ربیع الاول کا مہینہ اسلامی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مہینے میں اللہ کے پاک پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس جہاں میں رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے۔ اور دنیا کو توحید کے نور سے پر کردیا ۔ شرک کے اندھیروں کو دور کیا اور انسانوں کو جہنم سے بچنے اور جنت کی جانب سفر کرنے کی راہ دکھلائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ذکر کرنا ایک ایمان افروز عمل ہے اور اس سے یقینا مسلمان کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے خصوصا آج کے ایسے دور میں جب کہ ہم اپنے پاک پیغمبر کی سیرت کو فراموش کرچکے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں کہ جنہوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقاریر کو محض اسی مہینے کے لئے خاص کررکھا ہے حالانکہ مسلمان کی زندگی میں ہر وقت، ہر لمحہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جھلکنی چاہیئے۔ چونکہ آج کل ہم میں یہ چیز رائج ہے کہ ہم نے ہر عبادت کو اپنی طرف سے مخصوص کررکھا ہے حالانکہ شریعت میں ا سکی کوئی تخصیص نہیں پھر محض تخصیص پر ہی سپر نہیں جو اس تخصیص کرنے کا قائل نہیں اس پر وھابی اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا فتوی لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عبادت کے لئے اپنی طرف سے وقت مخصوص کرنے کو منع فرمایا گیا ہے لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والے کو تو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جایے لیکن جو اس فرمان کی مخالفت پر سپر ہو تو اسے سب سے بڑا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا '' جمعے کی رات کو دوسری راتوں کے مقابلے میں نماز کے لئے مخصوص مت کرو نہ ہی جمعے کے دن کو عام دن کے مقابلے میں روزے رکھنے کے لئے خاص کرو۔ مگر ہاں جو کوئی روزے رکھتا ہے اور اس میں جمعہ آجائے تو الگ بات ہے'' [مسلم جلد 1 صفحہ 361] اب اس حدیث سے قاعدہ معلوم ہوا کہ کسی عبادت کے لئے خود اپنی طرف سے دن خاص کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔ دن خاص اور عبادت کی ہیئت خاص کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فیصلے(۱) مسند دارمی میں بسند صحیح روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا گذر اللہ کا ذکر کرنے والی ایک جماعت سے ہوا جس میں ایک شخص کہتا تھا سو مرتبہ {اﷲ اکبر}پڑھو تو حلقہ کے لوگ اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے کنکریوں پر سو مرتبہ وہ پڑھتے پھر وہ منادی دیتا کہ سو مرتبہ{ لا الہ الا اﷲ} پڑھو لوگ اس کے کہنے پر عمل کرتے پھر وہ منادی دیتا کہ سو مرتبہ{ سبحان اﷲ} پڑھو لوگ سو مرتبہ یہ تسبیح کنکریوں پر پڑھتے ۔ حضرت عبداللہ صنے دریافت کیا تم اس پر کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہم تکبیر، تہلیل اور تسبیح پڑھتے ہیں۔اس ہر حضرت عبداللہ نے ان کو فرمایا '' تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو (اگر تم ایسا کرو ) تو میں ضامن ہو کہ تمہارے نامہ اعمال میں نیکیوں سے کچھ ضائع نہ جائے گا۔ تعجب ہے اے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم تم بہت جلد ہلاکت میں پڑھ گئے حالانکہ تم میں صحابہ بکثرت موجود ہیں ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں رہنے والے برتن ٹوٹے ہیں۔ (آخر میں فرمایا) تم ابھی سے بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔'' [مسند دارمی صفحہ 38] اب وہ لوگ جو ہم کو کہتے ہیں کہ میلاد میں اللہ کے نبی کا ذکر ہی تو ہوتا ہے اور اس میں کیا برائی ہے؟ تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روح سے دریافت کریں کہ جو آدمی منادی دے دے کر تکبیر، تہلیل اور رتسبیح کروارہا تھا اس میں کیا برائی تھی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طرح منادی دے کر یا دلوا کر اس طرح ذکر نہیں کروایا اس لیے حضرت عبداللبن مسعود اس قدر غصے ہوئے کہ ان کو کہا '' تم پر تعجب ہے'' اور فرمایا ''او مفتتحو باب ضلالۃ'' ّ(۲) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اور عروہ بن زبیر رحہم اللہ علہیم مسجد نبوی میں گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھے تھے کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ہم نے ان سے لوگوں کی (اس مسجد میں اس طرح اجتماعی ہیئت سے )نماز( پڑھنے کے متعلق) دریافت کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا {بدعۃ} یعنی کہ یہ بدعت ہے۔ [بخاری جلد1 صفحہ 238مسلم جلد 1صفحہ 409] ّ(۳) حضرت مجاہدـؒ اور حضر ت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ایک مرتبہ ایک مسجد میں نماز کے لئے داخل ہوئے اذا ن ہوچکی تھی ، اس کے بعد ایک شخص نے تثویب (یعنی نماز کے لئے آواز دینا) شروع کردی اس پر حضرت عبداللہ بن عمر نے مجاہد ؒ سے فرمایا {اخرج بنا من عند ھذا المبتدع ولم یصل فیہ } یعنی { مجھے اس بدعتی کے پاس سے لے چل اور وہاں نماز نہیں پڑھی} [ترمذی جلد1 صفحہ 28، اسی روایت کو ابوداؤد نے اختلاف لفظی کے ساتھ جلد1 صفحہ 79پر نقل کیا]اب اہل بدعت یہ بتلایے کہ نماز کے لیے تثویب بظاہر اچھا کام ہے یا برا؟ دیکھنے میں یہ کام بڑا اچھا لگتا ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرث نے جب یہ دیکھا کہ اس مسجد میں کوئی آدمی بدعت کررہا ہے تو اس مسجد میں نماز پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ پس معلوم ہوا کہ کوئی ایسا کام کرنا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا بدعت ہے اور صحابہؓ نے بھی اس بدعت کو کبھی برداشت نہ کیا لہذا صحابہؓ کی زندگی بھی سنت اور بدعت کا معیار ہے۔ (۴) چونکہ مضمون طویل ہوتاجارہا ہے اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عباس ثسے آخری اثر نقل کرکے مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے طاؤسؒ تابعی کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انکو منع فرمایا اس پر حضرت طاؤسؒ نے عصر کے بعد نوافل کی نہی والی روایت میں تاویل پیش کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سخت لہجے میں ان سے فرمایا ''میں نہیں جانتا کہ اس نماز پر تجھے سزا ملی گی یا اجر۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ {وماکان لمؤمن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ} یعنی {مومن اور مومنہ کو یہ حق حاصل نہیںکہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کرے تو اپنے خیال کو اس میں جگہ دیں } [مستدرک حاکم جلد1 صفحہ110 ] بدعت کیا ہے؟ اب ناظرین نے ملاحظہ کیا کہ اگر دور صحابہ میں کوئی شخص … چاہے وہ تابعی ہی کیوں نہ ہو … بھی ایسا فعل بطور عبادت کرتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں رائج نہ تھا وہ اسے سمجھاتے اور اسے بدعت مانتے تھے۔ لہذا ہر وہ فعل جو نہ دور نبوی میں تھا اور نہ دور صحابہؓ میں ،اس فعل کو دین کا حصہ سمجھ کر سرانجام دینا بدعت ہوگا اور ایسا فعل جو نہ قرن ثلاثہ میں تھا ، نہ آئمہ اربعہ نے اس کا استنباط کیا اور نہ ہی کسی محدثین یا فقہاء کی بڑی جماعت نے اس کو اخذ کیا تو ایسا فعل بدرجہ اولی بدعت کے زمرے میں آئے گا۔ کیونکہ اللہ کے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو ردّ} یعنی { جس نے ہمارے اس معاملے میں کوئی نئی بات نکالی تو وہ مردود ہوگئی} [بخاری جلد1 صفحہ371، مسلم جلد 2 صفحہ77، ابوداؤد جلد2 صفحہ279، ابن ماجہ صفحہ3، مسند احمد جلد6 صفحہ73, 140] حافظ الدنیا ابن حجر شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث میں لفظ {فی امرنا} کے متعلق فرماتے ہیں۔ {والمراد امر الدین }یعنی { اس سے مراد دین کا کوئی امر ہے} [فتح الباری جلد 5صفحہ 321] اور ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں؛ جس نے دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جس کی اذن اللہ اور اس کے رسول نے نہیں دیا{فلیس من الدین فی الشئی} یعنی{اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں } اور فرماتے ہیں کہ ؛ '' اور اس حدیث کے بعض الفاظ میں {فی دیننا} کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یعنی جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگئی'' [جامع العلوم و الحکم صفحہ 42 طبع مصر] فریق مخالف کے نزدیک مجدد دین اور انکے اعلی حضرت نے بھی یہاں فی امرنا سے مراد دین کے امر لیا ہے جیسا کہ وہ تمباکو کے حلال و حرام ہونے کی بحث میں لکھتے ہیں ''رہا اس کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ضرر نہیں کیونکہ یہ بدعت کھانے پینے کی ہے نہ کہ امور دین میں'' [ احکام شریعت حصہ سوم صفحہ 368]لہذا یہ بات معلوم ہوئے کہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک بھی امور دین میں نئے باتیں ایجاد کرنا بدعت ہے دنیاوی معاملات میں نہیں۔ پس اس بحث سے ان حضرات کا رد ہوگیا جو میلاد کے قیود کے ساتھ منانے کو بدعت کہنے والے کو نطور دلیل کہتے ہیں کہ تم گاڑیوں میں سفر کرتے ہو یہ بھی بدعت ہے، تم مسجد میں محراب بناتے ہو یہ بھی بدعت ہے، تم کمپیوٹر سے یہ مضمون لکھ کر انٹرنیٹ پر پھیلارہے ہو یہ بھی بدعت ہے ۔ یہ تمام اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ محراب والی مسجد میں نماز بغیر محراب والی مسجد سے زیادہ نہیں پس اس کی حیثیت امام کے لئے جگہ کی سی ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی فضیلت نہیں لہذا یہ امور دین میں داخل نہ ہوا ہاں اگر کوئی یوں کہتا کہ امام جب محراب میں نماز پڑھائے تو ساتئیس نیکیاں زیادہ ہے اور اس پر اسرار کرے تو یہ بے شک و شبہ بدعت ہوگا۔ باقیوں کی مثال بھی ایسی ہے سمجھنے والے کو اشارہ کافی ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا کیسا ہے؟ اول تو مسلمان کو اپنی سیرت، افعال اور اعمال سے ہر وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرتے رہنی چاہیے اور زبانی سیرت کے لئے بھی کوئی وقت خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب کبھی موقعہ آئے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت کے واقعات مناسبتِ وقت کے حساب سے بیان کئے جائے مثلا آپ کھانا کھا رہے ہیں کوئی چھوٹا بھائی آپ کے ساتھ بیٹھا ہے اور وہ آداب طعام نہیں بجا لارہا تو ہمیں چاہیے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آداب طعام کے متعلق باتیں بھائی کو بتائیں ۔ اسی طرح بھی کام آپ ہوتا دیکھے اور اس کام کے متعلق آپ کے پاس نبی صلی اللہ کی سیرت کی کوئی معلومات ہو تو آپ اُ س تک پہنچائے۔ کیونکہ جس چیز کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اُس کی محبت دل میں زیادہ بیٹھتی ہے۔ اسی طرح جب ربیع الاوّل کا مہینہ آجاتا ہے تو ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بیانات مساجد اور محافل میں شروع ہوجاتے ہیں جس میں کوئی کراہت نہیں، بعض لوگ علماء دیوبند کی طرف یہ جھوٹ بیان کرتے ہیں کہ ہم ذکر ولادت کے خلاف ہے جبکہ اصل میں ایسا نہیں بلکہ ہم تو ان قیود کے خلاف ہیں جو خود اہل بدعت نے اپنی طرف سے گڑھ لیں ہیں۔ اب چونکہ جس طریق سے بارہ ربیع الاول کو بطور عید منایا جاتا ہے یہ طریقہ تیرہ سو سال میں کبھی ؎بھی موجود نہ تھا۔ کجا کہ صحابہؓ کے زمانے میں موجود ہوتا پس طریقہ جب صحابہؓ کے زمانے میں نہ تھا پھر بھی ان کو قیود کے ساتھ کرنا یقینا بدعت ہے ، الحاصل ذکر ولادت بدعت نہیں بلکہ وہ قیود جو اس کو کرنے میں پائی جاتی ہے مثلا جلسے جلوس کرنا، بڑے بڑے آواز میں موسیقی والی نعتیں بجانا اس کو بدعت کے زمرے میں داخل فرماتی ہے۔ لہذا مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''نفس ذکر ولادت مندوب ہے اور اس میں کراہت قیود کے سبب سے آئی ہے'' [فتاوی رشیدیہ جلد1 صفحہ102 ] اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا '' پس نفس فرح و سرور علی ذکر رسول ا کو تو کوئی منع نہیں کرتا کہ وہ تو عبادت ہے ہاں اس کے ساتھ جب اقتران منہی عنہ کاہوگا (یعنی کوئی ایسی چیز کا مل جانا جس سے روکا گیا ہو مل جائے ) تو بے شک وہ قابل ممانعت ہوگا'' [ارشاد العباد فی عید المیلاد صفحہ 9] پس اس طرح کا میلاد نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں منایا نہ صحابہؓ نے، نہ تابعین نے نہ تبع تابعین رضوان اللہ علیہم نے اب چونکہ یہ خیر القرون میں نہ تھا اس لئے یہ بدعت ہے اور بدعت کے متعلق صحابہؓ کے فتوے آپ پڑھ آئے ہیں ۔ فریق مخالف کو بھی تسلیم ہے کہ یہ بدعت ہے لیکن وہ اس کے ساتھ لفظ حسنہ لگا کر اس بدعت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بدعت حسنہ اور سیئہ کی تفریق بعض علمائے امت نے لی لیکن انہوں نے حسنہ میں ان امور کو لیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرن ثلاثہ میں موجود نہ تھے لیکن بعد وجود میں آئے لیکن ان کا تعلق دین کے عذاب ثواب سے نہ تھا بلکہ سہولت کے کام سے تھا اس کے برعکس جمہور علماء نے دنیا کے امور میں احداث کو بدعت ہی شمار نہیں کیا اس لئے ان کے نزدیک حسنہ اور سیئہ کی تفریق نہیں۔ اب اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ذکر ولادت کیونکر جائز ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ ٓصحابہؓ کرام اکثر پیشتر اپنی مجالس میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنایا کرتے تھے اس میں سے احکام کی احادیث بھی ہوتیں اور سیر و مغازی کی بھی۔ احکام کی احادیث کے علاوہ تمام احادیث ایک طرح سیرت کا حصہ تھا اور وہ ان کو بھی اکثر بیان کرتے اور اس کو مستحسن گردانتے تھے۔ لہذا ذکر ولادت اس نص سے ظاہر ہوا۔ پس وقت از خود وقت خاص کر کے اس پر اتنا زور دینا کہ جو اس وقت یہ کام نہ کرے اسے ملامت کی جائے بدعت ہے۔ کیونکہ وہ اس چیز کو لازم کررہا ہے جسے شریعت نے لازم نہیںکیا۔ اور نہ ہی ایک دن ہی ہمیشہ کے لئے خاص کرکے ذکر ولادت کیا جائے بلکہ بہتر یہ ہے ربیع الاول میں کبھی دوسری کو، کبھی پانچویں کو، کبھی آٹھویں کو اور کبھی بارہویں کو یہ ذکر کیا جائے تخصیص کہ ساتھ خاص دن اسے بدعت کی طرف لے جانے میں زیادہ دیر نہیں کریگا۔ اسی لئے ہمارے علماء نے دن خاص کرکے میلاد کا بیان تک کرنے سے گریز کیا کہ کہیں لوگ غلط فہمی میں رہ کر اسے دین کا جز نہ مان بیٹھے چنانچہ شیخ اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: ''حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ولادت اس میں باعث مزید برکت کا ہے لیکن تخصیص اس کی اور اس میں ذکر کا التزام کرنا چونکہ بدعت ہے اسی لئے تاریخ کی تخصیص کو ترک کردیں گے'' [ارشاد العباد فی عید المیلاد صفحہ ۴ اور ۵] لہذا ہم کو چاہیئے کہ اس طرح جلسے جلوس کرکے لوگوں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنے بلکہ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو اس کی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور پکی اطاعت کریں۔ اللہ خود ہم سے محبت کرے گا ۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا: {ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ } ترجمہ حضرت تھانویؒ{ آپ فرمادیجئیے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے } [سورۃ آل عمران: 31] لہذا اصل محبت جلسے جلوسوں میں نہیں بلکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے. دنیا میں اگر کسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم ایسے کام کرنے کیکوشش کرتے ہیں جس سے ہمارا محبوب خوش ہو اس طرح بے جا دعوے نہیں کرتے پھرتے. تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں الٹا کیوں؟ اگر اطاعت نبوی میں زندگی گزار کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر سنت پر عمل کیا جائے تو ہر پل میلاد ہوگا ورنہ یہ کیسا ظلم ہے ؟ کہ صرف 12 دن یاد کریں پھر سود بھی چلے، چوری بھی چلے، ظلم کا بازار بھی گرم رہے، غیبت پر کان دھرے جائے، موسیقی پر رقص ہو اور بھنگڑے ڈالے جائے تو پھر میلاد منا کر یہ کہنا کہ ہم عاشق ہیں یہ کوئی انصاف ہے؟ اصل میلاد یہ ہے کہ ہم جھوٹ چھوڑے، چوری چھوڑیں، سود چھوڑے اور حرام ترک کرے۔ہم دیکھتے ہیں یہ مروجہ میلاد کے جلوسوں میں کیا کیا مفاسد نہیں ہوتے اور ہمارے فریق مخالف کے ذمہ دار باوجود کوشش کے ان مفاسد کو روک نہیں پاتے تو یہ عمل مستحب ہونے کے بجائے الٹا معیوب ہوجاتا ہے۔ موجودہ مروجہ میلاد کے مفاسد (الف)… جس نے کبھی جلوس کو دیکھا ہو تو عورتوں کا اس میں بے پردہ آنا کسی سے ڈھکا چھپا نہ ہوگا پر پردے کا لازمی حکم چھوڑ کر اس مستحب کے پیچھے لگ جائے جس کا مستحب ہونا بھی ثابت نہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ فریق مخالف کے بڑے عورتوں کا جلوس میں آنا اچھا نہیں سمجھتے لیکن کیا وہ انہیں روک سکتے ہیں؟ (ب)… اسی طرح اکثریت ان میں سے نماز چھوڑ دیتی ہے حتی کہ بعض نمازیوں کی بھی نماز چھوٹتی ہے فریق مخالف کے اکابرین اگر چہ مقام پر پہنچ کر جماعت کراتے ہیں لیکن پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی نماز رہ جاتی ہے اور بعض سستی کی بناہ پر چھوڑدیتے ہیں ۔ اب فریق مخالفین کے بزرگ نصحیت تو کرتے ہیںکہ نماز نہ چھوڑی جائے لیکن بتائیں کہ اس نصحیت سے کتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں؟ (ج)… اس کے علاوہ اناج کی بے حرمتی ہوتی ہے لوگ اناج پھینکتے ہیں جو کہ اپنے اندر خود ایک گناہ ہے۔ (د)… پھر ووفر والے ڈیگ میں گانے کی طرز پر اور موسیقی کے ساتھ نعتیں بجائیں جاتیں ہیں جو خود نعت کی توہین ہے اور موسیقی کا گناہ الگ ہے۔ (ذ)… اس مہینے میں میلاد کے اہتمام کے لئے چراگاہ کیا جاتا ہے جس میں اکثر و پیشتر چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ حالانکہ فریق مخالف اس پر اسرار کرتے ہیں کہ چوری کی بجلی استعمال نہ کی جائے لیکن یہ بتائے کہ کتنے فیصد عوام بغیر کنڈے ڈالے چراغاں کرتی ہے دوسری چیز جو یہاں پر غور کرنے کی ہے کہ اس چراغاں کا مقصد کیا ہے؟ بے وجہ قمقموں اور بتیوں کا جلانا بجلی کا اسراف ہے۔ خاص کر ایسے وقت پر یہ اسراف کرنا جبکہ ملک میں بجلی کے وسائل ہی نہیں اور ملک میں بجلی کی صنعت آخری سانسیں لے رہے ہو تو ایسی صورت میں یہ اسراف کرنے کے بجائے بجلی کو بچانی کی کوشش کی جائے اور محض ضرورت کے علاوہ بجلی استعمال نہ کی جائے یا ایسے کاموں کے لئے بجلی استعمال کی جائے جس کی وجہ سے کوئی بھی قسم کا دینی یا دنیوی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ (ڈ)… اس کے لئے ربیع الاول میں کچھ دن جلوس نکالے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اولا تو راستے بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو نقل و حرکت میں تکلیف پہنچتی ہے پھر جب بارہ ربیع الاول کو جلوس نکلتا ہے تو اس میں جو بڑے بڑے آواز میں نعرے لگائے جاتے ہیں۔ موسیقی والی نعتیں بجائی جاتی ہیں اس سے بھی بزرگ اور بیماروں کو سخت اذیت ہوتی ہے اور ان کے آرام میں زبردست خلل پڑتا ہے حالانکہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا بہت گناہ کا کام ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے {وَالَّذِیْنَ یُؤْذُونَ المُؤمِنِینَ وَالمُؤْمِنَاتِ بِغَیرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ اُحْتَمَلُوا بُھْتَٰنًا وَاِثْمًا مُّبِیْنًا} ترجمہ حضرت تھانویؒ: {اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو بدون اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو ایذا پہنچاتے ہیں تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بار لیتے ہیں}[سورۃ الاحزاب :58 ] اور حدیث میں آتا ہے کہ {المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدیہ} یعنی {مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان سلامتی میں رہے} [بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون، مسلم کتاب الایمان باب بیان تفاضل الاسلام بحوالھ ریاض الصالحین طبع دارالسلام ] تو اب آپ خود اپنا یہ عمل ملاحظہ کیجئے کہ آپ کس اذیت میں لوگوں کو مبتلا کررہے ہیں۔ (ر)… اس طرح جلوس نکالنے میں روافض کی مشابہت ۔ جس طرح روافض محرم میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نام پر جلوس نکالتے ہیں اسی طرح میلاد کے واسطے جلوس نکالنا روافض کی کھلی مشابہت ہے اورروافض کے کفر پر فریق ثانی بھی متفق ہے اب چونکہ یہ امر دور صحابہؓ اور تابعینؒ میں نہ تھا اس لئے اس مشابہت کی وجہ سے یہ مردود ہوا ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {من تشبہ بقوم فھو منھم} یعنی { جس نے کسی (غیر) قوم کی مشابہت کی تو وہ اسی میں سے ہوگیا} [ابوداؤد44/4 ،مسند احمد 92, 50/ 2 ،مصنف ابن ابی شیبہ 212/4 , 471/6 اور مسند شامیین للطبرانی 135/1 اور شعب الایمان للبیہقی 75/2] (ز)… اس کے علاوہ اسلام میں کہیں بھی حکم نہیں کہ یہ دن منایا جائے جبکہ عیسائی 25 دسمبر کو کرسمس مناتے ہیں تو ایک طریق سے یہ اس کی بھی مشابہت ہے آپ اوپر ایک حدیث قولی ملاحظہ کرچکے ہیں اب آپ ایک حدیث فعلی ملاحظہ کریں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو انہوں نے دریافت کیا کیا تیری ماں نے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے؟(میں نے ڈر کیوجہ سے یہ جواب دیا) کہ کیا میں انہیں دھو لوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو جلا دے۔ [صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النھی عن لیس الرجلالثوب المعصفر بحوالہ ریاض الصالحین طبع دارالسلام] علماء نے اس ممانعت کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ اس طرح کا لباس کفار پہنتے تھے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا لباس پہننے سے روکا نیز اس رنگ میں عورتوں سے بھی مشابہت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ عاشورے کے روز روزہ رکھنے کے بہت سے فضائل ہے لیکن کہیں یہود کے ساتھ مشابہت نہ ہو اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا تھا کہ اگلے سال اگر عاشور آئے گا تو عاشور کے روزے کے ساتھ روزہ ملائے گے [ملخص مسلم حدیث 1916] اب فریق مخالف ہمیں بتائے کہ وہ کس طرح ایک غیر ثابت شدہ چیز کو دین میں داخل کررہا ہے حالانکہ اُس میں گناہ کے امور بھی ہیں، اس میں حرام چیزیں بھی مل رہی ہیں، اس سے مشابہت روافض و نصاری بھی ہورہی ہے لیکن پھر بھی فریق مخالف کس منہ سے اس کو جاری رکھنے کی بات رکھتا ہے ؟ جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت کے بارے میں اتنی احتیاط تھی کہ عاشور کے روزے میں بھی مخالفت کی ۔ ہم نے محض یہاں چھ مفاسد تحریر کئے ہیں اب فریق مخالف کے نزدیک مستحب ہے لیکن ان امور میں کچھ حرام بھی اور جس مستحب کے حصول میں حرام شامل ہوجائے تو اس کے متعلق فریق مخالف کے اعلی حضرت لکھتے ہیں۔ ''مستحب شے کے حاصل کرنے کے واسطے حرام کو اختیار نہیں کرسکتے'' [فتاوی رضوٰیہ 418/21 طبع رضا فاونڈیشن] پس اولاً تو یہ جلسے جلوس اور مروجہ قیود مستحب ہی نہیں اور بالفرض بطور بحث کچھ دیر اس کو مستحب تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس کے مفاسد کی وجہ سے اس کو ترک کرنا پڑے گا اور یہ ترک آسان ہے کیونکہ یہ مستحب نہ تو صحابہؓ نے منایا تھا نہ تابعین اور نہ تبع تابعین ؒ تو جب خیر القرون کے لوگوں نے جس چیز کو نہیں منایا ایسے مستحب کو باوجود مفاسد کے نہ چھوڑنا بہت ہی حماقت کی بات ہے۔ اللہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ فریق مخالف کی طرف سے چند دلائل اور ان کا جائزہ دلیل: قرآن پاک میں ہے کہ {ربنا انزل علینا مائدۃ من السمآء تکون لنا عیدالّا ولنا واخرنا} اب جب ان پر نعمت اتری تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کو عید کا دن کہا تو بتاؤں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون نعمت ہوگا؟ اب چونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے {وذکروا نعمت اللہ علیکم} یعنی{اللہ کی نعمت کا تذکرہ کرو} اور اسی طرح {واما بنعمۃ ربک فحدث}یعنی{اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو} اور آتا ہے {قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا} یعنی {کہہ دو کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر مسرور ہوں}اور ہمارے لئے سب سے بڑی نعمت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ {وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین{ جائزہ:سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ کس مفسر نے اس آیت سے استدلال کیا کہ ہمیں بھی یہ دن عید کی طرح منانا چاہیئے یہ تمام دلائل میں تفسیر بالرائے سے کام لیا گیا ہے جو کہ انتہائی مذموم ہے حدیث پاک میں ہے کہ {جو قرآن میں اپنی رائے کو دخل دے یا نہ جاننے کے باوجود کچھ کہہ دے تو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے}[ابوادؤد حدیث 3652] اولا تو تفسیر بالرائے ہی مذموم ہوئی پھر بھی بغرض بحث اس پر نظر ڈالی جائے تو بھی عید کے لغوی معنی ''خوشی'' کے ہوتے ہیں اور یہاں اسی معنی میں عید کی بات ہوئی ہے اور اگر بالفرض تہوار کے طور پر عید کی بات ہوئی بھی تو عیسی علیہ السلام نبی تھے ان کا عید منانا شریعت مانا جائے گا اور سابقہ شریعت ہمارے احکام ثابت نہیں کرتی اس کے برعکس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مروجہ قیود کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں لہذا اس سے دلیل لینا کہ حضرت عیسی نے کہا تھا {تکون لنا عیداً}محض لغو اور طفلانہ دلیل ہوئی۔ اسی طرح اللہ کی رحمت کا خوب چرچا کیا کرو والے مضامین والی آیت سے بھی میلاد کو تفسیر بالرائے سے ثابت کیا گیا ہے۔ اور اسکے علاوہ بھی اس پر نظر ڈالی جائے تب بھی خوشی کا اظہار، نعمت کا چرچا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہلہ گلہ مچا مچا کر انگریزوں (یہودیوں اور عیسائیوں) کی طرح خوشی کا اظہار کیا جائے بلکہ اسلام میں عمل سے نعمت کا چرچا کیا جاتا ہے۔ مثلا اگر کسی کو بہت اعلی اور قیمتی لباس میسر ہو تو اس کا چرچا اور اظہار کے لئے وہ ڈرم لے کر علاقے میں نکل آئے اور ناچتا جھومتا صدا لگاتا جائے کہ'' کتنا قیمتی لباس میں نے پہنا ، کیا قیمتی نعمت مجھے اللہ نے دی'' اور کوئی اس کو روکے کہ بھائی یہ کیا ڈرم بجابجا کر لوگوں کو پریشان کررہا ہے لوگوں میں بزرگ ہیں، بچے ہیں آرام کرتے ہونگے خلل پڑے گا اور جواب میں وہ یہ تمام آیتیں پڑھ کر استدلال کرے کہ اللہ اپنی نعمت کا چرچا کرنے کا حکم دیتا ہے لہذا میں نعمت کا چرچا کررہا ہوں تو کتنے بریلوی مفتی اس کی اس لغو اور مہمل دلیل کو قبول کریں گے اور کتنے بریلوی مندرجہ بالا حدیث پڑھ کر اُس کو خاموش کراتے ہیں اس کے لئے ایک بار آپ خود یہ پریکٹیکل کر کے دیکھ لیں۔ اب معاملہ رہا خوشی کے اظہار کا تو وہ عمل کے ذریعے کیا جائے یا احسن طریق سے۔ بلاشبہ آنحضرت ادنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں اب اس خوشی کا اظہار کیسے کیا جائے تو اس کا جواب ہے کہ اپنی زندگی کوسنتوں کے مطابق ڈھال کر ہر وقت اس نعمت عظمی کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں کہ ڈھول ڈھماکے بجاتے ٹرکوں پر سوار، موسیقی کے بیک گراونڈ پر چلتی نعتیں بجاکر، مرد عورت کا مخلوط اجتماع کرا کت، مسلمانوں کو تکالیف میں مبتلا کرکے اور تمام وہ کام کرکے …جس سے اللہ اور اسکا رسول ا ناراض ہو… خوشی کا اظہار کہا کہ عقلمندی ہے؟ دوسرا طریقہ اظہار نعمت کا دعوت تبلیغ ہے کہ کفار کو اسلام کی دعوت دی جائے اور دین اسلام ، نبی ا اور قرآن کے خصائص سے اس کو واقف کیا جائے یہ سب سے بہترین طریقہ خوشی منانے اور نعمت کا اظہار کرنے کا ہے۔ دلیل:کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز اپنی ولادت کی خوشی میں نہیں روزہ رکھا کرتے تھے؟ پس میلاد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا۔ جائزہ:تو آپ کو بھی چاہیئے کہ ہر پیر روزہ رکھیں۔ اگر آپ اس بات کو دلیل بناتے ہیں تب بھی اکثریت جو جلوس وغیرہ میں شریک ہوتی ہے روزہ نہیں رکھتی۔ یہ عمل تو بلکل منکرین حدیث والا ہے کہ جہاں خود کا موقف ثابت کرنا ہو احادیث سے استدلال کریں اور معنی میں توڑ مروڑ کریں اور پھر بھی دعوی کرتے رہے کہ حدیث حجت نہیں کہ یہ 250 ھ میں جمع ہونا شروع ہوئی۔ اسی طرح آپ نے محض اس حدیث کو دلیل بنایا مگر آپ کا خود اس پر عمل نہیں۔ بلکہ آپ سب کچھ کرتے ہو مگر روزہ نہیں رکھتے اور اگر چند افراد رکھتے بھی ہوں تو وہ بھی اس حدیث پر تو عمل پیرا نہ ہوئے کیونکہ یہاں صرف 12 ربیع الاول کے روزے کی بات نہیں بلکہ ہر پیر کو روزہ رکھنے کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کبھی اس سے یہ استدلال کرکے یہ کہا کہ ہمیں بھی میلاد منانا چاہیئے؟ کیا ہم ان سے زیادہ اللہ کے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتے ہیں؟ کیا صحابہ نظر میں یہ حدیث نہیں تھی ؟کیا اس حدیث کے راویوں نے کبھی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا؟ کیا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابی ہیں انہوں نے اس سے میلاد بھی کبھی استدلال کیا؟ کیا کسی محدث نے اس حدیث سے کہا کہ مروجہ طریق سے میلاد منایا جائے؟ لہذا یہ دلیل خود خلاف عمل ہوئی۔ اب بات رہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیر کو روزہ رکھنا تو وہ بطور شکرانے کے تھا اور اس شکر کی دو وجہ مذکورہ روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ایک یہ کہ میں اس دن پیدا ہوا اور دوسرا اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی(یعنی اسی دن آپ کو اللہ نے لوگوں کی طرف مبعوث کیا) چونکہ یہ مبعوثیت ولادت سے بڑی نعمت ہے تو اسی حدیث کے تحت آپ کو اس دن بھی بارہ ربیع الاول کی طرح بڑے بڑے فنکشن کرنے چاہیئے کیونکہ جب آپ کے نزدیک اس حدیث سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حکم نکلتا ہے تو اسی حدیث سے یوم مبعوثیت کا جشن منانے کا حکم کیوں نہیں نکلتا اور اگر نکلتا ہے تو آپ لوگ اس کے آدھے حصے پر عمل کرتے ہو اور آدھے پر کیوں نہیں؟ کیا یہ منکرین حدیث والی روش نہیں کہ جہاں اپنے مطلب کی بات ملے تو وہ تو حدیث سے لے لیں اور باقی حدیث کا انکار کردیں؟؟ دلیل:ابولہب کافر تھا اس نے میلاد منایا اللہ پیر کے روز اس کے عذاب میں تخفیف کرتا اور بعض روایات کے مطابق اسے اس انگلی سے پانی ملتا ہے جس سے اس نے اشارہ کرکے لونڈی کو آزاد کیا۔ جائزہ:اولاً… تو یہ بات حدیث میں نہیں بلکہ خواب کا تذکرہ ہے جو عروہ ؒبن زبیرؓ سے مروی ہے۔ اور خواب سے شریعت کے احکام ظاہر نہیں ہوتے۔ ثانیاً… بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا تو کیا کبھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ میلاد منایا؟ ثالثاً… ابولہب نے میلاد نہیں منایا بلکہ صرف ایک خوشی منائی ۔ رابعاً… ابولہب نے لونڈی آزاد کی مگر آپ لوگ کتنی لونڈیاں آزاد کرچکے؟ خامساً… ابولہب نے اس کو صرف ایک مرتبہ انجام دیا تو آپ ہر سال کیونکر انجام دیتے ہو؟ سادساً… صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہوگا تب ہی تو عروہ تک پہچا ہوگا لیکن کیا کسی صحابی نے یہ کہا کہ جب ابولہب کافر ہوکر میلاد منائے تو اس کے عذاب میں تخفیف ہو تو ہم مسلمان اگر منائے گے تو کیا ہی رحمت ہوگی؟ تاسعاً… کیا تمہارا میلاد منانا ابولہب کے میلاد منانے کے بھی برابر ہے؟ کیا ابولہب جس کے عذاب میں کافر ہونے کے باوجود تخفیف ہوتی تھی اس نے اس طرح جلوس نکلوایا؟ ہم کہتے ہیں کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی منائی ۔ خوش ہونا ہمارے نزدیک بھی اچھی بات ہے اور مسلمان کیوں نہ خوش ہو کہ اتنی بڑی نعمت دنیا میں تشریف لائی لہذا یہ خوشی اہلسنّت والجماعت دیوبند کے نزدیک مذموم نہیں بلکہ مذموم خوشی منانے کا طریقہ ہے جس کے مفاسد ہم پہلے ہی لکھ آئیں ہیں۔ اگر کوئی محض بغیر تخصیص اور التزام کے یوم المیلاد پر شکرانے کا روزہ رکھے یا شکرانے کے نفل پڑھے تو اس پر کوئی ملامت نہیں حتی کہ وہ اس کی تخصیص اور التزام کرے اور لوگوں پر زبردستی کرے کہ وہ بھی یہ عمل کرے اور نہ کرنے والوں کو برا جانے۔ اسی لئے ہمارے نزدیک ذکر میلاد جب تک محض ایک ذکر کے طو پر رائج تھا اور اس میں شرکت کو لازم نہیں سمجھا جاتا تھا اُس وقت تک اچھا عمل تھا لیکن جب اس عمل میں قیود آٓگئی اور اس کو لازم سمجھا جانے لگا اور اس پر فرائض سے زیادہ اسرار کیا جانے لگا پھر اس میں طرح طرح کے مفاسد نے جگہ لے لی تب یہ بات لازم ہوگئی کہ اس کو ترک کردیا جائے۔ واللہ اعلم دلیل:بہت سے حضرات تاریخ میں گزرے جو اس کو جائز بلکہ مستحسن سمجھتے تھے۔ مثلاً علامہ سیوطیؒ، ابن تیمیہؒ ، عبدالحق محدث دہلویؒ وغیرہ۔ جائزہ:بلاشبہ ان لوگوں کے نزدیک میلاد ایک مستحسن عمل تھا لیکن کونسا میلاد؟ جو خرافات سے پاک ہو۔ اس کے علاوہ وہ جو میلاد نہ منائے اس پر اسرار نہیں کرتے تھے ۔بلکہ علامہ عبدالحق محدث دہلویؒ تو ابن الحاجؒ مالکی کو میلاد کا رد کرنے پر عابھی دی اور فرمایا کہ '' پس اللہ تعالی ابن الحاجؒ کو اچھی نیت کا ثواب دے '' [ماثبت بالسنۃ صفحہ ۷۹مطبوعہ دہلی] تو محفل میلاد بذات خود مندوب ہے اور اس میں کراہت بسبب قیود آئی ہے جیسا کہ ہمارے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فرمایا ہے۔ دلیل: آپ کے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے شیخ حاجی امداد اللہ بھی تو محفل میلاد مناتے تھے۔ جائزہ:وہ میلاد مانتے تھے یہ بات تو ثابت ہے لیکن آپ یہ بتائے کہ کیا ان کے ہاں اس طریق سے میلاد منایا جاتا تھا جیسا آج کل آپ مناتے ہو؟ آپ یہ ثابت کردیں کہ حاجی صاحب نے میلاد کا جلوس نکالا یا نکلوایا تب یہ آپ کے لئے دلیل بنے گا۔ اور بالفرض اگر حاجی صاحبؒ یہ کرتے بھی تو حاجی صاحب ؒ بھی کوئی دلیل شرعی نہیں کہ ان کی ہر بات مانی جائے گی وہ محض تصوف میں شیخ تھے احکام شریعت میں نہیں۔ مولانا گنگوہیؒ نے اس پر رد بھی کیا تھا۔ جزاكم الله خيرا وأحسن الجزاء في الدنيا والأخرة ASIF JAFARI (MAKKAH-TUL-MUKKARAMAH ) |
No comments:
Post a Comment