بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔۔ اکثر وبیشتر ہم نے دیکھا کہ جب بھی غیر مقلدین سے ''تقلید'' کے موضوع پر کوئی گفتگو ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو عموما غیرمقلدین مقدمین علماء احناف کے حوالے سے تقلید کی تعریف کو بنیاد بنا کر گفتگو کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب انہیں متاخرین علماء کی تشریحات سے تقلید کی تعریف واضح کی جاتی ہے تو وہ اسے ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔
ویسے تو علماء کرام متعدد بار"تقلید" کی تعریف کے حوالہ سے وضاحتیں فرماچکے ہیں جو یقینا کسی بھی حق کے متلاشی کے لئے کافی و شافی ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باجود بھی غیر مقلدین کے بعض حضرات آج بھی عام سادہ لوح مسلمانوں کو تقلید کی تعریف کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
زیر نظر مضمون مقدمین علماء احناف کی طرف سے "تقلید" کی اصطلاحی تعریف پر ایک شبہ کے ازالہ کے طور پر ہم نے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ جو کہ مقدمین علماء احناف کی پیش کردہ تعریف میں "من غیر حجۃ " پر غیر مقلدین حضرات کے مشہور اعتراض جواب میں ہے کہ مقدمین علماء نے تقلید کی تعریف میں واضح کیا ہے کہ تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے ۔۔۔۔لہذا مقلدین بنا (شرعی) دلیل کے اپنے مجتھد کے قول پر عمل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
اس سے قبل ہم اپنی وضاحت پیش کریں ضروری ہے کہ آپ حضرات کو واضح کردیا جائے کہ یہ تحقیق ہم نے خود ترتیب دینے کی کوشش کی ہے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے ۔۔۔۔۔لہذا غلطیوں کی نشادہی ضرور کی جائے لیکن ہماری غلطیوں کو بنیاد بنا کر کسی پر طعن و تشنیع نہ کیا جائے کیوں کہ یہ مضمون ہمارا ترتیب دیا ہوا ہے اور علماء کرام و دیگر حضرات اس مضمون میں ممکنہ غلطیوں سے بری الذمہ ہیں۔
محترم قارئین کرام
جب ہم نے غور کیا کہ حضرات فقہائے کرام جن کی فقاہت کا زمانہ معترف رہا ہے ۔۔۔۔ اُن کی پیش کردہ "تقلید" کی تعر یف یوں کسی بنا کسی حکمت کے نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔۔لہذا اس حکمت پر غور کرتے کرتے کچھ نکات سامنے آئے جن کو ترتیب دے کر آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔۔۔۔ اس درخواست کے ساتھ کہ جن حضرات کو بھی ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو ضرور نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔۔۔۔۔نیز اہل علم حضرات سے خصوصی طور پر ہماری غلطیوں کی نشادہی کی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
عام طور پر یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مجتھدکا اجتھاد کن مواقع پر ہوتا ہے ؟؟
یعنی ایک مسلمان کو روز مرہ کی زندگی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔اُن کے جوابات کے لئے جب قرآن وحدیث سے رجوع کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں روز مرہ کی زندگی میں درپیش آنے والے بے شمار مسائل پرصراحت نہیں۔۔۔جن کو غیر منصوص مسائل(یعنی جن مسائل پر نص( قرآن کی آیت یا حدیث نہ ہو) کا نام دیا گیا ۔۔۔۔ان غیر منصوص مسائل کے لئے مجتھد قرآن وحدیث میں غوروفکر کرکے ان میں موجود چھپے مسائل کا استنباط(جواب تلاش کرنا) کرتا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف وہ مسائل ہیں جن پر نصوص(قرآن کی آیت یا حدیث) توموجود ہیں ۔۔۔لیکن ان منصوص مسائل پردو یا دو سے زائد نصوص ہوں اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے مجتھد اجتھاد کرتا ہے اور اپنے اجتھاد کی بنیاد پر ایک نص کو راجع(قابل ترجیح) قرار دیتا ہے ۔
اسی طرح بہت سے ایسے مسائل سامنے آئے جن پر نصوص بھی موجود تھیں ۔۔۔اور اُن میں دیگر نصوص سے تعارض بھی نہ تھا ۔۔۔لیکن ایسی غیر معارض نصوص میں بعض نصوص محتمل(مختلف معنوں کا امکان) ہوتی ہیں اوربعض محکم(کسی اور معنی کا امکان نہ ہونا بلکہ مفہوم صریح و واضح ہونا) ہوتی ہیں۔۔۔۔ محتمل یعنی ایسی نص جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پایا جائے۔۔۔۔لہذا مجتھد اجتھاد سے ایک معنی کو راجع (قابل ترجیح) قرار دیتا ہے۔
اور محکم وہ نص جو نہ معارض ہو نہ اسکے معنی میں کوئی احتمال ہو۔ اپنے مرادمیں واضح ہوں۔ ایسے نصوص میں کوئی اجتھاد نہیں۔ نا ہی ان میں تقلید ہے۔
باقی اس کے علاوہ جتنے بھی مقامات ہیں یعنی جو غیر منصوص مسائل ہیں۔۔۔ ۔ یا اگر کسی مسئلہ پر کسی آیت یا حدیث سے ثبوت پایا جاتا ہے تو وہ آیت یا حدیث اور بھی معنی اور وجوہ کا احتمال رکھتی ہو۔۔۔۔یا کسی دوسری آیت یا حدیث سے بظاہر متعارض معلوم ہوتی ہو۔
ایسے تمام مقامات پر حضرات مجتھدین جتنا بھی غور وحوض کے ساتھ احتیاط کے ساتھ اجتھاد فرمایا ہو ۔۔۔لیکن آخر کار مجتھد حضرات کیوں کہ غیر نبی تھے ۔۔۔اور ان کی رائے کو ایسی سوفیصد یقینی اور قطیعت حاصل نہیں جیسا کہ صاحب وحی کے فرامین کو یقین اور قطعیت حاصل ہوتی ہے۔
لہذامجتھدین حضرات کی تمام تر احتیاط اور کوششوں کے باوجود اُن کے اجتھاد میں خطاءکا احتمال باقی رہتا ہے ۔
لہذاجب واضح ہوجاتا ہے کہ مجتھد کا اجتھاد اُس وقت ہوتا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر قرآن و حدیث سے صریح ،محکم دلیل نہ پائی جاتی ہو ۔
تو پھر اس کے بعد قرآن وحدیث کی کسی بھی نص پر مجتھد کا اجتھاد اُس کا گمان تو ہوسکتا ہے کہ اس نص کا مفہوم فلاں مسئلہ کی دلیل ہے۔۔۔ لیکن مجتھد کے پاس صاحب وحی جیسا سوفیصدی یقین اور قطعی علم نہیں ہوتا کہ اسی نص کا مفہوم مسئلہ پر دلیل ہے ۔۔۔۔۔لہذا مجتھد کے گمان کو دلیل کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔۔۔ یوں اگر مقلد مجتھد کی دلیل جان بھی لیتا تب بھی مقلد کا عمل بنا دلیل کے ہوگا ۔
اور یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین حضرات ایسے مواقع پر اپنے گمان (یعنی کسی ایسے غیر منصوص مسائل پر یامحتمل نصوص یا متعارض نصوص کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنا) کو یقین اور قطعیت سے دلیل سمجھ لیتے ہیں اور پھر جو ان کے گمان سے اختلاف کرتا ہے اُس پر یہ حضرات مخالفت حدیث کا الزام لگادیتے ہیں ؟؟؟؟
گویا ان حضرات کی رائے نہ ہوئی بلکہ(معاذاللہ) حدیث ہوگئی کہ ان حضرات کا اخذکردہ مفہوم ہی مسئلہ پر سوفیصدی یقینی قطعی دلیل ہے ؟؟؟
البتہ وہ مقام کہ جن مسائل پر نص بھی موجود ہے ۔۔۔اور وہ نص کسی دوسری نص سے معارض بھی نہیں ۔۔۔۔اور وہ نص محتمل بھی نہیں ۔۔۔۔بلکہ اُس نص کی مراد واضح ،صریح اور محکم ہے ۔۔۔۔تو ایسے مقامات پر مسائل کی دلیل واضح،صریح اورمحکم ہونے کی وجہ سے اپنے مفہوم پر سوفیصدی یقین اور قطعیت کا درجہ رکھتی ہے ۔۔۔لہذا ایسے مقامات پر کیوں کہ (غیر متعارض صریح واضح محکم) دلیل ہے ۔۔۔۔۔تو پھر یقینا (غیر متعارض صریح واضح محکم)دلیل کی موجودگی میں کسی کی تقلید نہیں کی جاسکتی ۔۔۔۔ یہی مقلدین حضرات کا بھی موقف ہے کہ جہاں(غیر متعارض صریح ،واضح اور محکم) دلیل ہو پھر کسی کی تقلید نہیں ۔۔۔۔یعنی ایسے صریح مقامات پر نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ کسی کی تقلید درست ہے ۔
اس ساری وضاحت کو مثال کے ساتھ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر جیسے مسئلہ رفع یدین ایک اجتھادی مسئلہ ہے ...۔۔اور اس مسئلہ کے قائلین اور تارکین دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں
جیسے قائلین یہ روایت پیش فرماتے ہیں :
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه، وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع، ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ويقول " سمع الله لمن حمده". ولا يفعل ذلك في السجود.
یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اور دوسری روایت یہ ہے :
عن نافع أن ابن عمر كان إذا دخل فى الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال سمع الله لمن حمده . رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه . ورفع ذلك ابن عمر إلى نبى الله - صلى الله عليه وسلم - . رواه حماد بن سلمة عن أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبى - صلى الله عليه وسلم - . (صحیح بخاری:ـکتاب الأذان:باب رفع الیدین اذاقام من الرکعتین،حدیث نمبر739)
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے توتکبیرکہتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ،اورجب رکوع کرتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اورجب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دورکعتوں سے اٹھتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے،اورابن عمرَرضی اللہ عنہ اپنے اس عمل کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کرتے(یعنی کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھاکرتے تھے)۔
اور تارکین رفع یدین کے پاس یہ روایات ہیں :
امام مسلم یہ روایت کرتے ہیں :
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ(صحيح مسلم، 1 : 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کی ہے، امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے، مسند ابی عوانہ میں بھی روایت کی گئی، امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت کی ہے، امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں :
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة
ابن مسعود رضی اللہ عنہ (جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
اب سب سے پہلے(قطع نظر اس بحث کے دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کرکے کیا موقف پیش کیا ہے ...... اور فریقین نے اپنے اپنے مخالفین کے کس کس اعتراض کے کیا کیا جوابات فرمائے ہیں) تو یہاں یہ قیمتی نکتہ ذہن نشین کرنا ہے کہ نفس مسئلہ ہے کہ
''کیا امتیوں کو نماز میں رفع یدین کرنا ہے یا نہیں''
نفس مسئلہ ذہن نشین کرنے کے بعد جب ہم دونوں طرح کی روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے کہ دونوں طرح کی روایات میں نفس مسئلہ کی کوئی صراحت نہیں بلکہ آپس میں متعارض نظر آتیں ہیں ۔
یعنی دونوں طرح کی روایات میں یہ صراحت نہیں کہ آخری حکم کے مطابق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امتیوں کے لئے رفع یدین متعین ہوا ہے یا ترک رفع یدین متعین ہوا ہے ۔
لہذا جب کہنفس مسئلہ پر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی تعین نہیں۔
بلکہ دونوں فریقین کے مجتہدین حضرات نے اپنے اپنے اجتہاد سے رفع یدین کرنے کی یا ترک رفع یدین کی رائے پیش فرمائی
تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں فریقین کے عامی حضرات اپنے اپنے مجتھد کی رائے پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔نا کہ دلیل پر ؟؟؟
کیوں کہ نفس مسئلہ پر تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح دلیل موجود نہیں ۔
کیوں کہ نفس مسئلہ پر تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح دلیل موجود نہیں ۔
یوں عامی کا اپنی مجتھد کی رائے پر عمل کرنا بنا دلیل ہی ہوگا ۔
اور غیر مقلدین سمجھتے ہیں کہ مجتھد نے جس نص سے مسئلہ اخذ کیا۔۔۔۔۔وہ نص ''نفس مسئلہ'' کی دلیل ہے ۔
لہذا جب دلیل نظر آگئی تو مسئلہ تقلید سے خارج ہوگیا ؟؟؟
کیوں کہ تقلید بنا دلیل کے ہوتی ہے ؟؟؟
جبکہ غیر مقلدین حضرات یہ نہیں سمجھتے کہ:لہذا جب دلیل نظر آگئی تو مسئلہ تقلید سے خارج ہوگیا ؟؟؟
کیوں کہ تقلید بنا دلیل کے ہوتی ہے ؟؟؟
مجتھد کا نص سے مسئلہ اخذ کرنا اور بات ہے ......اور نص کا ''نفس مسئلہ'' پر دلیل ہونا اور بات ہے.۔
دلیل کتاب اللہ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غیر متعارض ،صریح ، واضح اورمحکم نص ہے۔
کسی مجتھد کی طرف سے نص سے اخذ کی گئی رائے کا نام دلیل نہیں
یعنی جب کوئی مجتھد کسی غیر منصوص مسئلہ پر کسی نص سے اپنی رائے اخذ کرتا ہے تو یہاں تو "غیر منصوص" سے خود واضح ہے کہ مسئلہ پر نص موجود نہیں ..دلیل کتاب اللہ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غیر متعارض ،صریح ، واضح اورمحکم نص ہے۔
کسی مجتھد کی طرف سے نص سے اخذ کی گئی رائے کا نام دلیل نہیں
اور جب مجتھد کسی ایسے مسئلہ پر نظر ڈالتا ہے کہ جس پر محتمل نص(جس کے دو یا دو سے زائد معنی نکلتے ہوں) ہو..... تو بھی ایسی نص کئی معنی کا احتمال رکھنے کی وجہ سے نفس مسئلہ پر صریح دلیل نہیں ہوتی.
لہذا جب مجتھد ایسے کسی مسئلہ کے جواب کے لئے غور و حوض کے بعد مختلف معنوں میں سے کسی ایک معنی کا انتخاب کرکے کسی مسئلہ کا جواب دیتا ہے تو اس جواب پربھی عمل کرنا نص کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ مجتھد کی رائے کی پیروی ہوتی ہے۔
کیوں کہ قرآن و حدیث کی نصوص کی پیروی کے لئے نصوص کی مراد کا خود اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حتمی طور پر متعین ہونا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یعنی جن نصوص کی مراد بالکل واضح ، صریح ، محکم اور غیر متعارض ہوگی وہ یقینی اور قطعی طور پر اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاء ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے انحراف کرنا سوفیصدی بغاوت اور نافرمانی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب قرآن و حدیث کی نصوص کی مراد کسی بھی وجہ سے واضح صریح محکم طور پر متعین نہیں تو اس کے بعد کسی بھی صاحب علم کا اپنے وسیع علم کی بنیاد پر غور حوض فرما کرکسی معنی یا مفہوم کو متعین کرنا اُس صاحب علم کا گمان ہوتا ہے کہ ممکن ہے اس نص سے اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مراد و منشاء یہی ہو ۔۔۔۔ تو ایسی نصوص پر مجتھد کی رائے پر عمل کرنا کس طرح قرآن و حدیث کی نافرمانی کہلاسکتی ہے ؟؟؟
لہذا عامی کا مجتھد کے بتائے ہوئے کسی ایسے مسئلہ پر عمل کرنا نص کی پیروی نہیں بلکہ مجتھد کی اُس رائے کی پیروی ہے جو مجتھد نے نص سے اخذ کی ہے......لہذا یہ بھی بنادلیل تقلید کرنا ٹھرا.
اس کے بعد جو نصوص متعارض ہیں(جس کی مثال ہم اوپر واضح کرچکے ہیں) اُن پر بھی عامی مجتھد کی رائے پر عمل کرتا ہے ......دلیل کی نہیں.
البتہ جو نصوص غیر متعارض اور اپنی معنوں میں محکم اور صریح ہیں ان نصوص کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ ایسی نصوص غیرمتعارض اور صریح محکم ہونے کی وجہ سے مسئلہ پر دلیل ہوتی ہیں....اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مقلدین حضرات خود بھی تقلید کے قائل نہیں(جیسا کہ ہم ماقبل بھی بیان کرچکے ہیں )
لہذا اس تفصیل کے بعد باآسانی واضح ہوجاتا ہے کہ تقلید بنا دلیل کے نہیں ہوتی بلکہ بنا دلیل والے قول کی ہوتی ہے .... (باالفاظ دیگر وہ قول جو شرعی حجتوں میں سے نہ ہو ....یعنی مجتھد کا قول نہ تو قرآن کی آیت ہے نہ حدیث ہے نہ اجماعی مقولہ ہے)
حضرات فقھائے کرام کا "تقلید" کی اصطلاحی تعریف میں "بنادلیل" سے مراد لوگوں کو یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ مجتھد کی رائے نصوص(دلیل شرعی)سے اخذ کی ہوئی ضرور ہوگی ..... لیکن مجتھد کی رائے نص (دلیل شرعی) نہیں بن جائے گی ......بلکہ مجتھد کی رائے کی بنا حجت (دلیل)شرعی ہوگی .....یعنی مجتھد کی رائے کو حجت شرعی (قرآن و حدیث و اجماع) کی حیثیت و مقام حاصل نہیں.....یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین کو مغالطہ ہوتا ہے کہ مقلدین بغیر دلیل کے مجتھد کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟.
اس ساری تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے مقلدین کے بہت سے اشکالات و اعتراضات کی باآسانی وضاحت ہوسکتی ہے.
(واللہ و اعلم بالصواب )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے .آمین
ضروری گذارش :تمام بھائیوں دوستوں اور خصوصا اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کسی بھی کمی کوتاہی نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔...نیز اگر کسی بھائی یا دوست کو اس وضاحت میں کوئی اشکال یا اعتراض نظر آتا ہے تو اس کی بھی نشادہی کی درخواست ہے .جزاک اللہ
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment