پر ایمان لانے کی خبر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
"اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ اس کے موت اس کی کے پہلے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ۔"
(فصل الخطاب ج:۲ ص:۸۰ موٴلفہ حکیم نور دین قادیانی)
حکیم صاحب کا ترجمہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے فارسی ترجمہ کا گویا اردو ترجمہ ہے۔ شاہ صاحب اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
"یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ را البتہ ایمان آرند۔"
ترجمہ:…"یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو یہودی نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت موجود ہوں گے وہ ایمان لائیں گے۔"
اس آیت کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ:
۱:…عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانے میں دوبارہ تشریف لانا مقدر ہے۔
۲:…تب سارے اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۳:…اور اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔
پورے قرآن مجید میں صرف اس موقع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر ہے جس سے پہلے تمام اہل کتاب کا ان پر ایمان لانا شرط ہے۔
اب اس آیت کی وہ تفسیر ملاحظہ فرمائیے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔
صحیح بخاری ج:۱ ص:۴۹۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات میں امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے: "باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام" اور اس کے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ نازل ہوں تم میں ابن مریم حاکمِ عادل کی حیثیت سے، پس توڑدیں گے صلیب کو اور قتل کریں گے خنزیر کو اور موقوف کریں گے لڑائی اور بہ پڑے گا مال، یہاں تک کہ نہیں قبول کرے گا اس کو کوئی شخص، یہاں تک کہ ایک سجدہ بہتر ہوگا دنیا بھر کی دولت سے۔ پھر فرماتے تھے ابوہریرہ کہ پڑھو اگر چاہو قرآن کریم کی آیت: "اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے اور ہوں گے عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے اسی لئے حضرت ابوہریرہنے اس کے لئے آیت کا حوالہ دیا۔ امام محمد بن سیرین کا ارشاد ہے کہ ابوہریرہ کی ہر حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔
(طحاوی شریف ج:۱ ص:۲۱)
بخاری شریف کے اسی صفحہ پر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کی خبر دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "وامامکم منکم" فرمایا۔
یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں حدیثوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں حاکمِ عادل کی حیثیت سے اس امت میں تشریف لانا۔
۲:…کنز العمال ج:۷ ص:۲۶۷ (حدیث نمبر:۳۹۷۲۶ ص:۲۵۷) میں بروایت ابن عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ․․․․․ الخ۔"
۳:…امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات ص:۴۲۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "تم کیسے ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تم میں شامل ہوکر تمہارے امام ہوں گے۔"
۴:…تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "میرے اور عیسیٰ بن مریم کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہوا، دیکھو! وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔"
۵:…ابوداوٴد ص:۵۹۴ اور مسند احمد ج:۲ ص:۴۰۶ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "انبیاء کرام باپ شریک بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (شریعتیں) الگ الگ ہیں اور دین سب کا ایک ہے، اور مجھے سب سے زیادہ تعلق عیسیٰ بن مریم سے ہے کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔ اور بے شک وہ تم میں نازل ہوں گے پس جب ان کو دیکھو تو پہچان لینا، ان کا حلیہ یہ ہے قد میانہ، رنگ سرخ و سفید، دو زرد رنگ کی چادریں زیب بدن ہوں گی، سر سے گویا قطرے ٹپک رہے ہوں گے، خواہ ان کو تری نہ پہنچی ہو، پس لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، پس صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے اور مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے، پس زمین میں چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔"
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں جن سے آیت زیر بحث کی تشریح ہوجاتی ہے۔
اب چند صحابہ و تابعین کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے:
۱:…مستدرک حاکم ج:۲ ص:۳۰۹، در منثور ج:۲ ص:۲۴۱، اور تفسیر ابن جریر ج:۶ص:۱۴ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی خبر دی گئی ہے اور یہ کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ان کی موت سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۲:…ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی تفسیر یہ فرماتی ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا اور جب وہ قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے تو اس وقت جتنے اہل کتاب ہوں گے آپ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے۔ (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۱)
۳:…در منثور کے مذکورہ صفحہ پر یہی تفسیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ سے منقول ہے۔

۴:…اور تفسیر ابن جریر ج:۶ ص:۱۴ میں یہی تفسیر اکابر تابعین حضرت قتادہ، حضرت محمد بن زید مدنی (امام مالک کے استاذ)، حضرت ابومالک غفاری اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے۔ حضرت حسن بصری کے الفاظ یہ ہیں: "آیت میں جس ایمان لانے کا ذکر ہے یہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ہوگا۔ اللہ کی قسم! وہ ابھی آسمان پر زندہ ہیں، لیکن آخری زمانے میں جب وہ نازل ہوں گے تو ان پر سب لوگ ایمان لائیں گے۔"
اس آیت کی جو تفسیر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعینسے نقل کی ہے بعد کے تمام مفسرین نے اسے نقل کیا ہے اور اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی خبر دی ہے اور دورِ نبوی سے آج تک یہی عقیدہ مسلمانوں میں متواتر چلا آرہا ہے۔