article originlay psot by Mutram nasir Noman bhaye
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔۔۔ اکثر وبیشتر ہم نے دیکھا کہ جب بھی غیر مقلدین سے ''تقلید'' کے موضوع پر کوئی گفتگو ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو عموما غیرمقلدین مقدمین علماء احناف کے حوالے سے تقلید کی تعریف کو بنیاد بنا کر گفتگو کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جب انہیں متاخرین علماء کی تشریحات سے تقلید کی تعریف واضح کی جاتی ہے تو وہ اسے ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔
ویسے تو علماء کرام متعدد بار"تقلید" کی تعریف کے حوالہ سے وضاحتیں فرماچکے ہیں جو یقینا کسی بھی حق کے متلاشی کے لئے کافی و شافی ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باجود بھی غیر مقلدین کے بعض حضرات آج بھی عام سادہ لوح مسلمانوں کو تقلید کی تعریف کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
زیر نظر مضمون مقدمین علماء احناف کی طرف سے "تقلید" کی اصطلاحی تعریف پر ایک شبہ کے ازالہ کے طور پر ہم نے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ جو کہ مقدمین علماء احناف کی پیش کردہ تعریف میں "من غیر حجۃ " پر غیر مقلدین حضرات کے مشہور اعتراض جواب میں ہے کہ مقدمین علماء نے تقلید کی تعریف میں واضح کیا ہے کہ تقلید بغیر دلیل کے ہوتی ہے ۔۔۔۔لہذا مقلدین بنا (شرعی) دلیل کے اپنے مجتھد کے قول پر عمل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
اس سے قبل ہم اپنی وضاحت پیش کریں ضروری ہے کہ آپ حضرات کو واضح کردیا جائے کہ یہ تحقیق ہم نے خود ترتیب دینے کی کوشش کی ہے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہے ۔۔۔۔۔لہذا غلطیوں کی نشادہی ضرور کی جائے لیکن ہماری غلطیوں کو بنیاد بنا کر کسی پر طعن و تشنیع نہ کیا جائے کیوں کہ یہ مضمون ہمارا ترتیب دیا ہوا ہے اور علماء کرام و دیگر حضرات اس مضمون میں ممکنہ غلطیوں سے بری الذمہ ہیں۔
محترم قارئین کرام
جب ہم نے غور کیا کہ حضرات فقہائے کرام جن کی فقاہت کا زمانہ معترف رہا ہے ۔۔۔۔ اُن کی پیش کردہ "تقلید" کی تعر یف یوں کسی بنا کسی حکمت کے نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔۔لہذا اس حکمت پر غور کرتے کرتے کچھ نکات سامنے آئے جن کو ترتیب دے کر آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔۔۔۔ اس درخواست کے ساتھ کہ جن حضرات کو بھی ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو ضرور نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔۔۔۔۔نیز اہل علم حضرات سے خصوصی طور پر ہماری غلطیوں کی نشادہی کی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
عام طور پر یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مجتھدکا اجتھاد کن مواقع پر ہوتا ہے ؟؟
یعنی ایک مسلمان کو روز مرہ کی زندگی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔اُن کے جوابات کے لئے جب قرآن وحدیث سے رجوع کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں روز مرہ کی زندگی میں درپیش آنے والے بے شمار مسائل پرصراحت نہیں۔۔۔جن کو غیر منصوص مسائل(یعنی جن مسائل پر نص( قرآن کی آیت یا حدیث نہ ہو) کا نام دیا گیا ۔۔۔۔ان غیر منصوص مسائل کے لئے مجتھد قرآن وحدیث میں غوروفکر کرکے ان میں موجود چھپے مسائل کا استنباط(جواب تلاش کرنا) کرتا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف وہ مسائل ہیں جن پر نصوص(قرآن کی آیت یا حدیث) توموجود ہیں ۔۔۔لیکن ان منصوص مسائل پردو یا دو سے زائد نصوص ہوں اوران میں اختلاف ہو تو رفع تعارض کے لئے مجتھد اجتھاد کرتا ہے اور اپنے اجتھاد کی بنیاد پر ایک نص کو راجع(قابل ترجیح) قرار دیتا ہے ۔
اسی طرح بہت سے ایسے مسائل سامنے آئے جن پر نصوص بھی موجود تھیں ۔۔۔اور اُن میں دیگر نصوص سے تعارض بھی نہ تھا ۔۔۔لیکن ایسی غیر معارض نصوص میں بعض نصوص محتمل(مختلف معنوں کا امکان) ہوتی ہیں اوربعض محکم(کسی اور معنی کا امکان نہ ہونا بلکہ مفہوم صریح و واضح ہونا) ہوتی ہیں۔۔۔۔ محتمل یعنی ایسی نص جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پایا جائے۔۔۔۔لہذا مجتھد اجتھاد سے ایک معنی کو راجع (قابل ترجیح) قرار دیتا ہے۔
اور محکم وہ نص جو نہ معارض ہو نہ اسکے معنی میں کوئی احتمال ہو۔ اپنے مرادمیں واضح ہوں۔ ایسے نصوص میں کوئی اجتھاد نہیں۔ نا ہی ان میں تقلید ہے۔
باقی اس کے علاوہ جتنے بھی مقامات ہیں یعنی جو غیر منصوص مسائل ہیں۔۔۔ ۔ یا اگر کسی مسئلہ پر کسی آیت یا حدیث سے ثبوت پایا جاتا ہے تو وہ آیت یا حدیث اور بھی معنی اور وجوہ کا احتمال رکھتی ہو۔۔۔۔یا کسی دوسری آیت یا حدیث سے بظاہر متعارض معلوم ہوتی ہو۔
ایسے تمام مقامات پر حضرات مجتھدین جتنا بھی غور وحوض کے ساتھ احتیاط کے ساتھ اجتھاد فرمایا ہو ۔۔۔لیکن آخر کار مجتھد حضرات کیوں کہ غیر نبی تھے ۔۔۔اور ان کی رائے کو ایسی سوفیصد یقینی اور قطیعت حاصل نہیں جیسا کہ صاحب وحی کے فرامین کو یقین اور قطعیت حاصل ہوتی ہے۔
لہذامجتھدین حضرات کی تمام تر احتیاط اور کوششوں کے باوجود اُن کے اجتھاد میں خطاءکا احتمال باقی رہتا ہے ۔
لہذاجب واضح ہوجاتا ہے کہ مجتھد کا اجتھاد اُس وقت ہوتا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر قرآن و حدیث سے صریح ،محکم دلیل نہ پائی جاتی ہو ۔
تو پھر اس کے بعد قرآن وحدیث کی کسی بھی نص پر مجتھد کا اجتھاد اُس کا گمان تو ہوسکتا ہے کہ اس نص کا مفہوم فلاں مسئلہ کی دلیل ہے۔۔۔ لیکن مجتھد کے پاس صاحب وحی جیسا سوفیصدی یقین اور قطعی علم نہیں ہوتا کہ اسی نص کا مفہوم مسئلہ پر دلیل ہے ۔۔۔۔۔لہذا مجتھد کے گمان کو دلیل کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔۔۔ یوں اگر مقلد مجتھد کی دلیل جان بھی لیتا تب بھی مقلد کا عمل بنا دلیل کے ہوگا ۔
اور یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین حضرات ایسے مواقع پر اپنے گمان (یعنی کسی ایسے غیر منصوص مسائل پر یامحتمل نصوص یا متعارض نصوص کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنا) کو یقین اور قطعیت سے دلیل سمجھ لیتے ہیں اور پھر جو ان کے گمان سے اختلاف کرتا ہے اُس پر یہ حضرات مخالفت حدیث کا الزام لگادیتے ہیں ؟؟؟؟
گویا ان حضرات کی رائے نہ ہوئی بلکہ(معاذاللہ) حدیث ہوگئی کہ ان حضرات کا اخذکردہ مفہوم ہی مسئلہ پر سوفیصدی یقینی قطعی دلیل ہے ؟؟؟
البتہ وہ مقام کہ جن مسائل پر نص بھی موجود ہے ۔۔۔اور وہ نص کسی دوسری نص سے معارض بھی نہیں ۔۔۔۔اور وہ نص محتمل بھی نہیں ۔۔۔۔بلکہ اُس نص کی مراد واضح ،صریح اور محکم ہے ۔۔۔۔تو ایسے مقامات پر مسائل کی دلیل واضح،صریح اورمحکم ہونے کی وجہ سے اپنے مفہوم پر سوفیصدی یقین اور قطعیت کا درجہ رکھتی ہے ۔۔۔لہذا ایسے مقامات پر کیوں کہ (غیر متعارض صریح واضح محکم) دلیل ہے ۔۔۔۔۔تو پھر یقینا (غیر متعارض صریح واضح محکم)دلیل کی موجودگی میں کسی کی تقلید نہیں کی جاسکتی ۔۔۔۔ یہی مقلدین حضرات کا بھی موقف ہے کہ جہاں(غیر متعارض صریح ،واضح اور محکم) دلیل ہو پھر کسی کی تقلید نہیں ۔۔۔۔یعنی ایسے صریح مقامات پر نہ تو اجتھاد جائز ہے اور نہ کسی کی تقلید درست ہے ۔
اس ساری وضاحت کو مثال کے ساتھ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ مثال کے طور پر جیسے مسئلہ رفع یدین ایک اجتھادی مسئلہ ہے ...۔۔اور اس مسئلہ کے قائلین اور تارکین دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں
جیسے قائلین یہ روایت پیش فرماتے ہیں :
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه، وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع، ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ويقول " سمع الله لمن حمده". ولا يفعل ذلك في السجود.
یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اور دوسری روایت یہ ہے :
عن نافع أن ابن عمر كان إذا دخل فى الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال سمع الله لمن حمده . رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه . ورفع ذلك ابن عمر إلى نبى الله - صلى الله عليه وسلم - . رواه حماد بن سلمة عن أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبى - صلى الله عليه وسلم - . (صحیح بخاری:ـکتاب الأذان:باب رفع الیدین اذاقام من الرکعتین،حدیث نمبر739)
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے توتکبیرکہتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ،اورجب رکوع کرتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اورجب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دورکعتوں سے اٹھتے تودونوں ہاتھ اٹھاتے،اورابن عمرَرضی اللہ عنہ اپنے اس عمل کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کرتے(یعنی کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھاکرتے تھے)۔
اور تارکین رفع یدین کے پاس یہ روایات ہیں :
امام مسلم یہ روایت کرتے ہیں :
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ(صحيح مسلم، 1 : 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کی ہے، امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے، مسند ابی عوانہ میں بھی روایت کی گئی، امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت کی ہے، امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں :
قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة
ابن مسعود رضی اللہ عنہ (جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
اب سب سے پہلے(قطع نظر اس بحث کے دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کرکے کیا موقف پیش کیا ہے ...... اور فریقین نے اپنے اپنے مخالفین کے کس کس اعتراض کے کیا کیا جوابات فرمائے ہیں) تو یہاں یہ قیمتی نکتہ ذہن نشین کرنا ہے کہ نفس مسئلہ ہے کہ
''کیا امتیوں کو نماز میں رفع یدین کرنا ہے یا نہیں''
نفس مسئلہ ذہن نشین کرنے کے بعد جب ہم دونوں طرح کی روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہاں سمجھنے والی بات صرف اتنی ہے کہ دونوں طرح کی روایات میں نفس مسئلہ کی کوئی صراحت نہیں بلکہ آپس میں متعارض نظر آتیں ہیں ۔
یعنی دونوں طرح کی روایات میں یہ صراحت نہیں کہ آخری حکم کے مطابق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امتیوں کے لئے رفع یدین متعین ہوا ہے یا ترک رفع یدین متعین ہوا ہے ۔
لہذا جب کہنفس مسئلہ پر جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی تعین نہیں۔
بلکہ دونوں فریقین کے مجتہدین حضرات نے اپنے اپنے اجتہاد سے رفع یدین کرنے کی یا ترک رفع یدین کی رائے پیش فرمائی
تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں فریقین کے عامی حضرات اپنے اپنے مجتھد کی رائے پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔نا کہ دلیل پر ؟؟؟
کیوں کہ نفس مسئلہ پر تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح دلیل موجود نہیں ۔
کیوں کہ نفس مسئلہ پر تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح دلیل موجود نہیں ۔
یوں عامی کا اپنی مجتھد کی رائے پر عمل کرنا بنا دلیل ہی ہوگا ۔
اور غیر مقلدین سمجھتے ہیں کہ مجتھد نے جس نص سے مسئلہ اخذ کیا۔۔۔۔۔وہ نص ''نفس مسئلہ'' کی دلیل ہے ۔
لہذا جب دلیل نظر آگئی تو مسئلہ تقلید سے خارج ہوگیا ؟؟؟
کیوں کہ تقلید بنا دلیل کے ہوتی ہے ؟؟؟
جبکہ غیر مقلدین حضرات یہ نہیں سمجھتے کہ:لہذا جب دلیل نظر آگئی تو مسئلہ تقلید سے خارج ہوگیا ؟؟؟
کیوں کہ تقلید بنا دلیل کے ہوتی ہے ؟؟؟
مجتھد کا نص سے مسئلہ اخذ کرنا اور بات ہے ......اور نص کا ''نفس مسئلہ'' پر دلیل ہونا اور بات ہے.۔
دلیل کتاب اللہ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غیر متعارض ،صریح ، واضح اورمحکم نص ہے۔
کسی مجتھد کی طرف سے نص سے اخذ کی گئی رائے کا نام دلیل نہیں
یعنی جب کوئی مجتھد کسی غیر منصوص مسئلہ پر کسی نص سے اپنی رائے اخذ کرتا ہے تو یہاں تو "غیر منصوص" سے خود واضح ہے کہ مسئلہ پر نص موجود نہیں ..دلیل کتاب اللہ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غیر متعارض ،صریح ، واضح اورمحکم نص ہے۔
کسی مجتھد کی طرف سے نص سے اخذ کی گئی رائے کا نام دلیل نہیں
اور جب مجتھد کسی ایسے مسئلہ پر نظر ڈالتا ہے کہ جس پر محتمل نص(جس کے دو یا دو سے زائد معنی نکلتے ہوں) ہو..... تو بھی ایسی نص کئی معنی کا احتمال رکھنے کی وجہ سے نفس مسئلہ پر صریح دلیل نہیں ہوتی.
لہذا جب مجتھد ایسے کسی مسئلہ کے جواب کے لئے غور و حوض کے بعد مختلف معنوں میں سے کسی ایک معنی کا انتخاب کرکے کسی مسئلہ کا جواب دیتا ہے تو اس جواب پربھی عمل کرنا نص کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ مجتھد کی رائے کی پیروی ہوتی ہے۔
کیوں کہ قرآن و حدیث کی نصوص کی پیروی کے لئے نصوص کی مراد کا خود اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حتمی طور پر متعین ہونا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یعنی جن نصوص کی مراد بالکل واضح ، صریح ، محکم اور غیر متعارض ہوگی وہ یقینی اور قطعی طور پر اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی منشاء ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے انحراف کرنا سوفیصدی بغاوت اور نافرمانی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب قرآن و حدیث کی نصوص کی مراد کسی بھی وجہ سے واضح صریح محکم طور پر متعین نہیں تو اس کے بعد کسی بھی صاحب علم کا اپنے وسیع علم کی بنیاد پر غور حوض فرما کرکسی معنی یا مفہوم کو متعین کرنا اُس صاحب علم کا گمان ہوتا ہے کہ ممکن ہے اس نص سے اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مراد و منشاء یہی ہو ۔۔۔۔ تو ایسی نصوص پر مجتھد کی رائے پر عمل کرنا کس طرح قرآن و حدیث کی نافرمانی کہلاسکتی ہے ؟؟؟
لہذا عامی کا مجتھد کے بتائے ہوئے کسی ایسے مسئلہ پر عمل کرنا نص کی پیروی نہیں بلکہ مجتھد کی اُس رائے کی پیروی ہے جو مجتھد نے نص سے اخذ کی ہے......لہذا یہ بھی بنادلیل تقلید کرنا ٹھرا.
اس کے بعد جو نصوص متعارض ہیں(جس کی مثال ہم اوپر واضح کرچکے ہیں) اُن پر بھی عامی مجتھد کی رائے پر عمل کرتا ہے ......دلیل کی نہیں.
البتہ جو نصوص غیر متعارض اور اپنی معنوں میں محکم اور صریح ہیں ان نصوص کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ ایسی نصوص غیرمتعارض اور صریح محکم ہونے کی وجہ سے مسئلہ پر دلیل ہوتی ہیں....اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مقلدین حضرات خود بھی تقلید کے قائل نہیں(جیسا کہ ہم ماقبل بھی بیان کرچکے ہیں )
لہذا اس تفصیل کے بعد باآسانی واضح ہوجاتا ہے کہ تقلید بنا دلیل کے نہیں ہوتی بلکہ بنا دلیل والے قول کی ہوتی ہے .... (باالفاظ دیگر وہ قول جو شرعی حجتوں میں سے نہ ہو ....یعنی مجتھد کا قول نہ تو قرآن کی آیت ہے نہ حدیث ہے نہ اجماعی مقولہ ہے)
حضرات فقھائے کرام کا "تقلید" کی اصطلاحی تعریف میں "بنادلیل" سے مراد لوگوں کو یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ مجتھد کی رائے نصوص(دلیل شرعی)سے اخذ کی ہوئی ضرور ہوگی ..... لیکن مجتھد کی رائے نص (دلیل شرعی) نہیں بن جائے گی ......بلکہ مجتھد کی رائے کی بنا حجت (دلیل)شرعی ہوگی .....یعنی مجتھد کی رائے کو حجت شرعی (قرآن و حدیث و اجماع) کی حیثیت و مقام حاصل نہیں.....یہی بات نہ سمجھنے کے سبب غیر مقلدین کو مغالطہ ہوتا ہے کہ مقلدین بغیر دلیل کے مجتھد کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟.
اس ساری تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے مقلدین کے بہت سے اشکالات و اعتراضات کی باآسانی وضاحت ہوسکتی ہے.
(واللہ و اعلم بالصواب )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے .آمین
ضروری گذارش :تمام بھائیوں دوستوں اور خصوصا اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کسی بھی کمی کوتاہی نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔...نیز اگر کسی بھائی یا دوست کو اس وضاحت میں کوئی اشکال یا اعتراض نظر آتا ہے تو اس کی بھی نشادہی کی درخواست ہے .جزاک اللہ
From: Imran Rana <reehabimran@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, April 21, 2012 4:02 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
MASHALLAH shams bahye apa ke jawabat bhut tasalli baksh hien aur aap un se mukhatib hien jin ko yeh kam zieb nahi deta kiuoon ke apa in ko bahn bhan bana kr thakte nahi woh bhan bhan nahi woh asal me larka he kiuoon ke apni life me aru duniya me essy orat nahi dkehe jo is terha ka bahas kare. aru itna time nikale. 34 saal ak me hoon aru 1999 se internet se munsaliq hoon aru kareeban 100 forums hien jahan in touch hoon in se .bhut se ahlehadeeson ko yahoo groups me pakra he aru baned kiya he . ALLAh bahtar janta he . magar aqal bari neimat he .khier in jinab ne mujh par directly kafir ka fatwa woh bhi hazrat Nooh AS ke bete se tashbhi di he . in se toba nama shaya karaein aur kal ko aap par fatwa nazil ho ga..Note" ahlehadees chorne ke waja yahe he ke ache bhale nimazi ko nimaz se hatana ahlehadees sirf muslaman baki kafir.orton mardon ke nimaz me koye farq nahi masjid me bi orat jaye bache jaye bhar me miyan jaye bahr me par jao masid me ibadat karo koye farq nahi .etc.. ALLAh ne hadayet de aur 1888 ke bane howe angrezon ke baney howi jamat se mahfooz rakah ..
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, April 21, 2012 12:49 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
محترم بھائی شمس ! میں نے اپکو بارہا کتاب اللہ کی آیت پیش کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ غیر مشروط اطاعت صرف اللہ کی اور اسکے رسول کی ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اپ کیس مقصد خاص سے یہ سوال بار ہا پوچھ رہے ہیں۔۔۔ اگر آپ اللہ کی کتاب سے مطمعن نہیں ہیں تو پھر کس سے مطمعن ہونگےمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا آپ کے نذدیگ اللہ اور رسول کی اطاعت کے علاوہ بھی کسی کی غیر مشروط اطاعت فرض و لازم ہے اگر ایسا ہے تو ثبوت پیش فرمائیں۔
دوسرے آپ نے فرمایا کہ "" بقول آپ کے " جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے "" تو میرے محترم بھائی یہ میرے بقول نہیں بلکہ اللہ کے رسول کا قول امام ترمذی نے پیش کیا ہے جیسا کہ منسلک صفحہ از جامع ترمذی میں موجود ہے۔۔ اپ اللہ کے رسول کے قول کو میرا قول نہ بنائیں۔۔۔۔
آپ کی باقی تحریر میرے لئے نہیں بلکہ جناب کے اپنے لئے ہے۔۔ الحمدولاللہ میں یا کوئی بھی عامل بالحدیث کسی صحابی رسول کی توہین کرنا اتو کچا اسکا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہاں اپ ایک بہت بڑی غلطی جان بوجھ کر کررہے ہیں اور وہ یہ کہ کسی صحابی کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنے پر اپ اسکو گستاخی قرار دے رہے ہیں جبکہ مین حضرت اللہ کی کتاب، سے اور خود حضرت ابو بکر کے قول سے یہ بارہا بتا چکی ہوں کہ معروف میں اطاعت ہے منکر میں اطاعت نہیں، اب اسکا آپ اگر یہ مطلب نکال لیں کہ میں کسیی صحابی کی توہین کر رہی ہوں تو یہ آپکی سمجھ اور آپکا ظرف ہے نہ کہ میرا قصور۔
جہاں تک صحابہ کی توہین کا تعلق ہے تو میں جنب کے مذہب کی کتابون کے حوالاجات تحریر کر سکتی ہیں جہاں قول مجتحد کو قول رسول کہا گیا کیا یہ مجتحد کو رسول بنانا نہیں اور کیا یہ توہین نہیں ہے۔ جناب کے مذہب میں کئی صحابہ کرام کو غیر فقہی کہا گیا، کیا یہ توہین و گستاخی نہین ہے ۔ بھائی شمس صاحب اپنے گھر کی خبر لیں پھر کیس پر بہتان لگائیں۔
الحمدولااللہ کوئی عامل بالحدیث کسی صحابی کی گستاخی یا اتوہین کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جنہوں نے تا وفات موجودہ رکوع کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تطبیق کو ہی اختیار رکھا، پر عمل نہیں کرتا ، یہاں تک کہ جناب بھی نہیں کرتے تو کیا حضرت عبداللہ بن عمر کے اس فعل پر عمل نہ کرنا انکی گستاخی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔??????
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Thu, 19 Apr 2012 18:47:01 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)میرے پیاری بہن مسرت آپ کی یہ تحریر نقل کر رہا ہو۔"بھائی عمران۔۔ یہ اپ کا خیال ہے حقیقت نہیں ، حقیقت اسکے برعکس ہے اپنے اس خیال کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا بس جو دل میں ایا خیال ظاہر کردیا۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔۔ بات ثبوت کے ساتھ کرین پھر بات بنتی ہے ہوا میں بات کرنا تو نہایت آسان ہے "مینے آپ سے یہ سوال کیا کے کونسی ایسی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول نے وصرف اپنی ہی اطاعت کا حکم دیا جس کا ثبوت آپ نے اب تک فراہم نہیں کیا۔ ثبوت دینے کے بجائے آپ اپنا ہی خیال ظاہر کر دیتی ہیں۔ بقول آپ کے " جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے "تو آپ گواہی دینے کے لیے اللہ کے نبی کا کوئی فرمان پیش کیوں نہیں کرتیں؟ کم سے کم دو چار کتابوں کا تو حوالہ پیش کریں جس میں اللہ کے نبی نے یہ واضح کیا ہو کہ صرف اور صرف میری اطاعت کرنے والا یا صرف میرے راستے پر چلنے والا، یا تمام انسانوں کا ایمان میرے کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ایک تحریر لال رنگ میں تھی جس کا جواب مینے اوپر دے دیااب ذرا تیچے والی تحریر پر نگاہ دوڑائی جائے تو بہتر رہے گا۔" میں نے ہر بات کا شافی جواب دیا اور یہ بھی ثابت کی کہ بھائی شمس کسی بھی مسئلہ پر کوئی جواب دئے بغیر اگلا مسئلہ شروع کر دیتے ہیں یہ میری تحریرون مین ثابت ہے اپ پڑھ لیں۔۔۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے ، اپ مرضی کے مالک ہیں جو چاہین کریں میرا فرض تھا نشاندہی وہ میں نھے کردی "ایک سچے موئمن کے لیے اللہ کی اطاعت کا رستہ قرآن کریم، اللہ کے نبی (صلی) کی سیرت مبارک، صحابہ (رضی اللہ عنھم) کی تعلیم اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جو انسان قرآن کریم کو نظر انداز کرنے کے بعد اللہ کے نبی کی زندگی کا اطاعت کا راستہ سمجھتا ہے کیا اس کے بارے میں کوئي بشارت دی جا سکتی ہے۔مشرکین عرب، یہودیوں اور نصرانیوں کی کوشش ہمیشہ یہی رہتی ہے کہ اللہ کی کتاب اور نبی پاک کو تنقین کا نشانہ بنایا جائے جس کی مثالییں موجود ہیں تو کیا ہم سے کبھی کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ٹھیک اسی طرح حوارج جو تھے تو مسلمان لیکن ان کا کام یہ تھا کہ وہ صحابہ اکرام کی زندگیوں میں عیب جوئی کیا کرتے تھے۔مسلمانوں کا ایک نام نہاد طبقہ بھی ان کے بہکاوے میں آکر صحابہ اکرام کو لعن طعن کا نشانا بنا رہا ہے اور کھلم کھلا حدیثوں کا انکار کر رہا ہے۔ اب میں اپنی بات کو ثبوت کے ذریعہ پیش کر رہا ہوں۔"تفرقت اليهود على واحد و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه وتفرقت النصارى على اثنين و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه وستتفرق امتى على ثلاثة و سبعون فرقه كلها فى النار وواحدة فى الجنه.....قالوا من هؤلاء يارسول الله؟.....قال : الذين هم على ما انا عليه انا واصحابى"یہودیوں کے 71 فرقے ہوئے سب جہنم میں لیکن ایک جنت میں جائے گا ، نصرانیوں کے 72 فرقیں ہوئے سب جہنم میں لیکن ایک جنت میں جائے گا اور عنقریب میرے امت میں 73 فرقے ہونگیں سب جہنم میں جائیں گے لیکن ایک جنت میں، تو صحابہ نے پوچھا یہ کن لوگ ہونگیں (یعنی جو جنم میں جائیں گے) اللہ کے نبی نے جواب دیا وہ لوگ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔اب اگر کوئی صحابیوں میں عیب نکالنا شروع کردے تو اس کی ہدایت کے لیے کون آئے گا۔ دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں یا قرآن کریم میں کہیں بھی ایسا ذکر نہیں ملتا کہ کوئی صحابی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کوئی کام کریگا۔ لیکن کچھ اہمق اور جاہل لوگ قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کے فیصلوں میں کمیاں نکالا کرتے ہیں۔آئیں کچھ اور حدیثوں کا مطاعلہ کرتے ہيں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشادنقل فرماتے ہیں:أکرموا أصحابي فإنہم خیارکم۔"میرے صحابہ کا اعزاز کرووہ تم سے بہتر ہیں"۔۔ لا تسبوا أصحابي فإن أحدکم لو أنفق مثل أحد ذھباً ما بلغ مد أحدھم ولا نصیفہ۔" میرےصحابہ کو برا بھلا مت کہو کیونکہ تم میں سے کوئی بھی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد (تقریبا آٹھ سو گرام) بلکہ آدھے مد کو نہیں پہنچ سکتا"۔۔مذکورہ بالا تینوں احادیث شریفہ میں صحابہ کو برا بھلا کہنے اور ان کو ہدفِ طعن بنانے اور ان پر تنقید وتنقیص کو منع کیا گیا بلکہ ان کے افضلِ امت ہونے کی وجہ سے اکرام واعزاز کا حکم دیاگیا تاکہ امت کے قلب میں ان کی جانب سے بدظنی وبدگمانی نہ پیدا ہو، اور تبلیغِ دین کے سلسلہ میں لوگوں کا اعتماد متزلزل نہ ہو جائے۔نبی اکرم کے فیض کو پوری امت تک پہنچانے میں حضرات صحابہ کی حیثیت خشت اوّل کی ہے، وہ نبی اکرم اور بقیہ امت کے درمیان انتہائی قوی ومضبوط اور قابل اعتماد واسطہ ہیں، خدا نخواستہ اگر عمارت کی خشت اوّل ہی غلط ہو جائے تو "تا ثر یا می رود دیوار کج"(آسمان تک دیوار ٹیڑھی جائے گی)کی مثل صادق آئے گیاب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں صرف اللہ کے نبی کی ہی اطباع کرونگا یا کرونگی تو بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا اللہ کو پہچانے کے لیے کوئی نبی کا انکار کر سکتا ہے۔؟جس طرح اللہ کو پہچانے کے لیے نبی پاک کی تعظیم لازمی ہے اسی طرح سے صحابہ اکرام کو نظر انداز نہین کیا جا سکتا۔ جبکہ قرآن کریم میں صحابہ کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے اور خود نبی پاک نے صحابہ کی زندگی کو نجات کا راستہ بتایا ہے۔اب اگر دین کو سیکھنے کے لیے کوئی صحابہ رسول کا حوالہ دیتا ہے یا جس نے خود اصحابہ رسول کی زندگی کا بغور مشاہدہ کیا ہو تو اس کی بات کیون نہ مانی جائے۔اور وہ درجہ طابعین سے زیادہ کسے دیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایاخير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمتو یہ لوگ کھلم کھلا قرآن کریم کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور حداثوں کا بھی انکار۔ آخر کون سی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے یہ قرآن کریم اور حدیثوں پر عمل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ ائمہ عربہ کو کیوں اپنی نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔ہمارے ایک مخلص ساتھی نے ہمیں بتایا کہ امام ابوحنیفہ تو اتباع کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کی مذہب میں دودھ پلانے کی مدت ڈھائی سال ہے اور کلام الاہی میں دودھ پلانے کی مدت صرف 2 سال ہے تو ان کی اتباع کیسے کی جا سکتی ہیں۔تو ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے پورا کلام پاک پڑھا ہے بولے ہاں۔ تو ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کلام الہی میں "وحمله وفصاله ثلاثون شهرا" کی کوئی آیت دکھائی نہیں دی بولے قرآن سمجھ کر نہیں پڑھا ہے اور جواب دیا عربی نہیں آتی۔ تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ڈھائی سال کی مدت کی خبر کہاں سے ملی بولے اپنے بڑوں سے سنا ہے۔ہم نے انہیں جواب دیا کہ کسی عام انسان پر بھی کوئی بات کہنے سے پہلے سوچ لیا کرو جس کا تمہیں کوئی علم نہ ہو۔ جو لوگ کسی پر اس طرح الزام لگاتے ہیں یا غلط گمان کرتے ہیں اللہ تعالی نے ان کے بارے میں صاف قرآن کریم میں فرما دیا"يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ولا تجسسوا ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه واتقوا الله إن الله تواب رحيم"
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>
Sent: Thursday, 19 April 2012 1:19 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
بھائی عمران۔۔ یہ اپ کا خیال ہے حقیقت نہیں ، حقیقت اسکے برعکس ہے اپنے اس خیال کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا بس جو دل میں ایا خیال ظاہر کردیا۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے، جھوٹے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔۔ بات ثبوت کے ساتھ کرین پھر بات بنتی ہے ہوا میں بات کرنا تو نہایت آسان ہے
میں نے ہر بات کا شافی جواب دیا اور یہ بھی ثابت کی کہ بھائی شمس کسی بھی مسئلہ پر کوئی جواب دئے بغیر اگلا مسئلہ شروع کر دیتے ہیں یہ میری تحریرون مین ثابت ہے اپ پڑھ لیں۔۔۔ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے ، اپ مرضی کے مالک ہیں جو چاہین کریں میرا فرض تھا نشاندہی وہ میں نھے کردی/
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com
From: reehabimran@yahoo.com
Date: Sun, 15 Apr 2012 02:18:22 -0700
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)JAZAKALLAh shams bahye. aur aap bhi yaheen hein me bhi yaheen hoon aap ko jawab nahi mile ge. agar mille ga to wohi sawal gandum jawab channa ke musadiq ho ga. shayed ke utar jay aap ke baat in ke dil me. shayed.........
From: john_shams <john_shams22@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Saturday, April 14, 2012 6:10 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
میری پیاری بہن اسلام علیکم و رحمت اللہ،آپ کے اندر ایک بہت بڑی کمی ہے جسے آپ مانے یہ نہ مانے یہ آپ کی مرضی ہے۔اطاعت کے بارے میں مینے آپ سے 5 بار یہ سوال کیا کہ اللہ کے نبی نے صرف اور صرف اپنی اطاعت کو ہی واجب اور فرض قرار دیا ہے یا نہیں، اگر ہاں تو اسے دلیل سے ثابت کریں جس کا جواب آپ نے اب تک نہیں دیا۔ آپ کسی دوسرے کے سوالوں کے جواب نہ دے تو کوئی بات نہیں، دوسروں کی تحریروں کو پورا پڑھے بغیر اپنے طور پر کوئی مطلب نکالیں تو صحیح۔ دوسروں پر لعن طعن کرنا چھوڑیں۔رہا آپ کا سوال شخصی تقلید کا تو سوال یہ نہیں کہ تقلید کس کی کی جائے اور کس کی نہ کی جائے، یا تقلید ہی نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کلام اللہ، احادیث اور دین کو سمجھنے کے لیے کس کی بات مانی جانیں۔اس کا جواب ہے؛ بات اس کی مانی جائے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو، متقی و پرہیز گار ہو، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہو، اپنی زندگی میں اللہ کے نبی کے طریقہ کو شامل کرتا ہو، امین و صادق ہو، علمی اور روحانی صلاحیت رکھتا ہو، اور جس نے اللہ کی نبی کی زندگی کا بغور جائزہ لیا ہو۔ یہی سوال اس بات کا ہے کہ آپ کا مطالعہ کتنا، آپ نے اس شخص کے بارے میں اس کی تعلیم کے بارے میں کہاں تک معلومات حاصل کی ہے۔ اگر آپ نے یہ حدیث پڑھی ہوتی تو شاید یہ سوال آپ کھی نہ کرتی۔خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمشرح آپ نیچے پڑھ سکتی ہیں۔{ خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم } هذا من حيث الطبقة العامة لا من حيث كل فرد بذاته، ولا شك أن أفراد الصحابة جيل متميز لن يبلغ مثله أحد، أي: الطبقة العامة من الصحابة رضوان الله تعالى عليهم فهم أفضل الأمة جميعها، والطبقة التي تليهم وهم التابعون هم أفضل وخير من الطبقة التي بعدهم من هذه الأمة، ولكنك تجد أن في التابعين من هو خير وأكثر إيماناً ممن له مجرد صحبة، لأن الصحابة رضوان الله تعالى عليهم كما دل عليه حديث: {لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه } يدل على أن الصحابة كانوا طبقتين أيضاً، لأن المخاطب كان من الصحابة، وممن لهم صحبة، فالصحابة بمعنى أخص وهم السابقون الأولون من المهاجرين والأنصار هؤلاء درجة، ومن أسلم وجاهد من بعد الفتح أيضاً درجة.فنقول: إن بعض أفراد التابعين، أي: كبار التابعين المجاهدين هم خير من آخر الطبقة الثانية، وهذا لا شك فيه، كما أن أفراداً من جيل تابعي التابعين من هو خير من أفراد التابعين... وهكذا، فهذا كطبقات.أما الأمة في مجموعها فإن الخير فيها إلى قيام الساعة، وإذا كانت الطائفة المنصورة كما أخبر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تزال ظاهرة على الحق إلى قيام الساعة، فإنها قد تأتي مرحلة من المراحل فيها من الاستضعاف ومن الشر والظلم والكفر وما يكون عمل الواحد كخمسين، كما أخبر بذلك النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الحديث الآخر، فيكون حالها أعظم ممن كان في الأجيال أو القرون الثلاثة؛ بسبب ما حف به من المحن والبلاء وقلة المعين والنصير، لا أن هؤلاء في ذواتهم أو كأفراد فيهم من هو أفضل، لكن أيضاً بحسب الأحوال، فالخير في هذه الأمة باقٍ إلى قيام الساعة، والطائفة المنصورة لا تزال قائمة، وإن ضعفت في بلد فهي قوية في بلد آخر، فمن هنا ينبغي أن نعتقد أمرين:أولاً: أن نعتقد أفضلية الثلاثة القرون الأولى على غيرها.ثانياً: أن نعتقد أن هذه الأمة أمة مباركة خيرة، وأن الخير لا ينقطع فيها، وأن علينا أن نجاهد لكي نكون إن شاء الله ممن ينال شرف صحبة هؤلاء الكرام في الجنة، فيلحق بهم وإن لم يكن منهم، وإن لم يدركهم.اب رہا سوال اللہ کے رسول اور ان کی اطاعت کا کہ اختالافت کی صورت میں اس معاملہ کے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے گا، بات ٹھیک ہے۔قرآن کریم یا احادیث سے کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس انسان میں صلاحیت بھی ہونی چاہیے کیونکہ صرف قول کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ہمارے علاقہ میں اہل حدیث کا ایک گروپ موطا کو جائز ٹھہرانے کے بارے میں بضد ہے اور سے صحیح مسلم سے ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کا پٹارا کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ اہل حدیث کا یہ گروپ عام لوگوں کو یہ کہ کر حدیث سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ کے نبی کی نافرمانی اللہ کی نا فرمانی ہے۔ اس لیے اس حدیث کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا کونسا فرد اپنی ماں،بہن یا بیٹی کو موطا کے لیے تیار کریگا۔ جو حدیثوں کا انکار کرتا ہے اس پر انہونے منکر حدیث کا فتوی لگا رکھا ہے۔ تو میری مخلص بہن اس مسئلہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کیسے لوٹائیں گیں ذرا واضح کر دیں۔اگر آپ ان دونوں سوالوں کا جواب دیں سکیں جنہیں ہیں مینے پیلے رنگ سے ہائلائٹ کیا ہے تو ٹھیک ہے ورنا اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ کیونکہ اہل حدیث صاحبان صحیح بخاری کی وہ حدیث لوگوں کو دکھا کر حضرت عمر کے بارے میں وسوے پیدا کر رہے ہیں جو اللہ کے نبی کے آخری وقت وسال سے پہلے میں پیش آئی اور لوگوں سے کہ رہے ہیں کہ جو صحابی اللہ کے نبی کی بات کا انکار کرے کیا اس کی کوئی بات مانی جا سکتی ہے۔اپنی بات پھر یہاں دہراتا ہو اگر سوالوں کے جواب دیں سکیں تو ٹیک ہے ورنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آللہ مجھے ہدایت دے۔ آمین
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; "goooogle@ yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@ googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Saturday, 14 April 2012 3:56 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
بہت ہی محترم بھائی شمس ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو صحت اور شفاء عطا فرامائے۔ آمین
صحابہ کرام کے بارے میں اپکی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں، خوارج کے بارے میں جناب کی تحریر سے کوئی اختلاف نہیں اگر یہ اشارہ کسی مومن کی طرف نہ ہو تو۔
جہان تک جناب کی تحریر اولواالامر سے متعلق ہے تو عرض ہے کہ جناب کی میل میں اولواالامر کی اطاعت میں یہ شبہ پیدا کیا گیا ہے ""اس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔ "" اس بارے میں کچھ تفصیل جو اسطرح ہے جو شاید جناب کی نظر میں نہ آئی ہو تفاسیر میں۔ کہ " اس آیت کے بعد والے ٹکڑے میں اختلاف کے وقت صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اولواالامر کی اطاعت عارضی ہے۔ یہ اطاعت عام اور سیاسی امور میں ہے۔نیز اللہ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط ہے جبکہ اُولواالامر کی اطاعت مشروط ہے جیسا کہ مشہور حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس اس آیت کے متعلق فرمایا ہے کہ (ترجمہ) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ میں امیر بنا کر بھیجا تھا (بخاری 4584 ۔ اس مشہور واقع کی تفصیل صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبداللہ بن حذافہ السہمی الرقم 4340 پر موجود ہے جسکے مطابق معصیت میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ چاہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کیا ہوا اُولواامر ہی کیوں نہ ہو اسکی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے نہ کہ منکر میں ۔
یہی بات صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (مسلمانوں کے امیر کا) حکم سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ حکم پسند نہ آئے جب تک کہ وہ تمہیں کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جو وہ گناہ کا حکم دے تو ایسی صورت میں اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔۔بخاری و مسلم۔یہ ہے اولواالامر کے حکم کی حقیقت۔۔
محترم بھائی اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اولواالمر کی اطاعت صرف معروف کاموب میں ہے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے گا تو پھر کوئی سمع وطاعت جائز نہیں ہے پھر اولواالامر کی ہی نہیں بلکہ اولواالمر کے باپ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس حقیقت کو مزید تقویت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پاک سے ملتی ہے جو النساء:65 میں ہے کہ (ترجمہ) پس آپ کے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کر لیں۔۔ اس معنی کی مزید آیات بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔۔
میرے محترم بھائی ! اگر یہ آیت اپنے طلب پر جو آپ نے اپنی رائے سے بیان فرمایا ہے پر پورئ اترتی ہوتی تو شیخ الحدیث و شیخ الھند مولانا محمود الحسن صاحب کو اپنی کتاب ادلہ کاملہ میں اس آیت میں تحریر کرکے اپنے مطلب پر لانے کی کوشش کرنے کئی ضرورت ہی نہ پڑتی۔یہ آیت آپ کے بیان کئے گئے مطلب پر پوری اترتی تو کیوں وہ اس میں اضافہ کرکے مقصد براری فرماتے۔۔۔۔? انہون نے اس آیت میں اضافہ کرکے آپ کے مطلب پر لانے کی کوشش کی لیکن اللہ بھلا کرے علماء حق کا کہ فورا" تاقب کیا اور عوام کے سامنے حقیقت کھول کر بیان فرمادی۔ اور انشاءاللہ تا قائم قیامت یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہیگا۔
اسکے علاوہ میں نے بار ہا اس بات پر ذور دیا ہے کہ اصل مسئلہ تقلید شخصی کا ہے جسپر جناب نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب آپ خود ہی فرمائیں کہ یہ کیا انداز گفتگو ہے۔ سوال کچھ اور جواب کچھ۔۔
جناب کے آخری پراگافون کے بارے میں جہاں متعہ کا ذکر ہے تو یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ غلط کرتے ہیں، لیکن کسی ایک غلط فرقے کی بات کو دوسرے لوگون پر فٹ نہیں کیا جاسکتا، اسکے علاوہ یہ بھی تو جناب نے ہی ثابت کرنا ہے کہ کون اپنی رائے سے قرآن کو سمجھتا ہے اور کو ن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو کُتب احادیث میں موجود ہیں جیسا کہ میں نے اولواالامر والی آیت میں ثابت کیا کہے کہ احادیث صحیحیہ کی روشنی میں جو مطلب اہل حدیث کا ہے وہ درست ہے اور جو مطلب جناب نے اختیار کیا ہے ہو درست نہین۔
میرے محترم بھائی تقلید شخصی پر بات کو آگے بڑھائیں۔۔
بھائی شمس میں نے اپنی میل میں سنت کی تعریف و اقسام تحریر کی تھیں اور جناب سے حدیث کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ جناب نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار فرمائی ہے جبکہ مسئلہ بھی جناب نے ہی چھیرا ہے کہ سنت و حدیث میں فرق ہے۔۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ جناب اس موضوع کو بھی مکمل فرمائیں۔
مزید برآں یہ کہ میں نے جناب کو ایک میل میں توحید و شرک کے بارے مین آیات و احادیث پیش کی تھیں تا دم تحریر جناب کی طرف سے اس بارے مین بھی مکمل خاموشی ہے۔ درخواست ہے کہ یا تو میرے دلائل کو قبول فرما کر میری حوصلہ افضائی فرمائیں اور شاباش دیں یا پھر با مقصد جوابی دلائل ارسال فرمائیں۔ شکریہ
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Sat, 14 Apr 2012 16:02:21 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)میری پیارے بہن مسرت جہاں وعلیکم اسلام و رحمت اللہ و برکاتہ،ایک بار پھر سے آپ کے رو برو پیش ہونے کا موقع ملا۔ جواب نہ دینے کی شکایت آپ کی معقول اور قابل قبول ہے۔ دراصل کچھ دنوں سے لگاتار راتوں کو جاگنے کی وجہ سے میرے طبیت کچھ زیادہ خراب ہو گئی ہے۔جہاں تک تقلید کا تعلق ہے اس سے پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ یہ فرمایا ہے کہ ہماری نشانیوں پر غور و فکر کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا ہے وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ کلام الاہی کو آکھیں بند کر نے کے لیے تو اللہ تعالی نے بھی نہیں کہا اور اسی لیے اللہ نے اپنے نبی کو سب سے بہترین شارح بناکر بھیجا جس کے بعد یہ علم صحابہ اکرام کے ذریعہ آگے آنے والی نسلوں کو منتقل ہونے کے لیے محفوظ ہو گيا۔اب میں یہاں آپ کے سامنے بہت تھوڑی سی بات خوارج کی بھی پیش کر دوں تو زيادہ اچھا ہوگا۔خوارج ایک ایسا گروہ تھا جو رسول اللہ کی وفات کے بعد پیدا ہوا جس نے حضرت ابوکر اور عمر (رضی اللہ عنھما) کو تو صحیح خلیفہ تسلیم کیا لیکن حضرت عمر اور علی (رضی اللہ عنھما) کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے حساب سے وہ لوگ قرآن کریم پر صحیح طرح سے عمل نہیں کرتے تھے اور اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کلام الہی کی آیات کو پیش کیا کرتے تھے۔ حضرت علی کو قتل کرنے کی بہت سی سازشیں ان کی طرف سے شروع بھی ہوئی کچھ کو ناکام بھی کیا گیا لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ لوگ صحابہ اکرام پر تہمتیں لگایا کرتے تھے اور کلام الاہی کو اپنے ہی انداز میں سمجھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ان کی ایک خاصیت اور بھی تھی کہ یہ لوگ کلام اللہ اور احادیث کے لفظی معنوں پر ہی انحصار کیا کرتے تھے۔ خود حضرت علی کے زمانے میں بھی ان لوگوں نے ان کے فیصلوں کو کلام اللہ سے متضاد قرار دیا۔ ان کی ایک نئی شاخ "الاباضية" کے نام سے بھی مشہور ہے جو بعد میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ صحابہ اکرام سے اس لیے بغض اور عداوت رکھتے ہیں کیونکہ ان ان کے نزدیک اطاعت صرف اللہ کی اور اللہ کے نبی کی ہی واجب ہے حالانکہ قرآن کریم کی واضح آیتيا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله ; وأطيعوا الرسول , وأولي الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء , فردوه إلى الله والرسول . إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر . ذلك خير وأحسن تأويلااس آیت میں اللہ نے بات ماننے کے لیے اپنے لیے، اپنے رسول کے لیے اور اولی الامر کے لیے ایک ہی لفظ "اطاعت" استعمال کیا ہے۔ اس کی تفسیر آپ تفسیر کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتی ہیں۔کیونہ یہ لوگ خود تقلید کے مخالف تھے کلام الاہی کو سمجھنے اور احادیثوں سے استفادہ کرنے کے لیے یہ کسی بھی انسان کے رائے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔اگر آپ اللہ کے نبی کی اس حدیث کو پڑھیں اور اس کی تفسیر سے استفادہ کریں تو یقینا آپ کو بہت فائدہ ہوگا:خير القرون قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهمآج ہمارے ملک میں ایک گروہ اور ایسا پیدا ہوا ہے جو براہ راست احادیث مبارک کی بنیاد پر تقلید کی مخالفت کر رہا ہے۔ میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ موطا کے بارے میں تو آپ جانتی ہی ہونگی۔ تمام ائمہ کے نزدیک قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسے حرام قرار دے دیا گیا ہے لیکن ایک فرقہ اسے اس لیے جائز قرار دے رہا ہے کیونکہ اس کے جائز ہونے کے ثبوت صحیح احادیثوں میں موجود ہہیں۔جائز ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا رواج اللہ کے نبی کے زمانے تک رہا اور حضرت عمر نے اس پر حکم امتنائی عائد کیا۔تو سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی کے مطابق کلام اللہ اور احادیثوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہیں یا وہ لوگ جو اللہ اور اس کے بنی سے سب سے زیادہ قریب رہے۔
From: Musarat Jehan <musarat_jehan@hotmail.com>
To: "yaadein_meri @yahoogroups.com" <yaadein_meri@yahoogroups.com>; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
Sent: Friday, 13 April 2012 10:32 PM
Subject: RE: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
محترم بھائی شمس۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبراکتہ۔۔
آپ کی اس میل کو موصول ہوئے تین یوم گزرگئے ایسا لگتا تھا کہ آپ تقلید کے مطعلق اور سنت وحدیث کے فرق کو واضح کرنے کے لئے مزید معلومات یا تحریرات سے نوازیں گے۔ لیکن اس میل میں موجود معلومات میں جناب کی طرف سے مزید کوئی اضافہ یا معلومات فراہم نہ کی گئیں۔
آج تین دن بعد جرات کررہی ہوں کہ اس میل میں مزید اضافہ و معلومات فراہم کرنے کی درخواست کروں۔ اور ساتھہ ہی اس بارے میں اپنی معلومات بھی جناب سے شیر کرتی چلوں جو اسطرح ہیں۔۔
محترم بھائی ہم تقلید شخصی کے خلاف ہیں اور اسکے لئے ہمارے پاس متعد اقوال و تحریرات از طرف علماء مقلدین کی موجود ہیں جو اسکے خلاف ہیں۔ اور پھر تقلید شخصی کا حکم تو کسی امام نے دیا ہی نہیں تو پھر یہ زبردستی کیوں۔۔۔۔?
دوسری بات یہ کہ میری معلومات کے مطابق سنت کی تعیریف و اقسام اسطرح ہیں: "" سنت کی تعریف:
سنت کا لغوی معنی طریقہ یا راستہ ہے، خواہ اچھا ہو یا برا ۔۔اسکی وضاحت کے لئے ترجمہ احادیث پیش ہے "حضرت ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا،تو جاری کرنے والے کو اپنے عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس اچھے طریقے پر چلنے ووالے دوسرے لوگون کے عمل کا ثواب بھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے کوئی برا طریقہ جاری کیا جس پر اس کے بعد عمل کیا گیا تو اس پر اپنا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ کا بھی جنہوں نے اس پر عمل کیا جبکہ برے طریقے پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔صحیح سنن ابن ماجہ،للالبانی،الضزء الاول،رقم الحدیث 172
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے میرے طریقہ پر چلنے سے گریز کیاوہ مجھ سے نہی " بخاری کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح۔
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو انہوں نے اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا '(میں نے یہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ) لوگوں کو علم ہوجائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے " بخاری، کتاب الجنائز،باب قرا ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ۔۔
سنت کی تین اقسام ہیں (2) سنتا فعلی (3) سنت تقریری
۔۔1۔۔ سنت قولی۔۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ارشاد مبارک "سنت قولی" کہلاتا ہے۔۔
۔۔2۔۔ رسول اکرم سلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کو "سنت فعلی" کہتے ہیں۔۔
۔۔3۔۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جو کام کیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی ہو یا اس پر اظہار پسندیدگی کیا ہو اسے "سنت تقریری" کہتے ہیں۔۔
جناب سےدرخواست ہے کہ مزکورہ تعریف و اقسام کے بارے مین اپے علم سے ہمیں بھی مستفید فرمائیں اور ساتھ ہی ساتھ ""حدیث "" کے بارے میں بھی علمی مولومات فراہم فرمائیں۔ میں جناب کی بے حد شکرگزار ہوںگی۔
To: Yaadein_Meri@yahoogroups.com; goooogle@yahoogroups.com; indianislahi@googlegroups.com
From: john_shams22@yahoo.com
Date: Wed, 11 Apr 2012 04:23:14 +0800
Subject: Re: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)assalamua alaikum warah matullahi wabaraktuhu,My dear brother unless we learn and got the ability to differentiate between two words, we will not be able to understand Arabic language. As far as the matter of Taqleed is concerned, there are number of people opposing and favoring and each one of them claiming to be on the right path of Allah. ALLAH KNOWS BETTERBut, here, i would like to tell you one thing that you can simply do, as it will help you to understand Taqleed in broader meaning.learn and study the difference between Sunnah and Hadees.What Mohammad (peace and blessing be upon him) said about Hadees and what he said about his Sunnah.Sunnah is foundation and basis of your Islamic activities and rituals.
From: Mohammad Usman <musman@kindasa.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>; "goooogle@yahoogroups.com" <goooogle@yahoogroups.com>; "indianislahi@googlegroups.com" <indianislahi@googlegroups.com>
Sent: Tuesday, 10 April 2012 4:22 PM
Subject: [Yaadein_Meri] Imitation (taqleed), following the evidence (daleel) (www.islamqa.com)
Imitation (taqleed), following the evidence (daleel)
How can a person not make taqleed and still at the same time follow the teachings of one of the imams hanafi, maaliki, shaafi and ahmad bin hanbal (may allah (s.w) have mercy on them all). I am asking this because after reading a summary of the biography of Bin Baaz ( may allah (s.w) have mercy on him) that he followed the school of Ahmad Bin Hanbal (may allah(s.w) have mercy on him) but didn't do taqleed. Please explain this to me because I am confused .
Praise be to Allaah.Firstly:The followers of the madhhabs are not all the same. Some of them are mujtahids within their madhhab, and some are followers (muqallids) who do not go against their madhhabs in any regard.Al-Buwayti, al-Muzani, al-Nawawi and Ibn Hajr were followers of Imam al-Shaafa'i, but they were also mujtahids in their own right and differed with their imam when they had evidence. Similarly Ibn 'Abd al-Barr was a Maaliki but he differed with Maalik if the correct view was held by someone else. The same may be said of the Hanafi imams such as Abu Yoosuf and Muhammad al-Shaybaani, and the Hanbali imams such as Ibn Qudaamah, Ibn Muflih and others.The fact that a student studied with a madhhab does not mean that he cannot go beyond it if he finds sound evidence elsewhere; the only one who stubbornly clings to a particular madhhab (regardless of the evidence) is one who lacking in religious commitment and intellect, or he is doing that because of partisan attachment to his madhhab.The advice of the leading imams is that students should acquire knowledge from where they acquired it, and they should ignore the words of their imams if they go against the hadeeth of the Prophet SAWS (peace and blessings of Allaah be upon him).Abu Haneefah said: "This is my opinion, but if there comes someone whose opinion is better than mine, then accept that." Maalik said: "I am only human, I may be right or I may be wrong, so measure my words by the Qur'aan and Sunnah." Al-Shaafa'i said: "If the hadeeth is saheeh, then ignore my words. If you see well established evidence, then this is my view." Imam Ahmad said: "Do not follow me blindly, and do not follow Maalik or al-Shaafa'i or al-Thawri blindly. Learn as we have learned." And he said, "Do not follow men blindly with regard to your religion, for they can never be safe from error."No one has the right to follow an imam blindly and never accept anything but his worlds. Rather what he must do is accept that which is in accordance with the truth, whether it is from his imam or anyone else.Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah said:No one has to blindly follow any particular man in all that he enjoins or forbids or recommends, apart from the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him). The Muslims should always refer their questions to the Muslim scholars, following this one sometimes and that one sometimes. If the follower decides to follow the view of an imam with regard to a particular matter which he thinks is better for his religious commitment or is more correct etc, that is permissible according to the majority of Muslim scholars, and neither Abu Haneefah, Maalik, al-Shaafa'i or Ahmad said that this was forbidden.Majmoo' al-Fataawa, 23/382.Shaykh Sulaymaan ibn 'Abd-Allaah (may Allaah have mercy on him) said:Rather what the believer must do, if the Book of Allaah and the Sunnah of His Messenger (peace and blessings of Allaah be upon him) have reached him and he understands them with regard to any matter, is to act in accordance with them, no matter who he may be disagreeing with. This is what our Lord and our Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) have enjoined upon us, and all the scholars are unanimously agreed on that, apart from the ignorant blind followers and the hard-hearted. Such people are not scholars.Tayseer al-'Azeez al-Hameed, p. 546Based on this, there is nothing wrong with a Muslim being a follower of a certain madhhab, but if it becomes clear to him that the truth (concerning a given matter) is different from the view of his madhhab, then he must follow the truth.And Allaah knows best.Sheikh Muhammed Salih Al-MunajjidIslam Q&A~And learn more about IslamWith Kind n Humble Regards,Mohammed UsmanJeddah-Saudi ArabiaThe Messenger of Allah (sal Allahu alaihi wa sallam) said,"When Allah wishes good for someone, He bestows upon him the understanding of the Deen." [Bukhari]
No comments:
Post a Comment