حیثیت تقلید
اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالٰی کی اطاعت کی جائے،یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اس لئے واجب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے احکام الٰہی کی ترجمانی فرمائی ہے،کونسی چیز حلال ہے؟ کونسی چیز حرام؟ کیا جائز ہے؟ کیا ناجائز؟ ان تمام معاملات میں خالصۃً اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے ، اور جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو، اور اس کو مستقل بالزات مطاع سمجھتا ہو وہ یقیناً دائزہ اسلام سے خارج ہے، لہٰزہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی اطاعت کرے۔
لیکن قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں ہر معمولی لکھا پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اجمال،ابہام یا تعارض نہیں ہے، بلکہ جو شخص بھی انہیں پڑھے گا وہ کسی الجھن کے بغیر ان کا مطلب سمجھ لے گا، مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے:-
لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا
الحجرات،،سورۃ نمبر49آیت12
ترجمہ:- "تم میں سے کوئی کسی کو پیٹھ پیچے برا نہ کہے"
جو شخص عربی جانتا ہو وہ اس ارشاد کے معنی سمجھ جائے گا ، اور چونکہ نہ اس میں کوئی ابہام ہے اور نہ کوئی دوسری شرعی دلیل اس سے ٹکراتی ہے، اسلئے اس میں کوئی الجھن پیش نہیں آئے گی، یا مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :-
لا فضل لعربی علی عجمی
"کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں"
یہ ارشاد بھی بلکل واضح ہے، اس میں کوئی پیچیدگی اور اشتباہ نہیں ، ہر عربی داں بلا تکلف اس کا مطلب سمجھ سکتا ہے، اسکے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال پایا جاتا ہے، اور ایسے بھی ہیں جو قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے ہیں ، ہر ایک کی مثال ملاحظہ فرمائیے:-
(1)
وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ
سورۃ: 2 آیۃ: 228
"اور جن عورتوں کو طلاق دیدی گئی ہو وہ تین "قر"۔گزرنے تک انتظار کریں گی"
اس آیت میں مطلقہ عورت کی عدت بیان کی گئی ہے ، اور اس کے لئے "تین قر" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن "قر" کا لفظ عربی میں "حیض" (ماہواری) کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور "طہر" (پاکی) کے لئے بھی، اگر پہلے معنی لئے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مطلقہ کی عدت تین مرتبہ ایام ماہواری کا گزر جانا ہے،اور اگر دوسرے معنی لئے جائیں تو تین طہر گزرنے سے عدت پوری ہوگی، اسموقع پر ہمارے لئے یہ سوال پیدہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کونسے معنی پر عمل کریں؟
(2)
اک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:-
من لم یترک المخابرۃ فلیؤذن بحرب من اللہ و رسولہ
(ابوداؤد)
"جوشخص بٹائی کا کاروبار نہ چھوڑے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ سن لے"
اس حدیث میں بٹائی کی ممانعت کی گئی ہے ، لیکن بٹائی کی بہت سی صورتیں ہیں ، یہ حدیث اس بارے میں خاموش ہے کہ یہاں بٹائی کی کونسی صورت مراد ہے؟
کیا بٹائی کی ہر صورت ناجائز ہوگی؟
یا بعص صورتیں جائز قرار پائیں گی،اور بعض ناجائز؟
حدیث میں اک قسم کا اجمال پایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بٹائی کو علی الاطلاق ناجائز کہہ دیں؟ یا اس میں کوئی تفصیل یا تقسیم ہے؟
(3)
اک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:-
من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ
"جس شخص کا کوئی امام ہوتو امام کی قراءت اسکے لئے بھی قراءت بن جائے گی"
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ نماز میں جب امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی کو خاموش کھڑا رہنا چاہیئے ، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے :-
لاصلواۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب
(بخاری)
"جس شخص نے سورہء فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز نہیں ہوگی"
اس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کے لئے سورہء فاتحہ پڑھنی ضروری ہے ، ان دونوں حدیثوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدہ ہوتا ہے کہ آیا پہلی حدیث کو اصل قرار دیے کر یوں کہا جائے کہ دوسری حدیث میں صرف امام اور منفرد کو خطاب کیا گیا ہے اور مقتدی اس سے مستثنٰی ہے ، یا دوسری حدیث کو اصل قرار دے کر یوں کہا جائے کہ پہلی حدیث میں قراءت سے مراد سورہء فاتحہ کے سوا کوئی دوسری سورۃ ہے اور سورہء فاتحہ اس سے مستثنٰی ہے؟
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث سے احکام کے مستنبط کرنے میں اس قسم کی بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں ، اب اک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کرکے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کرلیں اور عمل کریں ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں ازخود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے؟ ان کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں ، اور انہوں نے جوکچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں،
اگر انصاف اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو ہمارے خیال کے مطابق اس بات میں دورائے نہیں ہوسکتیں کہ ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت خاصی خطرناک ہے، اور دوسری صورت بہت محتاط ، یہ صرف تواضح اور کسر نفسی ہی نہیں ، اک ناقابل انکار حقیقت ہے ، کہ علم و فہم ، ذکاوت و حافظہ و دیانت، تقوٰی اور پرہیزگاری، ہر اعتبار سے ہم اسقدر تہی دست ہیں کہ قرون اولٰی کے علماء سے ہمیں کوئی نسبت نہیں،پھر جس مبارک ماحول میں قرآن کریم نازل ہوا تھا ،قرون اولٰی کے علما اس سے بھی قریب ہیں، اور اس قرب کی بناء پر انکے لئے قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنا زیادہ آسان ہے ، اسکے برخلاف ہم عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے عرصہ بعد پیدہ ہوئے ہیں کہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کا مکمل پس منظر، اسکے نزول کے ماحول، اس زمانے کے طرز معاشرت اور طرز گفتگو کا ہوبہو اور بعینہی تصور بڑا مشکل ہے، حالانکہ کسی کی بات کو سمجھنے کے لئے ان تمام باتوں کی پوری واقفیت انتہائی ضروری ہے،
ان تمام باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اگر ہم اپنی فہم پر اعتماد کرنے کی بجائے قرآن و سنت کے مختلف التعبیر پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کرلیں جو ہمارے اسلاف میں سے کسی عالم نے سمجھا ہے ، تو کہاجائے گا کہ ہم نے فلاں عالم کی تقلید کی ہے۔
یہ ہے تقلید کی حقیقت ، اگر میں اپنے مافی الضمیر کو صحیح سے سمجھا سکا ہوں تو یہ بات آپ پر واضح ہوگئی ہوگی کہ کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف اس موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن و سنت سے کسی حکم کے سمجھنے میں کوئی دشواری ہو، خواہ اس بناء پر کہ قرآن و سنت کی عبارت کے ایک سے زیادہ معنی نکل سکتے ہوں، خواہ اس بناء پر کہ اس میں کوئی اجمال ہو، یا اس بناء پر کہ اس مسئلے میں دلائل متعارض ہوں، چنانچہ قرآن و سنت کے جو احکام قطعی ہیں ، یا جن میں کوئی اجمال و ابہام، تعارض یا اسی قسم کی کوئی الجھن نہیں ہے وہاں کسی امام و مجتہد کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ مشہور حنفی عالم علامہ عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں:-
"فالامر المتفق علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ لا یحتاج الی التقلید فیہ لاحد الاربعۃ کفر ضیۃ الصلوٰۃ والصوم والزکوٰۃ والحج و نحو ھاوحرمۃ الزنا واللواطۃ و شرب الخمر والقتل والسرف والغصب وما اشبہ ذلک والامر المختلف فیہ ھوالذی یحتاج الی التقلید فیہ"
(خلاصۃ التحقیق فی حکم التقلید و التلفیق، صفحہ 4، مطبوعہ مکتبۃالیشیق، استنبول)
"پس وہ متفقہ مسائل جن کا دین میں ہونا بداہتہً معلوم ہے، ام میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں،
مثلاً نماز،روزے، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی فرضیت اور زنا، لواطت،شراب نوشی، قتل،چوری اور غصب وغیرہ کی حرمت ،
دراصل تقلید کی ضرورت ان مسائل میں پڑتی ہے جن میں علماء کا اختلاف رہا ہو"
اور علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :-
"واما الاحکام الشرعیۃ فضربان: احد ھما یعلم ضرورۃ من دین الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کالصوات الخمس والزکوٰۃ وصوم شھر رمضان والحج و تحریم الزنا و شرب الخمر و مااشبہ ذلک،فھذالایجوز التقلید فیہ لان الناس کلھم یشترکون فی ادراکہ والعلم بہ، فلامنی للتقلید فیہ، وضرب اٰخر لایعلم الا بالنظر و الاستدلال کفروع العبادات و المعاملات و الفروج والمناکحات و غیر ذلک من الاحکام فھذایسوغ فیہ تقلید بدلیل قول اللہ تعالٰی "فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون" ولاء نالو منعنا التقلید فی ھذہ المسائل التی ھی من فروغ الدین لاحتاج کل احد ان یتحلم ذلک وفی ایجاب ذلک قطع عن المعایش وھلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط"
(الفقیہ والمتفقہ،للخطیب البغدادی رحمہ اللہ،جلد2،صفحہ27،28،مطبوعہ دارالافتا،سعودیہ ریاض سن 1389ھ)
"اور شرعی احکام کی دوقسمیں ہیں، اک وہ احکام ہیں جن کا جزو دین ہونا بداہۃً ثابت ہے ، مثلاً پانچ نمازیں ، زکوٰۃ ۔۔۔۔ رمضان کے روزے،حج ، زنا، شراب نوشی کی حرمت اور اسی جیسے دوسرے احکام، تو اس قسم میں تقلید جائز نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا علم تمام لوگوں کو ہوتا ہی ہے ، لہٰزہ اس میں تقلید کے کوئی معنی نہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کا علم فکر و نظر اور استدلال کے بغیر نہیں ہوسکتا، جیسے عبادات و معاملات اور شادی بیاہ کے فروعی مسائل، اس قسم میں تقلید درست ہے، کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے "فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون" ، نیز اس لئے کہ اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید ممنوع کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر شخص باقاعدہ علوم دین کی تحصیل میں لگ جائے ، اور لوگوں پر اس کو واجب کرنے سے زندگی کی تمام ضروریات برداب ہوجائیں گی اور کھیتیوں اور مویشیوں کی تباہی لازم آئے گی، لہٰزہ ایسا حکم نہیں دیا جاسکتا"۔
اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں :-
"مسائل تین قسم کے ہیں، اول و جن میں نصوص متعارض ہیں،
دوم وہ جن میں نصوص متعارض نہیں مگر وجوہ و معانی متعددہ کو محتمل ہوں ، گو اختلاف نظر سے کوئی معنی قریب کوئی بعید معلوم ہوتے ہوں،
سوم وہ جن میں تعارض بھی نہ ہو اور ان میں اک ہی معنی ہوسکتے ہیں،
پس قسم اول میں رفع تعارض کے لئے مجتہد کو اجتہاد کی اور غیر مجتہد کو تقلید کی ضرورت ہوگی،قسم ثانی ظنی الدلالۃ کہلاتی ہے، اس میں تعیین احد الاحتمالات کے لئے اجتہاد و تقلید کی حاجت ہوگی قسم ثالث قطعی الدلالت کہلاتی ہے اس میں ہم بھی نہ اجتہاد کو جائز کہتے ہیں نہ اس کی تقلید کو"
(الاقتصادفی التقلید والاجتہاد،صفحہ 34، مطبوعہ دہلی بہ جواب شبہ سیزدہم)
مزکورہ بالا گزارشات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسے بزات خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جارہی ہے، یا اسے شارع (شریعت بنانے والا ، قانون ساز) کا درجہ دی کر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جارہا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن و سنت کی مقصود ہے، لیکن قرآن و سنت کی مراد کو سمجھنے کے لئے بحیثیت شارح قانون کی ان بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت کے قطعی احکام میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید ضروری نہیں سمجھی گئی، کیونکہ وہاں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اصل مقصد اس کے بغیر بآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔
یہ بات (کہ جس امام کی تقلید کی جائے اسے صرف شارح قرار دیا جائے بزات خود اسے واجب الاتباع نہ سمجھا جائے) خود اصطلاح "تقلید" کے مفہوم میں داخل ہے، چنانچہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ اور علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ "تقلید" کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں :-
"التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجۃ منھا"
(تیسرا التحریر، لاءمیربادشاہ البخاری رحمہ اللہ ، جلد4،صفحہ246،مطبوعہ مصر1351ھ و فتح الغفارشرح المنار لابن نجیم رحمہ اللہ، جلد2،صفحہ3، مطبوعہ مصر1355ھ)
"تقلید کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا قول مآخز شریعت میں سے نہیں ہے اسکے قول پر دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کرلینا"
اس تعریف نے واضح کردیا کہ مقلد اپنے امام کے قول کو مآخز شریعت نہیں سمجھتا، کیونکہ مآخز شریعت صرف قرآن و سنت (اور انہی کے ذیل میں اجماع و قیاس) ہیں،البتہ یہ سمجھ کر اس کے قول پر عمل کرتا ہے کہ چونکہ وہ قرآن و سنت کے علوم میں پوری بصیرت کا حامل ہے ، اسلئے اس نے قرآن و سنت سے جو مطلب سمجھا ہے وہ میرے لئے زیادہ قابل اعتماد ہے۔
اب آپ بہ نظر انصاف غور فرمائیے کہ اس عمل میں کونسی بات ایسی ہے جسے "گناہ" یا "شرک" کہا جاسکے؟
اگر کوئی شخص کسی امام کو شارع (قانون ساز) یا بزات خود واجب الاطاعت قرار دیتا ہو تو بلاشبہ اس عمل کو شرک کہا جاسکتا ہے ، لیکن کسی کو شارح قانون قرار دے کر اپنے مقابلے میں اس کی فہم و بصیرت پر اعتماد کرنا تو افلاس علم کے اس دور میں اس قدر ناگزیر ہے ، کہ اس سے کوئی مفر نہیں ہے ۔
اسکی مثال یوں سمجھئیے کہ پاکستان میں جو قانون نافز ہے وہ حکومت نے کتابی شکل میں مدون اور مرتب کرکے شایع کر رکھا ہے ۔ لیکن ملک کے کروڑوں عوام میں سے کتنے آدمی ہیں جو براہ راست قانون کی عبارتیں دیکھ دیکھ کر اس پر عمل کرسکتے ہوں؟ بے پڑھے لکھے افراد کا تو کچھ کہنا ہی نہیں ہے، ملک کے وہ بہترین تعلیم یافتہ افراد جنہوں نے قانون کا باقاعدہ علم حاصل نہیں کیا ، اعلٰی درجہ کی انگریزی ناننے کے باوجود جراءت نہیں کرتے کہ کسی قانونی مسئلہ میں براہ راست قانون کی کتاب دیکھیں، اور اس پر عمل کریں، اس کے بجائے جب انہیں کوئی قانون سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ کسی ماہر وکیل کو تلاش کرکے اس کے قول پر عمل کرتے ہیں، کیا کوئی صحیح العقل انسان اس طرز عمل کا یہ مطلب سمجھ سکتا ہے کہ انہوں نے اس وکیل کو قانون سازی کا اختیار دے دیا ہے اور وہ ملکی قانون کی بجائے وکلاء کو اپنا حاکم تسلیم کرنے لگے ہیں؟
بلکل یہی معاملہ قرآن و سنت کے احکام کا ہے ، کہ ان کی تشریح و تفسیر کے لئے ائمہ مجتہدین کی طرف رجوع کرنے اور ان پر اعتماد کرنے کا نام "تقلید" ہے ، لہٰزہ تقلید کرنے والے کو یہ الزام نہیں دیا جاسکتا کہ وہ قرآن و سنت کے بجائے ائمہ مجتہدین کا اتباع کر رہا ہے۔
تقلید کی دو صورتیں
پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں ، اک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام، مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر اک مسئلہ میں اک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو "تقلید مطلق" یا "تقلید عام" یا " تقلید غیر شخصی" کہتے ہیں،
اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر اک مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے "تقلید شخصی" کہا جاتا ہے۔
تقلید کی ان دونوں وسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اک شخص براہ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ جس مجتہد کو قرآن و سنت کے علوم کا ماہر سمجھتا ہے اس کی فہم و بصیرت اور اس کے تفقہ پر اعتماد کرکے اس کی تشریحات کے مطابق عمل کرتا ہے، اور یہ چیز ہے جس کا جواز بلکہ وجوب قرآن و سنت کے بہت سے دلائل سے ثابت ہے:-
قرآن کریم اور تقلید
تقلید کی جو حقیقت اوپر بیان کی گئی ہے اس کی اصولی ہدایتیں خود قرآن کریم میں موجود ہیں:-
پہلی آیت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ
النساء، سورۃ نمبر 4،آیت نمبر 59
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو، اور اپنے آپ میں سے "اولالامر" کی اطاعت کرو۔
"اولوالامر" کی تفسیر میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ اس سے مراد مسلمان حکام ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے فقہاء مراد ہیں، یہ دوسری تفسیر حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر معاویہ بن صالح عن علی بن ابی طلحہ کے طریق سے مروی ہے،(ابن جریر رحمہ اللہ۔جلد5،صفحہ 88) جو ان کی روایات کا قوی ترین طریق ہے(دیکھئیے الاتقان نوع نمبر 80)، تفسیر ابن کبیر، جلد3،صفحہ334) حضرت مجاہد رحمہ اللہ، حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ ، حضرت عطاء بن السائب رحمہ اللہ ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ، حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ اور دوسرے بہت سے مفسرین سے منقول ہے، اور امام رازی رحمہ اللہ نے اسی تفسیر کو متعدد دلائل کے زریعہ ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے :-
"اس آیت میں لفظ " اولواالامر " سے علماء مراد لینا اولٰی ہے "
اور امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں مراد ہیں ، اور مطلب یہ ہے کہ حکام کی اطاعت سیاسی معاملات میں کی جائے ، اور علماء و فقہا کی مسائل شریعت کے باب میں (احکام القرآن للجصاص رحمہ اللہ، جلد 2،صفحہ256،باب فی طاعۃ اولی الامر) اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امراء کی اطاعت کا نتیجہ بھی بالآخر علماء ہی کی اطاعت ہے، کیونکہ امراء بھی شرعی معاملات میں علماء کی اطاعت کے پابند ہیں، "فطاعۃ الامراء تبح لطاعۃ العلماء"(اعلام الموقعین لابن القیم رحمہ اللہ، جلد1،صفحہ 7)
بحرحال اس تفسیر کے مطابق آیت میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں اور ان علماء و فقہاء کی اطاعت کریں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے شارح ہیں ، اور اسی اطاعت کا اصطلاحی نام "تقلید" ہے، رہا اسی آیت کا اگلہ جملہ جس میں ارشاد ہے کہ :-
فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ،
"پس اگر کسی معاملہ میں تمہارا باہم اختلاف ہوجائے تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو"
سو یہ اس تفسیر کے مطابق مستقل جملہ ہے، جس میں مجتہدین کو خطاب کیا گیا ہے ، چنانچہ امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ "اولوالامر" کی تفسیر علماء سے کرنے کے تائید میں لکھتے ہیں:-
"وقولہ تعالٰی عقیب ذلک فان تنازعتم فی شی ء فردوہ الی اللہ والرسول ، یدل علٰی ان اولی الامرھم الفقھا لانہ امر سائر الناس بطاعتھم ثم قال فان تنازعتم الخ فامراولی الامر برد المتنازع فیہ الی کتاب اللہ و سنۃ نبیتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اذکانت العامۃ و من لیس من اھل العلم لیست ھذہ وجوہ دلائلھا علٰی احکام الحوادث فثبت انہ خطاب للعلماء۔"
"اور اولالامر کی اطاعت کا حکم دینے کا حکم دینے کے فوراً بعد اللہ تعالٰی کا یہ فرمانا کہ "اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان اختلاف ہوتو اس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو" اس بات کی دلیل ہے کہ "اولالامر" سے مراد فقہاء ہیں، کیونکہ اللہ تعالٰی نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا، پھر فان تنازعتم الخ فرماکر "اولوالامر" کو حکم دیا کہ جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہو اسے اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف لوٹا دو ، یہ حکم فقہاء ہی کو ہوسکتا ہے ، کیونکہ عوام الناس اور غیر اہل علم کا یہ مقام نہیں ہے ،اس لئے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ اللہ کی کتاب اور سنت کی طرف کسی معاملے کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے ؟ اور نہ انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے لئے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے ، لہٰزہ ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء کو ہے۔(احکام القرآن ،جلد،2،صفحہ257)
مشہور اہل حدیث عالم حضرت علامہ نواب صدیق حسن خانصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تفسیر میں اعتراف فرمایا ہے کہ "فان تنازعتم ۔۔الخ۔۔" کا خطاب مجتہدین کو ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:-
"والظاھر انہ خطاب مستقل مستانف موجہ للمجتھدین۔"
"اور ظاہر ہے کہ یہ مستقل خطاب ہے جس میں روئے سخن مجتہدین کی طرف ہے"
(تفسیر فتح البیان،جلد2،صفحہ308،مطبعۃ العاصمۃ،قاہرہ)
لہٰزہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ جولوگ اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتے ، وہ مختلف فیہ مسائل میں براہ راست قرآن و حدیث سے رجوع کر کے خود فیصلہ کریں بلکہ پہلے جملے میں خطاب ان لوگوں کو ہےجو قرآن و سنت سے براہ راست احکام مستنبط نہیں کرسکتے، اور ان کا فریضہ بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ "اولوالامر" یعنی فقہاء سے مسائل پوچھیں،اور ان پر عمل کریں، اور دوسرے جملے میں خطاب مجتہدین کو ہے کہ وہ تنازعہ کے موقعہ پر کتاب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا کریں، اور اپنی اجتہادی بصیرت کو کام میں لاکر قرآن و سنت سے احکام نکالا کریں،
دوسری آیت
قرآن کریم میں ارشاد ہے:-
وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ
النساء،سورۃ نمبر 4،آیتن نمبر 83
"اور جب ان (عوام الناس) کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات پہنچتی ہے تو یہ اس کی اشاعت کردیتے ہیں، اور اگر یہ معاملے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یا اپنے "اولوالامر" کی طرف لوٹادیتے ہیں، تو ان میں سے جو لوگ اسکے استنباط کے اہل ہیں وہ (اسکی حقیقت) کو خوب معلوم کرلیتے"
(اس آیت کا پسمنظر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے منافقین جنگ و امن کے بارے میں نت نئی افواہیں اڑاتے رہتے تھے، بعض سادہ لوح مسلمان ان افواہوں پر یقین کرکے انہیں آگے بڑھادیتے، اور اس سے چہر میں بدمزگی اور بدامنی پیدہ ہوجاتی تھی۔ آیت مزکورہ نے اہل ایمان کو اس طرز عمل سے منع کرکے انہیں اس بات کی تلقین فرمائی کہ جنگ و امن کے بارے میں جو کوئی بات ان تک پہنچے وہ اس کے مطابق از خود کوئی عمل کرنے کی بجائے اسے "اولوالامر" تک پہنچادیں، ان میں سے جو حضرات تحقیق و استنباط کے اہل ہیں، وہ معاملے کی تہہ تک پینچ کر حقیقت معلوم کرلیں گے اور اس سے باخبر کردیں گے، لہٰزہ ان کا کام ان اطلاعات پر ازخود کوئی ایکشن لینا نہیں، بلکہ ان باتوں سے "اولوالامر" کو مطلع کرکے ان کے احکام کی تعمیل ہے)
یہ آیت اگرچہ اک خاص معاملے میں نازل ہوئی ہے، لیکن جیسا کہ اصول تفسیر اور اصول فقہ کا مسلم قاعدہ ہے،آیات سے احکام و مسائل مستنبط کرنے کے لئے شان نزول کے خصوصی حالات کے بجائے آیت کے عمومی الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے،اس لئے اس آیت سے یہ اصولی ہدایت مل رہی ہے کہ جولوگ تحقیق و نظر کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کو اہل استنباط کی طرف رجوع کرنا چاہیئے، اور وہ اپنی اجتہادی بصیرت کو کام میں لاکر جو راہ عمل متعین کریں اس پر عمل کرنا چاہیئے، اور اسی کانام تقلید ہے، چنانچہ امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت تحریر فرماتے ہیں:-
"فثبت ان الا استنباط حجۃ، والقیاس اما استنباط اوداخل فیہ، فوجب ان یکون حجۃ اذاثبت ھذا فنقول: الاٰیۃ دالۃ علٰی امور حدھا ان فی احکام الحوادث مالا یعرف بالنص بل بالاستنباط و ثانیھا ان الاستنباط حجۃ، وثالثھا ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث"
"پس ثابت ہوا کہ استنباط حجت ہے، اور قیاس یا تو بزات خود استنباط ہوتا ہے یا اس میں داخل ہوتا ہے، لہٰزہ وہ بھی حجت ہوا، جب یہ بات طے ہوگئی تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت چند امور کی دلیل ہے، ایک یہ کہ نت نئے پیش آنے والے مسائل میں بعض امور ایسے ہوتے ہیں جو نص سے (صراحۃً) معلوم نہیں ہوتے، بلکہ ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے استنباط کی ضرورت پڑتی ہے، دوسرے یہ کہ استنباط حجت ہے، اور تیسرے یہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ پیش آنے والے ،مسائل واحکام کے بارے میں علماء کی تقلید کرے" (تفسیرکبیر،جلد3،صفحہ272)
"بعض حضرات نے اس استدلال پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ آیت جنگ کے مخصوص حالات پر مشتمل ہے۔ لہٰزہ زمانہ امن کے حالات کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،(تحریک آزادی فکر از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی،صفحہ31) لیکن اس اعتراض کا جواب ہم شروع میں دے چکے ہیں، کہ اعتبار آیت کے عام الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ شان نزول کے مخصوص حالات کا، چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں:-
"ان اقولہ واذاجاء ھم امرین اوالخوف عام فی کل مایتعلق بالحروب و فیما یتعلق بسائر الوقائع الشرعیہ، لان الامن ولخوف حاصل فی کل ما یتعلق بباب التکلیفم فثبت انہ لیس فی الٰیتہ مایوجب تخصیصھا بامر الحروب،"
(تفسیر کبیر،جلد3،صفحہ273)
"اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد کہ "جب ان کے سامنے امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہو۔۔۔۔الخ۔۔۔" بلکل عام ہے جسمیں جنگ کے حالات بھی داخل ہیں اور تمام شرعی مسائل بھی،اسلئے کہ امن اور خوف ایسی چیزیں ہیں کہ تکلیفات شرعیہ کا کوئی باب ان سے باہر نہیں، لہٰزہ ثابت ہوا کہ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جواسے صرف جنگ کے حالات سے مخصوص کردے"
امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس اعتراض کی یہی جواب نہایت تفصیل کے ساتھ دیاہے،اور اس بارے میں ضمنی شبہات کی بھی شبہات کی بھی تردید فرمائی ہے،(احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ263،باب طاعۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم)۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خانصاحب نے اسی آیت سے قیاس کے جواز پر استدلال کرتے ہوئے لکھاہے:-
"فی الاٰیۃ اشارۃ الٰی جواز القیاس ، وان من العم۔۔۔۔۔۔مایدرک بلاسباط(تفسیر فتح البیان،ازنواب صدیق حسن خاں صاحب،جلد2،صفحہ230)
اگر آیت سے "زمانہ امن" کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں ملتی تو قیاس کے جواز پر اس سے استدلال کیسے درست ہوگیا؟
تیسری آیت
قرآن کریم کا ارشاد ہے:-
فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ
التوبہ،سورہ نمبر9،آیت122
"پس کیوں نہ نکل پڑا ان کی ہر بڑی جماعت میں سے اک گروہ تاکہ یہ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں اور تاکہ لوٹنے کے بعد اپنی قوم کو ہوشیار کریں شاید وہ لوگ (اللہ کی نافرمانی سے) بچیں"
اس آیت میں اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ مسلمانوں میں تمام افراد کو جہاد وغیرہ کے کاموں میں مشغول نہ ہوجانا چاھئیے، بلکہ ان میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو اپنے شب و روز "تفقہ"(دین کی سمجھ) حاصل کرنے کے لئے وقف کردے اور اپنا اوڑھنا بچھونا علم کو بنائے، تاکہ یہ جماعت ان لوگوں کو احکام شریعت بتلائے جو اپنے آپ کو تحصیل علم کے لئے فارغ نہیں کرسکے۔
لہٰزہ اس آیت نے علم کے لئے مخصوص ہوجانے والی جماعت پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ دوسروں کو احکام شریعت سے باخبر کرے، اور دوسروں کے لئے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ وہ ان کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کریں، اور اسطرح اللہ تعالٰی کی نافرمانی سے محفوظ رہیں، اور اسی کا نام تقلید ہے، چنانچہ امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس آیت پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:-
فا وجب الحزربانذا ھم و الزام المذرین قبول قولھم
(احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ263،باب طاعۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم)
"اس آیت میں اللہ تعالٰی نے عام لوگوں پر واجب کیا ہے کہ جب علماء ان کو (احکام شریعت بتاکر) ہوشیار کریں تو وہ (اللہ کی نافرمانی سے) بچیں، اور علماء کی بات مانیں"
چوتھی آیت
قرآن کریم کا ارشاد ہے:-
فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
النحل،43،اور الانبیاء7)
"اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔۔۔"
اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ علم و فن کے ماہر نہ ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیاکریں، اور یہی چیز تقلید کہلاتی ہے، چنانچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :-
واستدل بھا ایضا علٰی وجوب لمراجعۃ للعلماء فیما لا یعلم وفی الاکیل للجلال ۔۔۔۔ السیوطی انہ استدلال بھا علٰی جواز تقلید العامی فی الفروع
(روح المعانی ،جلد14،صفحہ 148،سورہ نحل)
"اور اس آیت سے اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کتنا واجب ہے۔ اور علامہ جلال الدین چیوطی رحمہ اللہ اکلیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے"اس پر بعض حضرات کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ یہ آیت اک خاص موضوع سے متعلق ہے، اور وہ یہ کہ مشرکین مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالے کا انکار کرتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس کسی فرشتے کو رسول بناکر کیوں نہیں بھیجا گیا؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جس کے پورے الفاظ یہ ہیں :-
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
الانبیا،7
اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی مرد ہی رسول بناکر بھیجے ہیں جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے ، پس اگر تمہیں معلوم نہ ہو تو" اہل الزکر سے پوچھ لو"
"اہلالزکر " سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک علماء اہل کتاب ہیں، بعض کے نزدیک وہ اہل کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسلمان ہوگئے تھے، اور بعض کے نزدیک اہل قرآن یعنی مسلمان، اور مطلب یہ ہے کہ یہ تمام حضرات اس حقیقت سے واقف ہیں کہ پچھلے تمام انبیاء علیھم السلام بشر تھے، ان میں سے کوئی بھی فرشتہ نہ تھا، لہٰزہ آیت کا سیاق و سباق تقلید و اجتہاد کے مفہوم سے نہیں ہے،
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت دلالۃ النص کے طور پر تقلید کے مفہوم پر دلالت کررہی ہے، "اہل الزکر" سے خواہ کوئی مراد ہو، لیکن ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ذاتی ناواقفیت کی بناء پر دیا گیا ہے، اور یہ بات اسی وقت درست ہوسکتی ہے، جب یہ اصول مان لیا جائے کہ "ہر ناواقف کو واقف کی طرف رجوع کرنا چاھئیے" یہی وہ اصول ہے جس کی طرف یہ آیت رہنمائی کررہی ہے، اور اسی سے تقلید پر استدلال کیا جارہا ہے، اور یہ بات ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ اصول تفسیر اور اصول فقہ کا یہ مسلم قاعدہ ہے"العبرۃ بعموم اللفاظ لالخصوص المورد" یعنی اعتبار آیت کے عمومی الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ خاص اس صورت کا جس کے لئے آیت نازل ہوئی ہو، لہٰزہ آیت کا نزول اگرچہ خاص مشرکین مکہ کے جواب میں ہوا ہے، لیکن چونکہ اس کے الفاظ عام ہیں۔ اسلئے اس سے یہ اصول بلاشبہ ثابت ہوتا ہے کہ جولوگ خود علم نہ رکھتے ہوں انہیں اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے اور یہی تقلید کا حاصل ہے، چنانچہ خطیب بغداد رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:-
"امامن یوغ لہ التقلید فھو العامی الذی لایعرف طوق الاحکام الشرعیۃ ، فیجوزلہ ان یقلد عالما و ویعمل بقولہ، قال اللہ تعالٰی "فاسئلوا اھل الزکر ان کنتم لاتعلمون "،
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی،جلد2،صفحہ68،مطبوع� � دارالافتاء سعودیہ ریاض،1389ھ)
"رہا یہ مسئلہ کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے، سو یہ وہ عامی شخص ہے جو احکام شریعہ کے طریقے نہیں جانتا پس اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اس کے قول پر عمل کرے، اسلئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے"فاسئلوا اھل الزکر۔۔ "
اسکے بعد خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے حضرت عمو بن قیس رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ آیت بالا میں اہل الزکر سے مراد اہل علم ہیں،
تقلید اور حدیث
قرآن کریم کی طرح بہت سی احادیث سے بھی تقلید کا جواز ثابت ہوتا ہے، ان میں سے چند درج زیل ہیں،
(1)
عن حذیفہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لاادری مابقائی فیکم ، فاقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر ۔
(رواہ الترمذی و ابن ماجہ و احمد)
(متقاۃ المفاتیح،جلد5،صفحہ549،باب مناقب ابی بکر و عمر رضوان اللہ علیھم اجمعین)
"حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں ، میں کتنا عرصہ تمہارے درمیان رہوں گا؟ پس تم میرے بعد دو شخصوں کی اقتداء کرنا، اک ابوبکررضی اللہ عنہ،اور دوسرے عمر رضی اللہ عنہ"
یہاں یہ بات بطور خاص قابل غور ہے کہ حدیث میں الفاظ "اقتداء" استعمال کیا گیا ہے، جو انتظامی امور میں کسی کی پیروی کے لئے استعمال ہوتا ہے، عربی لغت کے مشہور عالم ابن منظور رحمہ اللہ لکھتے ہیں: القدوۃ و القدوۃ ماتسننت بہ" القدوۃا الاسوۃ" (السان العربج،20،صفحہ31،مادہ "قدا") ("قدوہ" کے معنی ہیں "اسوہ"یعنی نمونہ) قرآن کریم میں بھی یہ الفاظ دینی امور میں انبیاء علیہم السلام اور صلحاء کی پیروی کے لئے استعمال ہوا ہے، ارشاد ہے:-
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ
الانعام، سورۃ نمبر6،آیت نمبر90
"یہی لوگ ہیں جنکو اللہ نے ہدایت دی ہے، پس تم ان کی ہدایت کی اقتداء کرو"
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کے واقعہ میں ہے کہ :-
"یقتدی ابوبکر بصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و الناس مقتدون بصلوٰۃ ابی بکر"
(صحیح بخاری،باب الرجل یاتم بالامام،جلد1،صفحہ99)
"حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کررہے تھے"
اور مسند احمد میں حضرت ابو وائل رحمہ اللہ کی روایت ہے :-
جلست الٰی شیبۃ بن عثمان رضی اللہ عنہ، فقال جلس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فی مجلسک ھذا ، فقال لقد ھمت ان لا ادع فی الکعبۃ صفراء ولا بیضاء الاقسمتمھما بین الناس ، قال قلت؛ لیس ذلک ، قد سبقک صاحباک لم یغعلا ذلک ، فقال ھما المرٰان یقتدٰی بھماء
(مسند احمد ،جلد3،صفحہ 410،مسند شیبۃ بن عثمان رضٰ اللہ عنہ)
"میں شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے کہا کہ (ایک دن) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی جگہ بیٹھے تھے جہاں تم بیٹھے ہو، وہ فرمانے لگے کہ میرا ارادہ ہوتا ہے کہ کعبہ میں جتنا سونا چاندی ہوتا ہے وہ سب لوگوں کے درمیان تقسیم کردوں، شیبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ اس کا حق آپ کو نہیں، کیونکہ آپ کے دونوں پیش رو صاحبان (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ دونوں حضرات واقعی ایسے ہیں کہ ان کی اقتداء کی جانی چاہیئے"
نیز مسند احمد میں ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ :-
"ابھی تمہاری مجلس میں اک جنتی شخص داخل ہوگا"
چنانچہ اس کے بعد ایک انصاری صحابی داخل ہوئے، دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا، اور تیسرے دن بھی، اس پر حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اک دن انہی انصاری صحابی کے پاس پہنچ گئے، اور رات کو ان کے ہاں رہے، خیال یہ تھا کہ وہ بہت عبادت کرتے ہوں*گے، مگر دیکھا کہ انہوں نے صرف اتنا کیا کہ سوتے وقت کچھ اذکار پڑھے اور پھر فجر تک سوتے رہے، حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:-
"فاردت ان اٰوی الیک لا نظر ماعملک، فاقتدی بہ فلم اول تعلم کثیر عمل"(حضرت عبداللہ بن عمرو رضٰ اللہ عنہ کے جواب میں انصاری صحابی رضٰ اللہ عنہ نے بتایا کہ عمل تو کوئی خاص نہیں کرتا البتہ میرے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے کھوٹ نہیں ہے،نہ میں کسی پر حسد کرتا ہوں ، اخرجہ احمد من طریق عبدالرزاق ثنا معمر عن الزہری اخبرنا انس رضٰ اللہ عنہ وہواسناد صحیح )
مسند احمد ،جلد،3،صفحہ166،مسندات انس رضٰ اللہ عنہ
"میں تو اس ارادے سے تمہارے پاس رات گزارنے آیا تھا کہ تمہارا عمل دیکھوں اور اس کی "اقتداء" کروں"
ان تمام مقامات پر ""اقتداء"" دینی امور میں کسی کی اتباع اور پیروی کے لئے آیا ہے، خاص طور پر پہلی دو احادیث میں تو اس لفظ کا استعمال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے اسی معنی میں
*ہوا ہے، لہٰزہ مزکورہ بالا حدیث کا اصل مقصد دینی امور میں حضرت ابوبکر و عمر رضٰ اللہ عنہما کی اقتداء کا حکم دینا ہے، اور اسی کا نام تقلید ہے،
(2)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-
"ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم یقبض العلماء حتٰی اذالم یبق عالماً اتخذالناس رء وساجھالا، فسئلوا فافتوابغیر علم فضلواواضلوا"
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم، الفضل الاول، صفحہ33)
"بلاشبہ اللہ تعالٰی علم کو (دنیاسے) اسطرح سے نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے دل) سے سلب کرلے، بلکہ علم کو اسطرح اٹھائے گا۔ کہ علماء کو (اپنے پاس) بلالے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے ، ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے"
اس حدیث میں واضح طور سے فتوٰی دینا علماء کا کام قرار دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں ، وہ ان کا حکم بتائیں، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی تقلید کا حاصل ہے۔
پھر اس حدیث میں اک اور بات بطور خاص قابل غور ہے، اور وہ یہ کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے زمانے کی خبر دی جس میں علماء مفقود ہوجائیں گے، اور جاہل قسم کے لوگ فتوے دینے شروع کردیں گے، یہاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکام شریعت پر عمل کرنے کی سوائے اس کے اور کیا صورت ہوسکتی ہے کہ وہ لوگ گزرے ہوئے علماء کی تقلید کریں، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو نہ کوئی شخص براہ راست قرآن و سنت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا، اور نہ کسی زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں،لہٰزہ احکام شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں ان کی تصانیف وغیرہ کے زریعے ان کی تقلید کی جائے،
لہٰزہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علمائے اہل اجتہاد موجود ہوں اس وقت تک ان سے مسائل معلوم کئے جائیں، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جائے، اور جب کوئی عالم باقی نہ رہا تو اہل لوگوں کو مجتہد سمجھ کر ان کے فتووں پر عمل کرنے کے بجائے گزشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جائے۔
(3)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-
"من افتٰی بغیر علم کان اثمہ علیٰ من افتاہ "
(رواہ ابوداؤد)(مشکوٰۃ المصابیح ،کتابالعلم ،الفضل نالثانی،صفحہ37)
"جوشخص بغیر علم کے فتوٰی دے گا اس کا گناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا "
یہ حدیث بھی تقلید کے جواز پر بڑی واضح دلیل ہے، اسلئے کہ اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر دلیل کی تحقیق کے بغیر عمل جائز نہ ہوتا تو مزکورہ صورت میں سارا گناہ فتوٰی دینے والے پر ہی کیوں ہوتا ؟ بلکہ جس طرح مفتی کو بغیر علم کے فتوٰی دینے کا گناہ ہوتا اسی طرح سوال کرنے والے کو اس بات کا گناہ ہونا چاھئیے تھا کہ اس نے فتوے کی صحت کی تحقیق کیوں نہیں کی؟ لہٰزہ حدیث بالا نے یہ واضح فرمادیا کہ جو شخص خود عالم نہ ہو اس کا فریضہ صرف اس قدر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے مسئلہ پوچھ لے جو اس کی معلومات کے مطابق قرآن و سنت کا علم رکھتا ہو، اسکے بعد اگر وہ عالم اسے غلط مسئلہ بتائے گا تو اس کا گناہ پوچھنے والے پر نہیں ہوگا، بلکہ بتانے والے پر ہوگا۔
(4)
حضرت ابراہیم بن عبد الرحمٰن العزری سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-
"یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین و تاویل الجاھلین، "
(رواہ البیھقی فیالمدخل) (مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب العلم،الفصل السانی،صفحہ28)
"ہر آنے والی نسل کے ثقہ لوگ اس علم دین کے حامل ہوں گے جو اس سے غلو کرنے والوں کی تحریف کو باطل پرستوں کے جھوٹے دعووں کو، اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے"
اس حدیث میں " جاہلوں کی تاویلات" کی مزمت کی گئی ہے ، اور بتایا گیا ہے کہ ان تاویلات کی تردید علماء کا فریضہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جولوگ قرآن و سنت کے علوم میں مجتہدانہ بصیرت نہیں رکھتے انہیں اپنی فہم پر اعتماد کرکے احکام قرآن و سنت کی تاویل نہیں کرنی چاھئیے ، بلکہ قرآن و سنت کی صحیح مراد سمجھنے کے لئے اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاھئیے، اور اسی کا نام " تقلید" ہے، پھر یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن و سنت میں تاویلات وہی شخص کرسکتا ہے جسے کچھ تھوڑی بہت شد بد ہو، لیکن ایسے شخص کو بھی حدیث میں "جاہل" قرار دیا گیا ہے اور اس کی "تاویل" کی مزمت کی گئی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنت سے احکام و مسائل کے استنباط کے لئے عربی زبان وغیرہ کی معمولی شدبد کافی نہیں،بلکہ اس میں مجتہدانہ بصیرت کی ضرورت ہے۔
(5)
صحیح بخاری میں تعلیقاً اور صحیح مسلم میں مسنداً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جماعت میں دیر سے آنے لگے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جلدی آنے اور اگلی صفوں میں نماز پڑھنے کی تاکلید فرمائی،اور ساتھ ہی فرمایا :-
"ایتموابی ولیاتم بکم من بعدکم"
(صحیح بخاری،باب الرجل یاتم بالامام ویاتم الناس بالماموم،جلد1،صفحہ99)
"تم مجھے دیکھ دیکھ کر میری اقتداء کرو اور تمہارے بعد آنے والے لوگ تمہیں دیکھ دیکھ کر تمہاری اقتداء کریں"
اس کا اک مطلب تو یہ ہے کہ اگلی صفوں کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں، اور پچھلی صفوں کے لوگ اگلی صف کے لوگوں کو دیکھ کر ان کی اقتداء کریں، اور پچھلی صفوں کے لوگ اگلی صف کے لوگوں کو دیکھ کر ان کی اقتداء کریں، اس کے علاوہ اس کا دوسرا مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جلدی آیا کریں ، تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق نماز کو اچھی طرح دیکھ لیں، کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد جو نسلیں آئیں گی وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید اور ان کی اتباع کریں گی،چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :-
"وقیل معنا تعلموامنی احکام الشریعۃ، ولیتعلم منکم التابعون بعدکم وکذلک اتباعھم الٰی۔۔۔۔۔انقراض الدنیا،"
(فتح الباری،جلد2،صفحہ171،طبع میریہ،1300ھ)
"بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا ہے کہ تم مجھ سے احکام شریعت سیکھ لو اور تمہارے بعد آنے والے تابعین تم سے سیکھیں،اور یہ سلسلہ دنیا کے خاتمے تک چلتا رہے"
(6)
مسند احمد میں حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :-
"ان امراۃ اتتہ فقالت یا رسول اللہ الطلق زوجی غازیاً وکنت اقتدی بصلاتہ اذا صلی و بفعلہ کلہ فاخبرلی یعمل یبلغی عملہ حتی یرجع۔۔۔الخ"
(مسند احمد ،جلد3،صفحہ439،مسند معاذبن انس رضی اللہ عنہ،و رواہ الہیثمی۔۔۔۔۔)
"ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ، کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا شوہر جہاد کے لئے چلاگیا ہے، اور جب وہ نماز پڑھتا تو میں اس کی پیروی کرتی تھی، اور اس کے تمام افعال کی اقتداء کرتی تھی، اب آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے اس کے عمل 0یعنی جہاد) کے برابر پہنچادے۔۔۔الخ"
یہاں اس خاتون نے صراحۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنے شوہر کی صرف نماز میں نہیں، بلکہ تمام افعال میں اقتداء کرتی ہوں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔
(7)
جامع ترمزی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی اللہ تعالٰی اسے شاکر و صابر لکھے گا، و خلتیں یہ ہیں :-
"من نظرنی دینہ الیٰ من ھو فوقہ فاقتدیٰ بہ و نظر فی دنیاہ الیٰ من ھردونہ فحمداللہ"
"جوشخص دین کے معاملے میں اپنے سے بلند مرتبہ شخص کو دیکھے اور اس کی اقتداء کرے، اور دنیا کے معاملے میں نیچے کے کسی شخص کو دیکھے اور اللہ کا شکر ادا کرے کہ اس (اللہ) نے مجھے اس سے اچھی حالت میں رکھا"
(جامع ترمزی بشرح ابن العربی،جلد9،صفحہ317،ابواب القیامہ باب بلاترجمہ)(جاری ہے)
From: M a khan Raza <makhanraza_sardar@ymail.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, April 28, 2012 9:16 AM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
Assalam Alaimum,Good Work Naveed Bahi, Allah Haqq ki pehchaan aur hadayet ataa farmaaye.
Thanks & Regards,
M A Khan Raza
Saudi Arabia
makhanraza_sardar@ymail.com
From: Naveed Ahmed <naveedahm44@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Friday, April 27, 2012 1:10 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
From: Imran Rana <reehabimran@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Sunday, April 22, 2012 2:35 AM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
article originlay psot by Mutram nasir Noman bhayeالسلام علیکم ورحمتہ اللہ !
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔۔ اکثر وبیشتر ہم نے دیکھا کہ جب بھی غیر مقلدین سے ''تقلید'' کے موضوع پر کوئی گفتگو ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو عموما غیرمقلدین مقدمین علماء احناف کے حوالے سے تقلید کی تعریف کو بنیاد بنا کر گفتگو کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب انہیں متاخرین علماء کی تشریحات سے تقلید کی تعریف واضح کی جاتی ہے تو وہ اسے ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔
ویسے تو علماء کرام متعدد بار"تقلید" کی تعریف کے حوالہ سے وضاحتیں فرماچکے ہیں جو یقینا کسی بھی حق کے متلاشی کے لئے کافی و شافی ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باجود بھی غیر مقلدین کے بعض حضرات آج بھی عام سادہ لوح مسلمانوں کو تقلید کی تعریف کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
زیر نظر مضمون مقدمین علماء احناف کی طرف سے "تقلید" کی اصطلاحی تعریف پر ایک شبہ کے ازالہ کے طور پر ہم نے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ جو کہ مقدمین علماء احناف کی پیش کردہ تعریف میں "من غیر حجۃ " پر غیر مقلدین حضرات کے مشہور اعتراض جواب میں ہے کہ مقدمین علماء نے تقلید کی تعریف میں واضح کیا ہے کہ تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے ۔۔۔۔لہذا مقلدین بنا (شرعی) دلیل کے اپنے مجتھد کے قول پر عمل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
اس سے قبل ہم اپنی وضاحت پیش کریں ضروری ہے کہ آپ حضرات کو واضح کردیا جائے کہ یہ تحقیق ہم نے خود ترتیب دینے کی کوشش کی ہے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے ۔۔۔۔۔لہذا غلطیوں کی نشادہی ضرور کی جائے لیکن ہماری غلطیوں کو بنیاد بنا کر کسی پر طعن و تشنیع نہ کیا جائے کیوں کہ یہ مضمون ہمارا ترتیب دیا ہوا ہے اور علماء کرام و دیگر حضرات اس مضمون میں ممکنہ غلطیوں سے بری الذمہ ہیں۔
محترم قارئین کرام
جب ہم نے غور کیا کہ حضرات فقہائے کرام جن کی فقاہت کا زمانہ معترف رہا ہے ۔۔۔۔ اُن کی پیش کردہ "تقلید" کی تعر یف یوں کسی بنا کسی حکمت کے نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔۔لہذا اس حکمت پر غور کرتے کرتے کچھ نکات سامنے آئے جن کو ترتیب دے کر آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔۔۔۔ اس درخواست کے ساتھ کہ جن حضرات کو بھی ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو ضرور نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔۔۔۔۔نیز اہل علم حضرات سے خصوصی طور پر ہماری غلطیوں کی نشادہی کی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
عام طور پر یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مجتھدکا اجتھاد کن مواقع پر ہوتا ہے ؟؟
یعنی ایک مسلمان کو روز مرہ کی زندگی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔اُن کے جوابات کے لئے جب قرآن وحدیث سے رجوع کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں روز مرہ کی زندگی میں درپیش آنے والے بے شمار مسائل پرصراحت نہیں۔۔۔جن کو غیر منصوص مسائل(یعنی جن مسائل پر نص( قرآن کی آیت یا حدیث نہ ہو) کا نام دیا گیا ۔۔۔۔ان غیر منصوص مسائل کے لئے مجتھد قرآن وحدیث میں غوروفکر کرکے ان میں موجود چھپے مسائل کا استنباط(جواب تلاش کرنا) کرتا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف وہ مسائل ہیں جن پر نصوص(قرآن کی آیت یا حدیث) توموجود ہیں ۔۔۔لیکن ان منصوص مسائل پردو یا دو سے زائد نصوص ہوں اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے مجتھد اجتھاد کرتا ہے اور اپنے اجتھاد کی بنیاد پر ایک نص کو راجع(قابل ترجیح) قرار دیتا ہے ۔
اسی طرح بہت سے ایسے مسائل سامنے آئے جن پر نصوص بھی موجود تھیں ۔۔۔اور اُن میں دیگر نصوص سے تعارض بھی نہ تھا ۔۔۔لیکن ایسی غیر معارض نصوص میں بعض نصوص محتمل(مختلف معنوں کا امکان) ہوتی ہیں اوربعض محکم(کسی اور معنی کا امکان نہ ہونا بلکہ مفہوم صریح و واضح ہونا) ہوتی ہیں۔۔۔۔ محتمل یعنی ایسی نص جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پایا جائے۔۔۔۔لہذا مجتھد اجتھاد سے ایک معنی کو راجع (قابل ترجیح) قرار دیتا ہے۔
اور محکم وہ نص جو نہ معارض ہو نہ اسکے معنی میں کوئی احتمال ہو۔ اپنے مرادمیں واضح ہوں۔ ایسے نصوص میں کوئی اجتھاد نہیں۔ نا ہی ان میں تقلید ہے۔
باقی اس کے علاوہ جتنے بھی مقامات ہیں یعنی جو غیر منصوص مسائل ہیں۔۔۔ ۔ یا اگر کسی مسئلہ پر کسی آیت یا حدیث سے ثبوت پایا جاتا ہے تو وہ آیت یا حدیث اور بھی معنی اور وجوہ کا احتمال رکھتی ہو۔۔۔۔یا کسی دوسری آیت یا حدیث سے بظاہر متعارض معلوم ہوتی ہو۔
ایسے تمام مقامات پر حضرات مجتھدین جتنا بھی غور وحوض کے ساتھ احتیاط کے ساتھ اجتھاد فرمایا ہو ۔۔۔لیکن آخر کار مجتھد حضرات کیوں کہ غیر نبی تھے ۔۔۔اور ان کی رائے کو ایسی سوفیصد یقینی اور قطیعت حاصل نہیں جیسا کہ صاحب وحی کے فرامین کو یقین اور قطعیت حاصل ہوتی ہے۔
لہذامجتھدین حضرات کی تمام تر احتیاط اور کوششوں کے باوجود اُن کے اجتھاد میں خطاءکا احتمال باقی رہتا ہے ۔
لہذاجب واضح ہوجاتا ہے کہ مجتھد کا اجتھاد اُس وقت ہوتا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر قرآن و حدیث سے صریح ،محکم دلیل نہ پائی جاتی ہو ۔
تو پھر اس کے بعد قرآن وحدیث کی کسی بھی نص پر مجتھد کا اجتھاد اُس کا گمان تو ہوسکتا ہے کہ اس نص کا مفہوم فلاں مسئلہ کی دلیل ہے۔۔۔ لیکن مجتھد کے پاس صاحب وحی جیسا سوفیصدی یقین اور قطعی علم نہیں ہوتا کہ اسی نص کا مفہوم مسئلہ پر دلیل ہے ۔۔۔۔۔لہذا مجتھد کے گمان کو دلیل کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔۔۔ یوں اگر مقلد مجتھد کی دلیل جان بھی لیتا تب بھی مقلد کا عمل بنا دلیل کے ہوگا ۔
اور یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین حضرات ایسے مواقع پر اپنے گمان (یعنی کسی ایسے غیر منصوص مسائل پر یامحتمل نصوص یا متعارض نصوص کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنا) کو یقین اور قطعیت سے دلیل سمجھ لیتے ہیں اور پھر جو ان کے گمان سے اختلاف کرتا ہے اُس پر یہ حضرات مخالفت حدیث کا الزام لگادیتے ہیں ؟؟؟؟
گویا ان حضرات کی رائے نہ ہوئی بلکہ(معاذاللہ) حدیث ہوگئی کہ ان حضرات کا اخذکردہ مفہوم ہی مسئلہ پر سوفیصدی یقینی قطعی دلیل ہے ؟؟؟
البتہ وہ مقام کہ جن مسائل پر نص بھی موجود ہے ۔۔۔اور وہ نص کسی دوسری نص سے معارض بھی نہیں ۔۔۔۔اور وہ نص محتمل بھی نہیں ۔۔۔۔بلکہ اُس نص کی مراد واضح ،صریح اور محکم ہے ۔۔۔۔تو ایسے مقامات پر مسائل کی دلیل واضح،صریح اورمحکم ہونے کی وجہ سے اپنے مفہوم پر سوفیصدی یقین اور قطعیت کا درجہ رکھتی ہے ۔۔۔لہذا ایسے مقامات پر کیوں کہ (غیر متعارض صریح واضح محکم) دلیل ہے ۔۔۔۔۔تو پھر یقینا (غیر متعارض صریح واضح محکم)دلیل کی موجودگی میں کسی کی تقلید نہیں کی جاسکتی ۔۔۔۔ یہی مقلدین حضرات کا بھی موقف ہے کہ جہاں(غیر متعارض صریح ،واضح اور محکم) دلیل ہو پھر کسی کی تقلید نہیں ۔۔۔۔یعنی ایسے صریح مقامات پر نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ کسی کی تقلید درست ہے ۔
اس ساری وضاحت کو مثال کے ساتھ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر جیسے مسئلہ رفع یدین ایک اجتھادی مسئلہ ہے ...۔۔اور اس مسئلہ کے قائلین اور تارکین دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں
جیسے قائلین یہ روایت پیش فرماتے ہیں :
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه، وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع، ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ويقول " سمع الله لمن حمده". ولا يفعل ذلك في السجود.
یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اور دوسری روایت یہ ہے :
عن نافع أن ابن عمر كان إذا دخل فى الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال سمع الله لمن حمده . رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه . ورفع ذلك ابن عمر إلى نبى الله - صلى الله عليه وسلم - . رواه حماد بن سلمة عن أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبى - صلى الله عليه وسلم - . (صحیح بخاری:ـکتاب الأذان:باب رفع الیدین اذاقام من الرکعتین،حدیث نمبر739)
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے توتکبیرکہتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ،اورجب رکوع کرتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اورجب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دورکعتوں سے اٹھتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے،اورابن عمرَرضی اللہ عنہ اپنے اس عمل کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کرتے(یعنی کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھاکرتے تھے)۔
اور تارکین رفع یدین کے پاس یہ روایات ہیں :
امام مسلم یہ روایت کرتے ہیں :
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ(صحيح مسلم، 1 : 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کی ہے، امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے، مسند ابی عوانہ میں بھی روایت کی گئی، امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت کی ہے، امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں :
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة
ابن مسعود رضی اللہ عنہ (جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
اب سب سے پہلے(قطع نظر اس بحث کے دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کرکے کیا موقف پیش کیا ہے ...... اور فریقین نے اپنے اپنے مخالفین کے کس کس اعتراض کے کیا کیا جوابات فرمائے ہیں) تو یہاں یہ قیمتی نکتہ ذہن نشین کرنا ہے کہ نفس مسئلہ ہے کہ
''کیا امتیوں کو نماز میں رفع یدین کرنا ہے یا نہیں''
نفس مسئلہ ذہن نشین کرنے کے بعد جب ہم دونوں طرح کی روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے کہ دونوں طرح کی روایات میں نفس مسئلہ کی کوئی صراحت نہیں بلکہ آپس میں متعارض نظر آتیں ہیں ۔
یعنی دونوں طرح کی روایات میں یہ صراحت نہیں کہ آخری حکم کے مطابق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امتیوں کے لئے رفع یدین متعین ہوا ہے یا ترک رفع یدین متعین ہوا ہے ۔
لہذا جب کہنفس مسئلہ پر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی تعین نہیں۔
بلکہ دونوں فریقین کے مجتہدین حضرات نے اپنے اپنے اجتہاد سے رفع یدین کرنے کی یا ترک رفع یدین کی رائے پیش فرمائیتو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں فریقین کے عامی حضرات اپنے اپنے مجتھد کی رائے پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔نا کہ دلیل پر ؟؟؟
کیوں کہ نفس مسئلہ پر تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح دلیل موجود نہیں ۔
یوں عامی کا اپنی مجتھد کی رائے پر عمل کرنا بنا دلیل ہی ہوگا ۔اور غیر مقلدین سمجھتے ہیں کہ مجتھد نے جس نص سے مسئلہ اخذ کیا۔۔۔۔۔وہ نص ''نفس مسئلہ'' کی دلیل ہے ۔جبکہ غیر مقلدین حضرات یہ نہیں سمجھتے کہ:
لہذا جب دلیل نظر آگئی تو مسئلہ تقلید سے خارج ہوگیا ؟؟؟
کیوں کہ تقلید بنا دلیل کے ہوتی ہے ؟؟؟مجتھد کا نص سے مسئلہ اخذ کرنا اور بات ہے ......اور نص کا ''نفس مسئلہ'' پر دلیل ہونا اور بات ہے.۔یعنی جب کوئی مجتھد کسی غیر منصوص مسئلہ پر کسی نص سے اپنی رائے اخذ کرتا ہے تو یہاں تو "غیر منصوص" سے خود واضح ہے کہ مسئلہ پر نص موجود نہیں ..
دلیل کتاب اللہ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غیر متعارض ،صریح ، واضح اورمحکم نص ہے۔
کسی مجتھد کی طرف سے نص سے اخذ کی گئی رائے کا نام دلیل نہیں
اور جب مجتھد کسی ایسے مسئلہ پر نظر ڈالتا ہے کہ جس پر محتمل نص(جس کے دو یا دو سے زائد معنی نکلتے ہوں) ہو..... تو بھی ایسی نص کئی معنی کا احتمال رکھنے کی وجہ سے نفس مسئلہ پر صریح دلیل نہیں ہوتی.
لہذا جب مجتھد ایسے کسی مسئلہ کے جواب کے لئے غور و حوض کے بعد مختلف معنوں میں سے کسی ایک معنی کا انتخاب کرکے کسی مسئلہ کا جواب دیتا ہے تو اس جواب پربھی عمل کرنا نص کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ مجتھد کی رائے کی پیروی ہوتی ہے۔
کیوں کہ قرآن و حدیث کی نصوص کی پیروی کے لئے نصوص کی مراد کا خود اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حتمی طور پر متعین ہونا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یعنی جن نصوص کی مراد بالکل واضح ، صریح ، محکم اور غیر متعارض ہوگی وہ یقینی اور قطعی طور پر اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاء ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے انحراف کرنا سوفیصدی بغاوت اور نافرمانی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب قرآن و حدیث کی نصوص کی مراد کسی بھی وجہ سے واضح صریح محکم طور پر متعین نہیں تو اس کے بعد کسی بھی صاحب علم کا اپنے وسیع علم کی بنیاد پر غور حوض فرما کرکسی معنی یا مفہوم کو متعین کرنا اُس صاحب علم کا گمان ہوتا ہے کہ ممکن ہے اس نص سے اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مراد و منشاء یہی ہو ۔۔۔۔ تو ایسی نصوص پر مجتھد کی رائے پر عمل کرنا کس طرح قرآن و حدیث کی نافرمانی کہلاسکتی ہے ؟؟؟
لہذا عامی کا مجتھد کے بتائے ہوئے کسی ایسے مسئلہ پر عمل کرنا نص کی پیروی نہیں بلکہ مجتھد کی اُس رائے کی پیروی ہے جو مجتھد نے نص سے اخذ کی ہے......لہذا یہ بھی بنادلیل تقلید کرنا ٹھرا.
اس کے بعد جو نصوص متعارض ہیں(جس کی مثال ہم اوپر واضح کرچکے ہیں) اُن پر بھی عامی مجتھد کی رائے پر عمل کرتا ہے ......دلیل کی نہیں.
البتہ جو نصوص غیر متعارض اور اپنی معنوں میں محکم اور صریح ہیں ان نصوص کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ ایسی نصوص غیرمتعارض اور صریح محکم ہونے کی وجہ سے مسئلہ پر دلیل ہوتی ہیں....اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مقلدین حضرات خود بھی تقلید کے قائل نہیں(جیسا کہ ہم ماقبل بھی بیان کرچکے ہیں )
لہذا اس تفصیل کے بعد باآسانی واضح ہوجاتا ہے کہ تقلید بنا دلیل کے نہیں ہوتی بلکہ بنا دلیل والے قول کی ہوتی ہے .... (باالفاظ دیگر وہ قول جو شرعی حجتوں میں سے نہ ہو ....یعنی مجتھد کا قول نہ تو قرآن کی آیت ہے نہ حدیث ہے نہ اجماعی مقولہ ہے)
حضرات فقھائے کرام کا "تقلید" کی اصطلاحی تعریف میں "بنادلیل" سے مراد لوگوں کو یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ مجتھد کی رائے نصوص(دلیل شرعی)سے اخذ کی ہوئی ضرور ہوگی ..... لیکن مجتھد کی رائے نص (دلیل شرعی) نہیں بن جائے گی ......بلکہ مجتھد کی رائے کی بنا حجت (دلیل)شرعی ہوگی .....یعنی مجتھد کی رائے کو حجت شرعی (قرآن و حدیث و اجماع) کی حیثیت و مقام حاصل نہیں.....یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین کو مغالطہ ہوتا ہے کہ مقلدین بغیر دلیل کے مجتھد کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟.
اس ساری تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے مقلدین کے بہت سے اشکالات و اعتراضات کی باآسانی وضاحت ہوسکتی ہے.
(واللہ و اعلم بالصواب )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے .آمین
ضروری گذارش :تمام بھائیوں دوستوں اور خصوصا اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کسی بھی کمی کوتاہی نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔...نیز اگر کسی بھائی یا دوست کو اس وضاحت میں کوئی اشکال یا اعتراض نظر آتا ہے تو اس کی بھی نشادہی کی درخواست ہے .جزاک اللہ
From: Imran Rana <reehabimran@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, April 21, 2012 4:02 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
MASHALLAH shams bahye apa ke jawabat bhut tasalli baksh hien aur aap un se mukhatib hien jin ko yeh kam zieb nahi deta kiuoon ke apa in ko bahn bhan bana kr thakte nahi woh bhan bhan nahi woh asal me larka he kiuoon ke apni life me aru duniya me essy orat nahi dkehe jo is terha ka bahas kare. aru itna time nikale. 34 saal ak me hoon aru 1999 se internet se munsaliq hoon aru kareeban 100 forums hien jahan in touch hoon in se .bhut se ahlehadeeson ko yahoo groups me pakra he aru baned kiya he . ALLAh bahtar janta he . magar aqal bari neimat he .khier in jinab ne mujh par directly kafir ka fatwa woh bhi hazrat Nooh AS ke bete se tashbhi di he . in se toba nama shaya karaein aur kal ko aap par fatwa nazil ho ga..Note" ahlehadees chorne ke waja yahe he ke ache bhale nimazi ko nimaz se hatana ahlehadees sirf muslaman baki kafir.orton mardon ke nimaz me koye farq nahi masjid me bi orat jaye bache jaye bhar me miyan jaye bahr me par jao masid me ibadat karo koye farq nahi .etc.. ALLAh ne hadayet de aur 1888 ke bane howe angrezon ke baney howi jamat se mahfooz rakah ..
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, April 21, 2012 12:49 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
محترم بھائی شمس ! میں نے اپکو بارہا کتاب اللہ کی آیت پیش کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ غیر مشروط اطاعت صرف اللہ کی اور اسکے رسول کی ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اپ کیس مقصد خاص سے یہ سوال بار ہا پوچھ رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ اللہ کی کتاب سے مطمعن نہیں ہیں تو پھر کس سے مطمعن ہونگےمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا آپ کے نذدیگ اللہ اور رسول کی اطاعت کے علاوہ بھی کسی کی غیر مشروط اطاعت فرض و لازم ہے اگر ایسا ہے تو ثبوت پیش فرمائیں۔
دوسرے آپ نے فرمایا کہ "" بقول آپ کے " جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے "" تو میرے محترم بھائی یہ میرے بقول نہیں بلکہ اللہ کے رسول کا قول امام ترمذی نے پیش کیا ہے جیسا کہ منسلک صفحہ از جامع ترمذی میں موجود ہے۔۔ اپ اللہ کے رسول کے قول کو میرا قول نہ بنائیں۔۔۔۔
آپ کی باقی تحریر میرے لئے نہیں بلکہ جناب کے اپنے لئے ہے۔۔ الحمدولاللہ میں یا کوئی بھی عامل بالحدیث کسی صحابی رسول کی توہین کرنا اتو کچا اسکا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہاں اپ ایک بہت بڑی غلطی جان بوجھ کر کررہے ہیں اور وہ یہ کہ کسی صحابی کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنے پر اپ اسکو گستاخی قرار دے رہے ہیں جبکہ مین حضرت اللہ کی کتاب، سے اور خود حضرت ابو بکر کے قول سے یہ بارہا بتا چکی ہوں کہ معروف میں اطاعت ہے منکر میں اطاعت نہیں، اب اسکا آپ اگر یہ مطلب نکال لیں کہ میں کسیی صحابی کی توہین کر رہی ہوں تو یہ آپکی سمجھ اور آپکا ظرف ہے نہ کہ میرا قصور۔
جہاں تک صحابہ کی توہین کا تعلق ہے تو میں جنب کے مذہب کی کتابون کے حوالاجات تحریر کر سکتی ہیں جہاں قول مجتحد کو قول رسول کہا گیا کیا یہ مجتحد کو رسول بنانا نہیں اور کیا یہ توہین نہیں ہے۔ جناب کے مذہب میں کئی صحابہ کرام کو غیر فقہی کہا گیا، کیا یہ توہین و گستاخی نہین ہے ۔ بھائی شمس صاحب اپنے گھر کی خبر لیں پھر کیس پر بہتان لگائیں۔
الحمدولااللہ کوئی عامل بالحدیث کسی صحابی کی گستاخی یا اتوہین کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جنہوں نے تا وفات موجودہ رکوع کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تطبیق کو ہی اختیار رکھا، پر عمل نہیں کرتا ، یہاں تک کہ جناب بھی نہیں کرتے تو کیا حضرت عبداللہ بن عمر کے اس فعل پر عمل نہ کرنا انکی گستاخی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔??????
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Thu, 19 Apr 2012 18:47:01 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)میرے پیاری بہن مسرت آپ کی یہ تحریر نقل کر رہا ہو۔"بھائی عمران۔۔ یہ اپ کا خیال ہے حقیقت نہیں ، حقیقت اسکے برعکس ہے اپنے اس خیال کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا بس جو دل میں ایا خیال ظاہر کردیا۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔۔ بات ثبوت کے ساتھ کرین پھر بات بنتی ہے ہوا میں بات کرنا تو نہایت آسان ہے "مینے آپ سے یہ سوال کیا کے کونسی ایسی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول نے وصرف اپنی ہی اطاعت کا حکم دیا جس کا ثبوت آپ نے اب تک فراہم نہیں کیا۔ ثبوت دینے کے بجائے آپ اپنا ہی خیال ظاہر کر دیتی ہیں۔ بقول آپ کے " جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے "تو آپ گواہی دینے کے لیے اللہ کے نبی کا کوئی فرمان پیش کیوں نہیں کرتیں؟ کم سے کم دو چار کتابوں کا تو حوالہ پیش کریں جس میں اللہ کے نبی نے یہ واضح کیا ہو کہ صرف اور صرف میری اطاعت کرنے والا یا صرف میرے راستے پر چلنے والا، یا تمام انسانوں کا ایمان میرے کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ایک تحریر لال رنگ میں تھی جس کا جواب مینے اوپر دے دیااب ذرا تیچے والی تحریر پر نگاہ دوڑائی جائے تو بہتر رہے گا۔" میں نے ہر بات کا شافی جواب دیا اور یہ بھی ثابت کی کہ بھائی شمس کسی بھی مسئلہ پر کوئی جواب دئے بغیر اگلا مسئلہ شروع کر دیتے ہیں یہ میری تحریرون مین ثابت ہے اپ پڑھ لیں۔۔۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے ، اپ مرضی کے مالک ہیں جو چاہین کریں میرا فرض تھا نشاندہی وہ میں نھے کردی "ایک سچے موئمن کے لیے اللہ کی اطاعت کا رستہ قرآن کریم، اللہ کے نبی (صلی) کی سیرت مبارک، صحابہ (رضی اللہ عنھم) کی تعلیم اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جو انسان قرآن کریم کو نظر انداز کرنے کے بعد اللہ کے نبی کی زندگی کا اطاعت کا راستہ سمجھتا ہے کیا اس کے بارے میں کوئي بشارت دی جا سکتی ہے۔مشرکین عرب، یہودیوں اور نصرانیوں کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی ہے کہ اللہ کی کتاب اور نبی پاک کو تنقین کا نشانہ بنایا جائے جس کی مثالییں موجود ہیں تو کیا ہم سے کبھی کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ٹھیک اسی طرح حوارج جو تھے تو مسلمان لیکن ان کا کام یہ تھا کہ وہ صحابہ اکرام کی زندگیوں میں عیب جوئی کیا کرتے تھے۔مسلمانوں کا ایک نام نہاد طبقہ بھی ان کے بہکاوے میں آکر صحابہ اکرام کو لعن طعن کا نشانا بنا رہا ہے اور کھلم کھلا حدیثوں کا انکار کر رہا ہے۔ اب میں اپنی بات کو ثبوت کے ذریعہ پیش کر رہا ہوں۔"تفرقت اليهود على واحد و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه وتفرقت النصارى على اثنين و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه وستتفرق امتى على ثلاثة و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه.....قالوا من هؤلاء يارسول الله؟.....قال : الذين هم على ما انا عليه انا واصحابى"یہودیوں کے 71 فرقے ہوئے سب جہنم میں لیکن ایک جنت میں جائے گا ، نصرانیوں کے 72 فرقیں ہوئے سب جہنم میں لیکن ایک جنت میں جائے گا اور عنقریب میرے امت میں 73 فرقے ہونگیں سب جہنم میں جائیں گے لیکن ایک جنت میں، تو صحابہ نے پوچھا یہ کن لوگ ہونگیں (یعنی جو جنم میں جائیں گے) اللہ کے نبی نے جواب دیا وہ لوگ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔اب اگر کوئی صحابیوں میں عیب نکالنا شروع کردے تو اس کی ہدایت کے لیے کون آئے گا۔ دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں یا قرآن کریم میں کہیں بھی ایسا ذکر نہیں ملتا کہ کوئی صحابی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کوئی کام کریگا۔ لیکن کچھ اہمق اور جاہل لوگ قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کے فیصلوں میں کمیاں نکالا کرتے ہیں۔آئیں کچھ اور حدیثوں کا مطاعلہ کرتے ہيں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشادنقل فرماتے ہیں:أکرموا أصحابي فإنہم خیارکم۔"میرے صحابہ کا اعزاز کرووہ تم سے بہتر ہیں"۔۔ لا تسبوا أصحابي فإن أحدکم لو أنفق مثل أحد ذھباً ما بلغ مد أحدھم ولا نصیفہ۔" میرےصحابہ کو برا بھلا مت کہو کیونکہ تم میں سے کوئی بھی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد (تقریبا آٹھ سو گرام) بلکہ آدھے مد کو نہیں پہنچ سکتا"۔۔مذکورہ بالا تینوں احادیث شریفہ میں صحابہ کو برا بھلا کہنے اور ان کو ہدفِ طعن بنانے اور ان پر تنقید وتنقیص کو منع کیا گیا بلکہ ان کے افضلِ امت ہونے کی وجہ سے اکرام واعزاز کا حکم دیاگیا تاکہ امت کے قلب میں ان کی جانب سے بدظنی وبدگمانی نہ پیدا ہو، اور تبلیغِ دین کے سلسلہ میں لوگوں کا اعتماد متزلزل نہ ہو جائے۔نبی اکرم کے فیض کو پوری امت تک پہنچانے میں حضرات صحابہ کی حیثیت خشت اوّل کی ہے، وہ نبی اکرم اور بقیہ امت کے درمیان انتہائی قوی ومضبوط اور قابل اعتماد واسطہ ہیں، خدا نخواستہ اگر عمارت کی خشت اوّل ہی غلط ہو جائے تو "تا ثر یا می رود دیوار کج"(آسمان تک دیوار ٹیڑھی جائے گی)کی مثل صادق آئے گیاب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں صرف اللہ کے نبی کی ہی اطباع کرونگا یا کرونگی تو بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا اللہ کو پہچانے کے لیے کوئی نبی کا انکار کر سکتا ہے۔؟جس طرح اللہ کو پہچانے کے لیے نبی پاک کی تعظیم لازمی ہے اسی طرح سے صحابہ اکرام کو نظر انداز نہین کیا جا سکتا۔ جبکہ قرآن کریم میں صحابہ کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے اور خود نبی پاک نے صحابہ کی زندگی کو نجات کا راستہ بتایا ہے۔اب اگر دین کو سیکھنے کے لیے کوئی صحابہ رسول کا حوالہ دیتا ہے یا جس نے خود اصحابہ رسول کی زندگی کا بغور مشاہدہ کیا ہو تو اس کی بات کیون نہ مانی جائے۔اور وہ درجہ طابعین سے زیادہ کسے دیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایاخير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمتو یہ لوگ کھلم کھلا قرآن کریم کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور حداثوں کا بھی انکار۔ آخر کون سی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے یہ قرآن کریم اور حدیثوں پر عمل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ ائمہ عربہ کو کیوں اپنی نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔ہمارے ایک مخلص ساتھی نے ہمیں بتایا کہ امام ابوحنیفہ تو اتباع کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کی مذہب میں دودھ پلانے کی مدت ڈھائی سال ہے اور کلام الاہی میں دودھ پلانے کی مدت صرف 2 سال ہے تو ان کی اتباع کیسے کی جا سکتی ہیں۔تو ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے پورا کلام پاک پڑھا ہے بولے ہاں۔ تو ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کلام الہی میں "وحمله وفصاله ثلاثون شهرا" کی کوئی آیت دکھائی نہیں دی بولے قرآن سمجھ کر نہیں پڑھا ہے اور جواب دیا عربی نہیں آتی۔ تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ڈھائی سال کی مدت کی خبر کہاں سے ملی بولے اپنے بڑوں سے سنا ہے۔ہم نے انہیں جواب دیا کہ کسی عام انسان پر بھی کوئی بات کہنے سے پہلے سوچ لیا کرو جس کا تمہیں کوئی علم نہ ہو۔ جو لوگ کسی پر اس طرح الزام لگاتے ہیں یا غلط گمان کرتے ہیں اللہ تعالی نے ان کے بارے میں صاف قرآن کریم میں فرما دیا"يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ولا تجسسوا ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه واتقوا الله إن الله تواب رحيم"
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>
Sent: Thursday, 19 April 2012 1:19 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
بھائی عمران۔۔ یہ اپ کا خیال ہے حقیقت نہیں ، حقیقت اسکے برعکس ہے اپنے اس خیال کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا بس جو دل میں ایا خیال ظاہر کردیا۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔۔ بات ثبوت کے ساتھ کرین پھر بات بنتی ہے ہوا میں بات کرنا تو نہایت آسان ہے
میں نے ہر بات کا شافی جواب دیا اور یہ بھی ثابت کی کہ بھائی شمس کسی بھی مسئلہ پر کوئی جواب دئے بغیر اگلا مسئلہ شروع کر دیتے ہیں یہ میری تحریرون مین ثابت ہے اپ پڑھ لیں۔۔۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے ، اپ مرضی کے مالک ہیں جو چاہین کریں میرا فرض تھا نشاندہی وہ میں نھے کردی/
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com
From: reehabimran@yahoo.com
Date: Sun, 15 Apr 2012 02:18:22 -0700
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)JAZAKALLAh shams bahye. aur aap bhi yaheen hein me bhi yaheen hoon aap ko jawab nahi mile ge. agar mille ga to wohi sawal gandum jawab channa ke musadiq ho ga. shayed ke utar jay aap ke baat in ke dil me. shayed.........
From: john_shams <john_shams22@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Saturday, April 14, 2012 6:10 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
میری پیاری بہن اسلام علیکم و رحمت اللہ،آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمی ہے جسے آپ مانے یہ نہ مانے یہ آپ کی مرضی ہے۔اطاعت کے بارے میں مینے آپ سے 5 بار یہ سوال کیا کہ اللہ کے نبی نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کو ہی واجب اور فرض قرار دیا ہے یا نہیں، اگر ہاں تو اسے دلیل سے ثابت کریں جس کا جواب آپ نے اب تک نہیں دیا۔ آپ کسی دوسرے کے سوالوں کے جواب نہ دے تو کوئی بات نہیں، دوسروں کی تحریروں کو پورا پڑھے بغیر اپنے طور پر کوئی مطلب نکالیں تو صحیح۔ دوسروں پر لعن طعن کرنا چھوڑیں۔رہا آپ کا سوال شخصی تقلید کا تو سوال یہ نہیں کہ تقلید کس کی کی جائے اور کس کی نہ کی جائے، یا تقلید ہی نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کلام اللہ، احادیث اور دین کو سمجھنے کے لیے کس کی بات مانی جانیں۔اس کا جواب ہے؛ بات اس کی مانی جائے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، متقی و پرہیز گار ہو، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہو، اپنی زندگی میں اللہ کے نبی کے طریقہ کو شامل کرتا ہو، امین و صادق ہو، علمی اور روحانی صلاحیت رکھتا ہو، اور جس نے اللہ کی نبی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا ہو۔ یہی سوال اس بات کا ہے کہ آپ کا مطالعہ کتنا، آپ نے اس شخص کے بارے میں اس کی تعلیم کے بارے میں کہاں تک معلومات حاصل کی ہے۔ اگر آپ نے یہ حدیث پڑھی ہوتی تو شاید یہ سوال آپ کھی نہ کرتی۔خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمشرح آپ نیچے پڑھ سکتی ہیں۔{ خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم } هذا من حيث الطبقة العامة لا من حيث كل فرد بذاته، ولا شك أن أفراد الصحابة جيل متميز لن يبلغ مثله أحد، أي: الطبقة العامة من الصحابة رضوان الله تعالى عليهم فهم أفضل الأمة جميعها، والطبقة التي تليهم وهم التابعون هم أفضل وخير من الطبقة التي بعدهم من هذه الأمة، ولكنك تجد أن في التابعين من هو خير وأكثر إيماناً ممن له مجرد صحبة، لأن الصحابة رضوان الله تعالى عليهم كما دل عليه حديث: {لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه } يدل على أن الصحابة كانوا طبقتين أيضاً، لأن المخاطب كان من الصحابة، وممن لهم صحبة، فالصحابة بمعنى أخص وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار هؤلاء درجة، ومن أسلم وجاهد من بعد الفتح أيضاً درجة.فنقول: إن بعض أفراد التابعين، أي: كبار التابعين المجاهدين هم خير من آخر الطبقة الثانية، وهذا لا شك فيه، كما أن أفراداً من جيل تابعي التابعين من هو خير من أفراد التابعين... وهكذا، فهذا كطبقات.أما الأمة في مجموعها فإن الخير فيها إلى قيام الساعة، وإذا كانت الطائفة المنصورة كما أخبر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تزال ظاهرة على الحق إلى قيام الساعة، فإنها قد تأتي مرحلة من المراحل فيها من الاستضعاف ومن الشر والظلم والكفر وما يكون عمل الواحد كخمسين، كما أخبر بذلك النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الحديث الآخر، فيكون حالها أعظم ممن كان في الأجيال أو القرون الثلاثة؛ بسبب ما حف به من المحن والبلاء وقلة المعين والنصير، لا أن هؤلاء في ذواتهم أو كأفراد فيهم من هو أفضل، لكن أيضاً بحسب الأحوال، فالخير في هذه الأمة باقٍ إلى قيام الساعة، والطائفة المنصورة لا تزال قائمة، وإن ضعفت في بلد فهي قوية في بلد آخر، فمن هنا ينبغي أن نعتقد أمرين:أولاً: أن نعتقد أفضلية الثلاثة القرون الأولى على غيرها.ثانياً: أن نعتقد أن هذه الأمة أمة مباركة خيرة، وأن الخير لا ينقطع فيها، وأن علينا أن نجاهد لكي نكون إن شاء الله ممن ينال شرف صحبة هؤلاء الكرام في الجنة، فيلحق بهم وإن لم يكن منهم، وإن لم يدركهم.اب رہا سوال اللہ کے رسول اور ان کی اطاعت کا کہ اختالافت کی صورت میں اس معاملہ کے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے گا، بات ٹھیک ہے۔قرآن کریم یا احادیث سے کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس انسان میں صلاحیت بھی ہونی چاہیے کیونکہ صرف قول کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ہمارے علاقہ میں اہل حدیث کا ایک گروپ موطا کو جائز ٹھہرانے کے بارے میں بضد ہے اور سے صحیح مسلم سے ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کا پٹارا کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ اہل حدیث کا یہ گروپ عام لوگوں کو یہ کہ کر حدیث سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ کے نبی کی نافرمانی اللہ کی نا فرمانی ہے۔ اس لیے اس حدیث کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا کونسا فرد اپنی ماں،بہن یا بیٹی کو موطا کے لیے تیار کریگا۔ جو حدیثوں کا انکار کرتا ہے اس پر انہونے منکر حدیث کا فتوی لگا رکھا ہے۔ تو میری مخلص بہن اس مسئلہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کیسے لوٹائیں گیں ذرا واضح کر دیں۔اگر آپ ان دونوں سوالوں کا جواب دیں سکیں جنہیں ہیں مینے پیلے رنگ سے ہائلائٹ کیا ہے تو ٹھیک ہے ورنا اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ کیونکہ اہل حدیث صاحبان صحیح بخاری کی وہ حدیث لوگوں کو دکھا کر حضرت عمر کے بارے میں وسوے پیدا کر رہے ہیں جو اللہ کے نبی کے آخری وقت وسال سے پہلے میں پیش آئی اور لوگوں سے کہ رہے ہیں کہ جو صحابی اللہ کے نبی کی بات کا انکار کرے کیا اس کی کوئی بات مانی جا سکتی ہے۔اپنی بات پھر یہاں دہراتا ہو اگر سوالوں کے جواب دیں سکیں تو ٹیک ہے ورنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Saturday, 14 April 2012 3:56 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
بہت ہی محترم بھائی شمس ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو صحت اور شفاء عطا فرامائے۔ آمین
صحابہ کرام کے بارے میں اپکی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں، خوارج کے بارے میں جناب کی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں اگر یہ اشارہ کسی مومن کی طرف نہ ہو تو۔
جہان تک جناب کی تحریر اولواالامر سے متعلق ہے تو عرض ہے کہ جناب کی میل میں اولواالامر کی اطاعت میں یہ شبہ پیدا کیا گیا ہے ""اس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔ "" اس بارے میں کچھ تفصیل جو اسطرح ہے جو شاید جناب کی نظر میں نہ آئی ہو تفاسیر میں۔ کہ " اس آیت کے بعد والے ٹکڑے میں اختلاف کے وقت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اولواالامر کی اطاعت عارضی ہے۔ یہ اطاعت عام اور سیاسی امور میں ہے۔نیز اللہ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط ہے جبکہ اُولواالامر کی اطاعت مشروط ہے جیسا کہ مشہور حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس اس آیت کے متعلق فرمایا ہے کہ (ترجمہ) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ میں امیر بنا کر بھیجا تھا (بخاری 4584 ۔ اس مشہور واقع کی تفصیل صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبداللہ بن حذافہ السہمی الرقم 4340 پر موجود ہے جسکے مطابق معصیت میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ چاہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کیا ہوا اُولواامر ہی کیوں نہ ہو اسکی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے نہ کہ منکر میں ۔
یہی بات صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (مسلمانوں کے امیر کا) حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ حکم پسند نہ آئے جب تک کہ وہ تمہیں کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جو وہ گناہ کا حکم دے تو ایسی صورت میں اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔۔بخاری و مسلم۔یہ ہے اولواالامر کے حکم کی حقیقت۔۔
محترم بھائی اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اولواالمر کی اطاعت صرف معروف کاموب میں ہے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے گا تو پھر کوئی سمع وطاعت جائز نہیں ہے پھر اولواالامر کی ہی نہیں بلکہ اولواالمر کے باپ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس حقیقت کو مزید تقویت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پاک سے ملتی ہے جو النساء:65 میں ہے کہ (ترجمہ) پس آپ کے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کر لیں۔۔ اس معنی کی مزید آیات بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔۔
میرے محترم بھائی ! اگر یہ آیت اپنے طلب پر جو آپ نے اپنی رائے سے بیان فرمایا ہے پر پورئ اترتی ہوتی تو شیخ الحدیث و شیخ الھند مولانا محمود الحسن صاحب کو اپنی کتاب ادلہ کاملہ میں اس آیت میں تحریر کرکے اپنے مطلب پر لانے کی کوشش کرنے کئی ضرورت ہی نہ پڑتی۔یہ آیت آپ کے بیان کئے گئے مطلب پر پوری اترتی تو کیوں وہ اس میں اضافہ کرکے مقصد براری فرماتے۔۔۔۔? انہون نے اس آیت میں اضافہ کرکے آپ کے مطلب پر لانے کی کوشش کی لیکن اللہ بھلا کرے علماء حق کا کہ فورا" تاقب کیا اور عوام کے سامنے حقیقت کھول کر بیان فرمادی۔ اور انشاءاللہ تا قائم قیامت یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہیگا۔
اسکے علاوہ میں نے بار ہا اس بات پر ذور دیا ہے کہ اصل مسئلہ تقلید شخصی کا ہے جسپر جناب نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب آپ خود ہی فرمائیں کہ یہ کیا انداز گفتگو ہے۔ سوال کچھ اور جواب کچھ۔۔
جناب کے آخری پراگافون کے بارے میں جہاں متعہ کا ذکر ہے تو یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ غلط کرتے ہیں، لیکن کسی ایک غلط فرقے کی بات کو دوسرے لوگون پر فٹ نہیں کیا جاسکتا، اسکے علاوہ یہ بھی تو جناب نے ہی ثابت کرنا ہے کہ کون اپنی رائے سے قرآن کو سمجھتا ہے اور کو ن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو کُتب احادیث میں موجود ہیں جیسا کہ میں نے اولواالامر والی آیت میں ثابت کیا کہے کہ احادیث صحیحیہ کی روشنی میں جو مطلب اہل حدیث کا ہے وہ درست ہے اور جو مطلب جناب نے اختیار کیا ہے ہو درست نہین۔
میرے محترم بھائی تقلید شخصی پر بات کو آگے بڑھائیں۔۔
بھائی شمس میں نے اپنی میل میں سنت کی تعریف و اقسام تحریر کی تھیں اور جناب سے حدیث کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ جناب نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار فرمائی ہے جبکہ مسئلہ بھی جناب نے ہی چھیرا ہے کہ سنت و حدیث میں فرق ہے۔۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ جناب اس موضوع کو بھی مکمل فرمائیں۔
مزید برآں یہ کہ میں نے جناب کو ایک میل میں توحید و شرک کے بارے مین آیات و احادیث پیش کی تھیں تا دم تحریر جناب کی طرف سے اس بارے مین بھی مکمل خاموشی ہے۔ درخواست ہے کہ یا تو میرے دلائل کو قبول فرما کر میری حوصلہ افضائی فرمائیں اور شاباش دیں یا پھر با مقصد جوابی دلائل ارسال فرمائیں۔ شکریہ
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Sat, 14 Apr 2012 16:02:21 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)میری پیارے بہن مسرت جہاں وعلیکم اسلام و رحمت اللہ و برکاتہ،ایک بار پھر سے آپ کے رو برو پیش ہونے کا موقع ملا۔ جواب نہ دینے کی شکایت آپ کی معقول اور قابل قبول ہے۔ دراصل کچھ دنوں سے لگاتار راتوں کو جاگنے کی وجہ سے میرے طبیت کچھ زیادہ خراب ہو گئی ہے۔جہاں تک تقلید کا تعلق ہے اس سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ یہ فرمایا ہے کہ ہماری نشانیوں پر غور و فکر کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا ہے وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ کلام الاہی کو آکھیں بند کر نے کے لیے تو اللہ تعالی نے بھی نہیں کہا اور اسی لیے اللہ نے اپنے نبی کو سب سے بہترین شارح بناکر بھیجا جس کے بعد یہ علم صحابہ اکرام کے ذریعہ آگے آنے والی نسلوں کو منتقل ہونے کے لیے محفوظ ہو گيا۔اب میں یہاں آپ کے سامنے بہت تھوڑی سی بات خوارج کی بھی پیش کر دوں تو زيادہ اچھا ہوگا۔خوارج ایک ایسا گروہ تھا جو رسول اللہ کی وفات کے بعد پیدا ہوا جس نے حضرت ابوکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) کو تو صحیح خلیفہ تسلیم کیا لیکن حضرت عمر اور علی (رضی اللہ عنھما) کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے حساب سے وہ لوگ قرآن کریم پر صحیح طرح سے عمل نہیں کرتے تھے اور اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کلام الہی کی آیات کو پیش کیا کرتے تھے۔ حضرت علی کو قتل کرنے کی بہت سی سازشیں ان کی طرف سے شروع بھی ہوئی کچھ کو ناکام بھی کیا گیا لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ لوگ صحابہ اکرام پر تہمتیں لگایا کرتے تھے اور کلام الاہی کو اپنے ہی انداز میں سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ان کی ایک خاصیت اور بھی تھی کہ یہ لوگ کلام اللہ اور احادیث کے لفظی معنوں پر ہی انحصار کیا کرتے تھے۔ خود حضرت علی کے زمانے میں بھی ان لوگوں نے ان کے فیصلوں کو کلام اللہ سے متضاد قرار دیا۔ ان کی ایک نئی شاخ "الاباضية" کے نام سے بھی مشہور ہے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ صحابہ اکرام سے اس لیے بغض اور عداوت رکھتے ہیں کیونکہ ان ان کے نزدیک اطاعت صرف اللہ کی اور اللہ کے نبی کی ہی واجب ہے حالانکہ قرآن کریم کی واضح آیتيا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله ; وأطيعوا الرسول , وأولي الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء , فردوه إلى الله والرسول . إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر . ذلك خير وأحسن تأويلااس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔کیونہ یہ لوگ خود تقلید کے مخالف تھے کلام الاہی کو سمجھنے اور احادیثوں سے استفادہ کرنے کے لیے یہ کسی بھی انسان کے رائے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔اگر آپ اللہ کے نبی کی اس حدیث کو پڑھیں اور اس کی تفسیر سے استفادہ کریں تو یقینا آپ کو بہت فائدہ ہوگا:خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمآج ہمارے ملک میں ایک گروہ اور ایسا پیدا ہوا ہے جو براہ راست احادیث مبارک کی بنیاد پر تقلید کی مخالفت کر رہا ہے۔ میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ موطا کے بارے میں تو آپ جانتی ہی ہونگی۔ تمام ائمہ کے نزدیک قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسے حرام قرار دے دیا گیا ہے لیکن ایک فرقہ اسے اس لیے جائز قرار دے رہا ہے کیونکہ اس کے جائز ہونے کے ثبوت صحیح احادیثوں میں موجود ہہیں۔جائز ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا رواج اللہ کے نبی کے زمانے تک رہا اور حضرت عمر نے اس پر حکم امتنائی عائد کیا۔تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی کے مطابق کلام اللہ اور احادیثوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہیں یا وہ لوگ جو اللہ اور اس کے بنی سے سب سے زیادہ قریب رہے۔
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
Sent: Friday, 13 April 2012 10:32 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
محترم بھائی شمس۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبراکتہ۔۔
آپ کی اس میل کو موصول ہوئے تین یوم گزرگئے ایسا لگتا تھا کہ آپ تقلید کے مطعلق اور سنت وحدیث کے فرق کو واضح کرنے کے لئے مزید معلومات یا تحریرات سے نوازیں گے۔ لیکن اس میل میں موجود معلومات میں جناب کی طرف سے مزید کوئی اضافہ یا معلومات فراہم نہ کی گئیں۔
آج تین دن بعد جرات کررہی ہوں کہ اس میل میں مزید اضافہ و معلومات فراہم کرنے کی درخواست کروں۔ اور ساتھہ ہی اس بارے میں اپنی معلومات بھی جناب سے شیر کرتی چلوں جو اسطرح ہیں۔۔
محترم بھائی ہم تقلید شخصی کے خلاف ہیں اور اسکے لئے ہمارے پاس متعد اقوال و تحریرات از طرف علماء مقلدین کی موجود ہیں جو اسکے خلاف ہیں۔ اور پھر تقلید شخصی کا حکم تو کسی امام نے دیا ہی نہیں تو پھر یہ زبردستی کیوں۔۔۔۔?
دوسری بات یہ کہ میری معلومات کے مطابق سنت کی تعیریف و اقسام اسطرح ہیں: "" سنت کی تعریف:
سنت کا لغوی معنی طریقہ یا راستہ ہے، خواہ اچھا ہو یا برا ۔۔اسکی وضاحت کے لئے ترجمہ احادیث پیش ہے "حضرت ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا،تو جاری کرنے والے کو اپنے عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس اچھے طریقے پر چلنے ووالے دوسرے لوگون کے عمل کا ثواب بھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے کوئی برا طریقہ جاری کیا جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا تو اس پر اپنا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ کا بھی جنہوں نے اس پر عمل کیا جبکہ برے طریقے پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔صحیح سنن ابن ماجہ،للالبانی،الضزء الاول،رقم الحدیث 172
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے میرے طریقہ پر چلنے سے گریز کیاوہ مجھ سے نہی " بخاری کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح۔
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا '(میں نے یہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ) لوگوں کو علم ہوجائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے " بخاری، کتاب الجنائز،باب قرا ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ۔۔
سنت کی تین اقسام ہیں (2) سنتا فعلی (3) سنت تقریری
۔۔1۔۔ سنت قولی۔۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ارشاد مبارک "سنت قولی" کہلاتا ہے۔۔
۔۔2۔۔ رسول اکرم سلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کو "سنت فعلی" کہتے ہیں۔۔
۔۔3۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جو کام کیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہو یا اس پر اظہار پسندیدگی کیا ہو اسے "سنت تقریری" کہتے ہیں۔۔
جناب سےدرخواست ہے کہ مزکورہ تعریف و اقسام کے بارے مین اپے علم سے ہمیں بھی مستفید فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ""حدیث "" کے بارے میں بھی علمی مولومات فراہم فرمائیں۔ میں جناب کی بے حد شکرگزار ہوںگی۔
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Wed, 11 Apr 2012 04:23:14 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)assalamua alaikum warah matullahi wabaraktuhu,My dear brother unless we learn and got the ability to differentiate between two words, we will not be able to understand Arabic language. As far as the matter of Taqleed is concerned, there are number of people opposing and favoring and each one of them claiming to be on the right path of Allah. ALLAH KNOWS BETTERBut, here, i would like to tell you one thing that you can simply do, as it will help you to understand Taqleed in broader meaning.learn and study the difference between Sunnah and Hadees.What Mohammad (peace and blessing be upon him) said about Hadees and what he said about his Sunnah.Sunnah is foundation and basis of your Islamic activities and rituals.
From: Mohammad Usman <musman@kindasa.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>; "goooogle@yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Tuesday, 10 April 2012 4:22 PM
Subject: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
Imitation (taqleed), following the evidence (daleel)
How can a person not make taqleed and still at the same time follow the teachings of one of the imams hanafi, maaliki, shaafi and ahmad bin hanbal (may allah (s.w) have mercy on them all). I am asking this because after reading a summary of the biography of Bin Baaz ( may allah (s.w) have mercy on him) that he followed the school of Ahmad Bin Hanbal (may allah(s.w) have mercy on him) but didn't do taqleed. Please explain this to me because I am confused .
Praise be to Allaah.Firstly:The followers of the madhhabs are not all the same. Some of them are mujtahids within their madhhab, and some are followers (muqallids) who do not go against their madhhabs in any regard.Al-Buwayti, al-Muzani, al-Nawawi and Ibn Hajr were followers of Imam al-Shaafa'i, but they were also mujtahids in their own right and differed with their imam when they had evidence. Similarly Ibn 'Abd al-Barr was a Maaliki but he differed with Maalik if the correct view was held by someone else. The same may be said of the Hanafi imams such as Abu Yoosuf and Muhammad al-Shaybaani, and the Hanbali imams such as Ibn Qudaamah, Ibn Muflih and others.The fact that a student studied with a madhhab does not mean that he cannot go beyond it if he finds sound evidence elsewhere; the only one who stubbornly clings to a particular madhhab (regardless of the evidence) is one who lacking in religious commitment and intellect, or he is doing that because of partisan attachment to his madhhab.The advice of the leading imams is that students should acquire knowledge from where they acquired it, and they should ignore the words of their imams if they go against the hadeeth of the Prophet SAWS (peace and blessings of Allaah be upon him).Abu Haneefah said: "This is my opinion, but if there comes someone whose opinion is better than mine, then accept that." Maalik said: "I am only human, I may be right or I may be wrong, so measure my words by the Qur'aan and Sunnah." Al-Shaafa'i said: "If the hadeeth is saheeh, then ignore my words. If you see well established evidence, then this is my view." Imam Ahmad said: "Do not follow me blindly, and do not follow Maalik or al-Shaafa'i or al-Thawri blindly. Learn as we have learned." And he said, "Do not follow men blindly with regard to your religion, for they can never be safe from error."No one has the right to follow an imam blindly and never accept anything but his worlds. Rather what he must do is accept that which is in accordance with the truth, whether it is from his imam or anyone else.Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah said:No one has to blindly follow any particular man in all that he enjoins or forbids or recommends, apart from the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him). The Muslims should always refer their questions to the Muslim scholars, following this one sometimes and that one sometimes. If the follower decides to follow the view of an imam with regard to a particular matter which he thinks is better for his religious commitment or is more correct etc, that is permissible according to the majority of Muslim scholars, and neither Abu Haneefah, Maalik, al-Shaafa'i or Ahmad said that this was forbidden.Majmoo' al-Fataawa, 23/382.Shaykh Sulaymaan ibn 'Abd-Allaah (may Allaah have mercy on him) said:Rather what the believer must do, if the Book of Allaah and the Sunnah of His Messenger (peace and blessings of Allaah be upon him) have reached him and he understands them with regard to any matter, is to act in accordance with them, no matter who he may be disagreeing with. This is what our Lord and our Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) have enjoined upon us, and all the scholars are unanimously agreed on that, apart from the ignorant blind followers and the hard-hearted. Such people are not scholars.Tayseer al-'Azeez al-Hameed, p. 546Based on this, there is nothing wrong with a Muslim being a follower of a certain madhhab, but if it becomes clear to him that the truth (concerning a given matter) is different from the view of his madhhab, then he must follow the truth.And Allaah knows best.Sheikh Muhammed Salih Al-MunajjidIslam Q&A~And learn more about IslamWith Kind n Humble Regards,Mohammed UsmanJeddah-Saudi ArabiaThe Messenger of Allah (sal Allahu alaihi wa sallam) said,"When Allah wishes good for someone, He bestows upon him the understanding of the Deen." [Bukhari]
No comments:
Post a Comment