سيروا في الأرض فانظروا ... المجرمين {2} -
جہیز کی وجہ سے مسلمان بہت تیزی سے دلت سے بھی بد تر قوم میں تبدیل ہورہے ہیں -
علما اور مشائخین جہیز کو حلال و حرام کا مسئلہ ماننے تیار نہیں ۔ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے -
اگر مسلمانوں نے اپنی ایک الگ طاقتور سیاسی پارٹی نہیں بنائی تو ساری عمر غلامی اور چمچہ گری میں گزر جائیگی بہار کی مسلم بستیوں میں ہم نے کیا دیکھا ؟ وہی دیکھا جو بنگال ، مہاراشٹرا ، گلبرگہ اور دوسرے شہروں میں دیکھا ۔ مسلمانوں کی اکثریت کے غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے مکان ، تنگ و تاریک گلیاں ، جگہ جگہ کچہروں کے ڈھیر، میلی کچیلی بنیان اور لنگیوں میں نکّڑوں پر کھڑے مردوں کے غول ، گھر گھر بچوں کی کثرت ، سڑکوں پر بیچ راہ میں کھڑی بی جے پی کی چھوڑی ہوئی گائیں جو ان مسلمانوں کی بزدلی ، بے دینی اور نااتفاقیوں کی سزا کے طور پر ان کے راستوں میں مسلط کی گئی ہیں مسلمان جو کبھی اللہ اور آخرت کے خوف سے تو نہیں ڈرتے لیکن ان گایوں کو دھکا لگانے سے ضرور ڈرتے ہیں ۔ مندروں کے کان پھاڑ دینے والے ایسے لاوڈ اسپیکر جو ہر ہفتے کسی نہ کسی بھگوان کی پیدائش یا شادی یا کچھ اور بہانے علی الصباح بج اٹھتے ہیں اور فجر کے وقت سونے والے مسلمانوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں ۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری میں مبتلا مرد جو عورتوں کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔ بلکہ نوکری کرنے والی عورتوںکو ڈھونڈھ کر شادیا ں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی پر حکومت اور اپوزیشن سبھی کے خلاف بھر پور جراء ت اور بے باکی سے نکلنے والے اخبار ات جس میں لکھنے والے بھی مسلمان ، پڑھنے والے بھی مسلمان اور پڑھ کر تبصرے کرنے والے بھی مسلمان ، مینڈکوں کا کنویں کے اندر ہی یہ شور جسے باہر کوئی نہیں سنتا۔ کثرت سے مدارس کا جال جہاں غربت ، یتیمی اور معذوریوں کے مارے طلباء و طالبات تین وقت کی روٹی اور تن کے کپڑے کی آس میں آ تو جاتے ہیں۔ اور کچھ حافظ قاری یا عالم بن کر نکل بھی جاتے ہیں لیکن باقی نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے ۔ اور جو فراغت حاصل کر کے نکلتے ہیں ان میں مسلم حنیف کم اور مسلم سنی ، شیعہ ، بریلوی ، دیوبندی یا سلفی زیادہ نکلتے ہیں جن کی پوری توجہ دین محمدی کو قائم کرنے پر کم اور دین بریلوی، دیوبندی یا سلفی کو قائم کرنے پر زیادہ مرکوز رہتی ہے ۔ سارے نہیں لیکن زیادہ تر مدارس کاروباری بنیادوں پر ہیں جنکے بانی اور منتظمین جو ابتداً دو تین ہزار روپیے پر معمور مدرس ہوا کرتے تھے لیکن اپنی اچھی تقریری ، تحریری اور تنظیمی صلاحیتوں کا استعمال کر کے انہوں نے مدرسہ کی بنیاد ڈال دی ۔ محتاجی کے مارے بچے جمع ہو گئے اور اعانتیں جمع ہونی شروع ہو گئیں اور عاملین یعنی چندے جمع کرنے والوں نے اپنا پچیس یا پچاس فیصد حق نکالنا شروع کیا۔ جب سے سرکار کی جانب سے مدرسوں کو بھی سرکاری اسکولوں کی طرح ٹیچروں کی تنخواہیں ملنے لگی ہیں بانیانِ مدرسہ نے اپنے اپنے بیٹوں دامادوں وغیرہ کے ناموں کا Payroll میں اندراج کروایا اور بڑی بڑی تنخواہیں حکومت سے وصول کر کے ان کی جگہ دو دو یا تین تین ہزار روپیے پرباہر کے مدرسین رکھ لیے ۔ بچے نہ انگیریزی سے واقف ہیں نہ اکنامکس سے نہ کامرس سے ۔ سائنس ، حساب ، سماجی علوم ، اکنامکس، کامرس وغیرہ تو یوں بھی مدرسوں میں شجر ممنوعہ ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ ان بانیانِ مدرسہ نے بڑی چالاکی سے شیلڈ کے طور پر دیوبند یا اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی یا ائمہ سلف کو اس ذہانت سے استعمال کیا ہے کہ اگر کوئی ان مدارس پر تنقید کرے تو یہ راست دیوبند یا بریلویت یاسلفیت کی مخالفت شمار ہو اور اس کے دفاع میں ان مکاتب فکر کے مرکزی اکابرین فتوؤں کی زبان میں ناقدین کا مقابلہ کریں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ چاہے دیوبند ہو کہ بریلی یا مرکز اہل حدیث، یہ مراکزِ علوم تو حقیقی تعلیم و اصلاح چاہتے ہیں لیکن ان کے نام پر گاؤں گاؤں جو مدارس چلائے جا رہے ہیں وہاں حقیقتاً کتنی کارآمد تعلیم اور اصلاح کا کام ہو رہا ہے ان مراکز کے اکابرین کو بھی اس کی خبر نہیں ۔ ایسا بھی نہیں کہ سارا بہار غربت و افلاس کا مارا ہے۔ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی خوشحال لوگ بستے ہیں۔ پھلواری شریف جیسے کچھ علاقے پٹنہ میں بھی ہیں جہاں خوشحال مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ جگہ جگہ ٹوپیاں، بڑی داڑھیاں اور برقعے نظر آتے ہیں ۔ بقرعید پر گلی گلی دھڑلے سے گائے کی قربانی دینے کی جراء تِ ایمانی کامظاہرہ بھی ہوتا ہے ۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ شعارِ اسلام یعنی جن چیزوں سے مسلمان کی سڑک پر پہچان ہو وہ بھرپور ہے لیکن جن خوبیوں سے ملک اور معاشرے میں ایک مسلمان کی پہچان ہو وہ ندارد ہیں ۔ انہی میں سے ایک جہیز بھی ہے ۔ جتنی زیادہ یہاں غربت اور بے روزگاری ہے اسی کثرت سے جہیز کی لعنت یہاں پائی جاتی ہے ۔ چند ایک مالداروں نے پورا نظام بگاڑ ا ہے اس لیے ہر لڑکا مالدار سسرال ڈھونڈھتا ہے ۔ اگر کسی گھر میں دو یا تین بیٹیاں ہو جائیں تو وہ ساری عمر اپنے نصیب کو کوستے ہوئے گزار دیتا ہے ۔ میں نے جس ہوٹل میں قیام کیا اسکے ایک ملازم محی الدین سے انٹرویو لیا جو بیس سال سے اسی ہوٹل میں کام کر رہا تھا اور اب اسکی تنخواہ تین ہزار روپیے ہے۔ اسکی دو بیٹیاں ہیں جن کو اس نے کسی طرح گریجویشن تک پڑھا تو دیا لیکن اب ان کی شادیوں کے لیے اسکی زندگی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ میں نے جہیز کے موضوع پر انجان بنتے ہوئے پوچھا کہ "لڑکیوں کی شادی کیوں نہیں کردیتے ؟ـ ـــــ" اس نے لاچارگی سے کہا "صاحب میں اور میری پتنی پوری پوری رات نہیں سوتے ،یہی باتیں کرتے ہیں کہ شادی کا انتظام کیسے ہو ؟ پہلی لڑکی کے لیے بڑی مشکل سے ایک رشتہ آیا ہے لڑکا حاجی پور میں بس کنڈکٹر کا کام کرتا ہے ۔لڑکے والے دو لاکھ روپیے نقد اور سامان مانگ رہے ہیں ۔ اب ہم کہاں سے لائیں؟ لڑکیاں سیلز گرل کا کام کر رہی ہیں ۔وہ گھر آکر جب بھی کسی کسٹمر یا مالک کی تعریفیں کرتی ہیںتو ہمارا دل خوف سے لرز جاتا ہے کہ پتہ نہیں کس دن وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ چلی جائیں یا کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ہماری ساری زندگی کی محنت غارت ہوجائے " ۔ میں نے پوچھا اچھا ایسے بھی ہوتا ہے۔ اس نے کہا صاحب پہلے تو نہیں ہوتا لیکن جب سے جہیز کی مانگ بڑہ گئی ہے یہ بہت ہونے لگا ہے۔ ــَ یہ کرب ناک راتیں ایک محی الدین کی نہیں ہیں بلکہ پورے بہار میں یہی صورتِ حال ہے ۔ ہزارو ں محی الدین اپنی بیٹیوں کی عزت کے لیے راتوں کو نہیں سوتے ۔ ایک قابل محترمہ سے ملاقات ہوئی جو ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتی ہیں ۔ ہم حسبِ عادت جہیز کی لعنت کے اثرات کا جائزہ لینے انٹرویو لینے بیٹھ گئے ۔قصہ مختصر یہ تھا کہ محترمہ کی ازدواجی زندگی کشیدہ تھی ۔ شوہرمنشی کا کام کرتے ہیں اور بیوی کی نوکری کے خلاف ہیں ۔ کرایہ کے تنگ مکان میں رہ کر بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں لیکن خاتون عصرِ حاضر اور مستقبل کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہیں وہ اپنے بچوں کو الیکٹریشین یا بس کنڈکٹر بننے دینا نہیں چاہتیں اس لیے انہوں نے مجبواراً نوکری اختیار کی۔ میں نے پوچھا کہ "آپ کے شوہر تعلیمی طور پر جب آپ کے برابر نہیں تھے تو پھر آپ نے شادی کیوں کی "؟ انہوں نے شکست خوردہ لہجہ میں جواب دیا "جو میرے قابل لڑکے تھے ان کی قیمت بہت زیادہ تھی جو کہ میرے والدین چکا نہیں سکتے تھے اس لیے یہ رشتہ جو بغیر کسی جہیز کے مطالبے کے آیا تھا قبول کرنا پڑا "۔ ایسی ایک نہیں ہزاروں بد قسمت لڑکیاں ہیں جو ذہین اور شوقین ہونے کی بنا تعلیم تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن ان کے لیے مناسب لڑکوں کی قیمت زیادہ ہونے کی بنا وہ کم معیار کے شوہروں کو قبول کر کے باقی ساری زندگی ایک چھت کے نیچے ایک عذاب سے بھری زندگی گزار رہی ہیں۔ اور کئی ایسی ہیں جو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر مردوں کی تلاش میں غیر مسلموں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ مرد طوائفوں کی طرح بک رہا ہے۔ میٹرک یا انٹر ہو تو اس کے لیے کم ازکم ایک یا دیڑھ لاکھ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ گریجویٹ ، سرکاری نوکر ، ڈاکٹر اور انجینیر ہو تو اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ یہ ان کے حریص ماں باپ ہیں جو بیٹوں کی تعلیم پر خرچ کر کے کئی گنا زیادہ سود بجائے بیٹے سے وصول کرنے کے ایک لڑکی کے باپ سے وصول کرتے ہیں اور تب جا کر اپنا بیٹا فروخت کرتے ہیں ۔ عجیب بے غیرت سماج ہے ۔ سناتھا کہ ماں باپ دودھ کی قیمت اولا د سے مانگتے تھے لیکن آج ماں باپ بیٹوں کے دودھ کی قیمت لڑکی کے والدین سے مانگتے ہیں۔ ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی جنکی بہترین قائدانہ صلاحیتوں نے ہمیں بے حد متاثّر کیا۔انہوں نے ہمیں بڑے درد کے ساتھ اپنی رو داد سنائی کہ وہ بچپن سے گریجویشن تک Topper رہے ۔ آئی اے ایس کے priliminaris تک پہنچ گئے لیکن اس وقت کوچنگ اور کتابوں کے لیے انہیں پچیس ہزار روپیے درکار تھے ۔ لیکن ان کے والد پر چار بیٹیوں اور دو بہنوں کی شادیوں کے قرضوں کا بوجھ تھا ۔ والد صاحب کے پاس کچھ زمین اورایک گھر تھا جو بیٹیوں کی شادی کیلئے بک چکا تھا ۔ اب وہ والد پر مزید قرض کا بوجھ نہیں ڈال سکتے تھے ۔ جہاں تک قرض لینے یا کسی سے مدد لینے کا سوال تھا کسی کو یہ یقین دلانامشکل تھا کہ وہ آئی اے یس پاس کر لیں گے اور پیسے لوٹا دیں گے ۔ جن لوگوں سے انہوں نے مدد مانگی انہوں نے ان کا مذاق اڑایا ۔ کہاکہ آئی اے ایس پاس کرنا کوئی آسان کام نہیں۔دراصل دلوں میں یہ خوف تھا کہ نہ یہ پاس کرے گا اور نہ ان کے پیسے جلد واپس ملیں گے۔ اس طرح والد اور والدہ نے جتنی جمع پونجی تھی وہ سب بیٹیوں پر خرچ کرڈالی اور موصوف کواخبار کے دفتروں میں نوکری ڈھونڈنے کے کام پر لگا دیا ۔اردو اخبارات اردو کی خدمت کے نام پر ایک بہت بڑا کاروبار ہیں ۔ مالکان بڑی چالاکی سے ذہین نوجوان صحافیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ نوجوان ایک انقلابی دھن لے کر کام کرتے ہیں ۔لیکن بہت بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی حیثیت سوائے اخبار کے صفحے کالے کرنے والے ایک ملازم کے اور کچھ نہیں۔ ہماری قوم اپنی ذات کے اطمینان کی خاطر چار چار نفل عمرے یا حج کرنے کو تو ثواب سمجھتی ہے ، درگاہوں اور مرشدوں پر مال لٹانے میں یا مسجد یامدرسہ کی تعمیر میں چندہ دینے کو تو کارِ خیر سمجھتی ہے لیکن کسی آئی اے ایس ، جرنلزم، بنکنگ ، یا انجینئر یا میڈیسن کے خواہشمند طالب علم کو اسکی کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں اس کو کہیں ثواب نظر نہیں آتا۔ یہ ایک بھائی کا قصہ نہیں ہے ۔ ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں بھائی ہیں جن کے حصے کی وراثت کی زمینیں بک چکی ہیں ۔ جو آج ہوتیں تو وہ لاکھوں کے مالک ہوتے ۔ آئی اے ایس نہیں تو کم ازکم بڑے پروفیسر ، کمشنر ، ڈائرکٹر یا نامور کھلاڑی ہوتے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طبقے کو جنت کے دس دروازوں میں سے نو دروازوں سے رزق کی بشارت دی ہے یعنے تاجر ، وہ تاجر ہوتے ۔ یہ ہزاروں لاکھوں بھائی آج انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ایک دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں یا خلیج جا کر کفیلوں اور اقاموں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں۔ میں نے سعودی عرب میں دیکھا ایسے سینکڑوں باپ ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو بڑا ہوتے نہیں دیکھا ۔ بس دو سال میں ایک بار چھٹی پر آتے ہیں اور پھر بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں کا قرض چکانے واپس چلے جاتے ہیں ۔ بہار میں نقد رقم کو تلک کہا جاتا ہے اسی طرح جس طرح حیدرآباد میں "جوڑے کی رقم " یا ساوتھ انڈیا میں "استری دھنم" کہا جاتا ہے ۔ یہاں تلک کا Rate بنگال اورمہاراشٹرا کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ یہ وہ رشوت ہے جو مرد ایک عورت کو گھر میںجگہ دینے کیلئے اسی طرح رشوت وصول کرتا ہے جس طرح ایک میڈیکل کالج یا جہاز یا ٹرین کی ایک سیٹ فروخت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ضروریاتِ زندگی کے سارے سازو سامان لانے کی ذمہ داری بھی عورت پر ڈالتا ہے ۔ غیر مسلموں سے شادی کرنے کی شرح یہاں بنگال سے زیادہ ہے۔ کیونکہ لڑکیاں محنت سے پڑھتی ہیں اور جلد نوکریوں کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں ۔ لڑکوں کی پڑھائی کا عالم یہ ہے کہ بقول جناب اختر الایمان صاحب ایم ایل اے کش گنج سیوان وغیرہ کے علاقوں میں مسلم کالج تو بہت ہیں لیکن طلباء ندارد ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکے سسرال کے مال پر زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اپنا Rate کم بھی نہیں کرتے جس کی وجہ سے لڑکیوں کو اپنی برابری کا لڑکا غیر مسلموں میں آسانی سے مل جاتا ہے ۔ دس تا پندرہ فیصد مسلمان جو مالی طور پر بہت خوشحال اور تعلیم یافتہ ہیں سماج ، ادب، سیاست اور کاروبار میں ایک مقام رکھتے ہیںیا NRI ہیں اس تلخ سچائی سے ناواقف ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنے گھر اور شہر سے باہر نکل کر ہی نہیں دیکھا کہ جہیز کی وجہ سے prostitution and abortions, کی شرح کتنی تیزی سے بڑہ رہی ہے۔ بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جانے والوں کی، طلاق اور جہیز ہراسانی کے واقعات کتنی تیزی سے بڑہ رہے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہیکہ مسلمانوں کی معاشی پست حالی کا ایک بڑا سبب لالو یادو کی حکومت بھی ہے جس میں اَن پڑھوں کا غنڈہ راج تھا مسلمانوں کے لیے فنڈ تو کروڑوں کے پاس ہوئے لیکن عوام تک نہیں پہنچے ۔ زیادہ تر لوگ نتیش کی حکومت سے اسلئے خوش ہیں کہ اسکے دور میں غنڈہ گردی ، اغوا اور لوٹ کھسوٹ کافی کم ہوئی ہے ۔ مسلمانوں کی بہبود کے لیے اگر چہ نتیش حکومت نے بھی کروڑوں مختص کیے ہیں لیکن مسلم نمائندگی کرنے والے سیاسی مسلمان ایک تو ان فنڈز کو استعمال کرنے اور عوام کو اس کی آگاہی دلانے کا شعور نہیں رکھتے دوسرے جو بھی انہیں ملتا ہے اپنے خزانے بھرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ اس لیے ایک عام مسلمان تو بہر حال اپنوں اور غیروں دونوں کے ہاتھوں پِس رہا ہے ۔ امتیاز احمد جو اردو ٹیچرز اسوسی ایشن کے صدر ہیں انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کئی سالوں سے خالی اردو ٹیچرز کی اسامیوں پر ہندی ٹیچروں کو تقرری کو سپریم کورٹ سے رکوایا اور تقریباً 3500 جائیدادوں پر اردو ٹیچرز کا تقرر ممکن ہوا ۔ بہار میں 5 روزہ مخالف جہیز بیداری مہم کے داعی جناب ریاض عظیم آبادی تھے جو اپنی عمر کے تقریباً 45 سال صحافت کو دے چکے ہیں۔ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی پر زندگی بھر عمل کرتے رہے اس لیے اپنوں اور بیگانوں کے ہاتھوں ہمیشہ عتاب کا شکار رہے ورنہ ان کے اسکول اور کالج کے کئی ساتھی آج سیاست یا سرکاری عہدوں میں ان سے بہت آگے جا چکے ہیں ۔ ہندی اور اردو پر بیک وقت دسترس رکھتے ہیں اسی لیے اس سال گجرات میں جو بہار دیوس BIHAR DIVAS منایا جارہا ہے اس موقع پر انہیں اعزاز بخشتے ہوئے ان کا نام بھی ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ فی الحال اردو ہفتہ وار "سیکولر محاذ" نکال رہے ہیں اور بڑی بے باکی اور حقیقت پسندی سے غیر جابندارانہ تحریروں کے لیے پورے بہار میں مشہور ہے ۔ عمر اور صحت سے ضرور بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ملی کاموں کے لیے ان کی مستعدی نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے ۔ انہوں نے ہر دن ہمیں متحرک رکھا اور انہی کے توسط سے پٹنہ کی اہم صحافتی، سیاسی، ادبی اور دینی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں ۔ انہوں نے پٹنہ کے اہم اخبارات میں جہیز کی لعنت پر بھر پور تبصروں کے ساتھ ساتھ اس مہم کی خبریں شائع کروائیں ۔ جن اہم پر خلوص صحافیوں سے ملاقات کروائی ان میں جناب محمد رضوان صاحب قومی تنظیم ، سراج انور صاحب فاروقی تنظیم ، زرین فاطمہ پندار ، ڈاکٹرشہباز احمد سہارا پٹنہ شامل ہیں۔ایک انتہائی ملنسار اور متحرک شخصیت سنجے گپتا سے بھی ملاقات ہوئی جو ایک ہندی اخبار کے رپوٹر ہیں انہیں جہیز کا موضوع اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے کئی ٹی وی والوں اور ہندی اور انگیریزی کے اخبارات کے رپوٹرز کو جمع کر کے مخالف جہیز مہم سے متعارف کروایا ۔ مولانا انیس الرحمٰن امیر امارت شرعیہ بہار اور صدر حج کمیٹی ہیں ۔ مصروف ترین ہونے کے باوجود انہوں نے انسدادِ جہیز کے پلان کو غور سے سنا اور بھر پور تائید کی ۔ ہمارا صرف دو نکاتی ایجنڈاتھا ۔ وہ یہ کہ : 1۔ وداعی کے دن کا کھانا جو لڑکی کے والدین کے سر ڈالا جاتا ہے اس دعوت میں شرکت کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ (اس بہانے لڑکی والوں کے سر سے کچھ مالی بوجھ کم کیا جائے) 2۔ جس شادی میں جہیز کا لین دین ہو اس شادی کی دعوت کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ ظاہر ہے جہیز کا معاملہ خالصتاً حلال و حرام کا مسئلہ ہے اور علماء ہی اس کے بارے میں حکم دے سکتے ہیں بلکہ جہاد کرسکتے ہیں اس لیے ہم نے علماء سے پہلے رجوع کیا۔ امارات شرعیہ کے مفتی مولانا سہیل قاسمی تشریف لائے ہم نے مدعا ان کے سامنے رکھا اور انہوں نے مولاناانیس الرحمان صاحب کی موجودگی میں یہ فرمایا کہ ایسی دعوتوں کا بائیکاٹ بالکل جائز ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ بہار انجمن ایک فلاحی اور تعلیمی تنظیم ہے جسکو NRIs نے قائم کیا ۔ سکنڈری تا اعلیٰ تعلیم کے کئی کورسس کی مفت کوچنگ کے تقریباً 32 سنٹرز اب تک قائم کیے جا چکے ہیں۔ ان کی مدد سے اب تک کئی طلباء و طالبات نے IIT، ایم بی اے اور دوسرے گریجویشن کورسس میں داخلہ لیا ہے ۔ یہ غیاث الدین بابو خان صاحب کے ادارے کی طرح ایک عظیم ادارہ ہے جہاں سے فیض یاب ہونے ولے طلباء نہ صرف ایک باعزت روزگار سے لگ جائیں گے بلکہ بنیادی دینی علوم سے بھی واقف ہو جائیں گے ۔اعجاز احمد صاحب، نجم الحسن نجمی صاحب اور ان کے فرزند یحییٰ نجمی، انعام خان صاحب ، سابق آئی پی ایس شعیب خان صاحب وغیرہ پٹنہ میں بہار انجمن کے کاموں کی نگرانی کرتے ہیں ۔ انعام خان صاحب عمر اور صحت کی کمزوری کے باوجود انتہائی تندہی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ 32 سنٹرز کی ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔نجمی صاحب کے قائم کردہ اسکول نجم مشن اسکول میں لڑکیوں کے اجتماع کو جہیز کے بارے میں جب ہم نے تفصیل بتائی تو کئی لڑکیوں نے نہ صرف دعوتوں کے بائیکاٹ کا عہد کیا بلکہ کچھ نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ "اگر کسی جہیز مانگنے والے کا رشتہ آئے گا تو ہم اس شخص سے شادی نہیں کریں گے ۔" پھلواری شریف میں امارت شرعیہ بہار کے قائم کردہ "منت اللہ رحمانی ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ " پر جناب فیاض احمد فیضی صاحب پرنسپل نے جہیز پر ایک سمینار منعقد کیا اور تقریباً پچاس کے قریب نو جوانوں نے جہیز نہ لینے اور جہیز لینے والوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ۔ پٹنہ سٹی کشمیری گیٹ پرخدام المسلمین اسکول کے تقریباً ایک سو طلباوطالبات سے بھی خطاب کا موقع ملا اور طلباء و طالبات نے گرمجوشی کے ساتھ عہد کیا ۔ سب سے اہم اور معتبر اجتماع مدرسہ رحمانیہ سبل پور میں منعقد کیا گیا جسے مولانا محمد قاسم قاسمی نے 1989 ء میں قائم کیا تھا، آٹھ دس طلباء پر مشتمل ایک چھوٹی سی مسجد میں قائم کردہ یہ مدرسہ آج کئی ایکڑ زمین پر عالیشان مسجد کے ساتھ قائم ہے جہاں سات سو سے زائد طلباء و طالبات دینی علوم حاصل کر رہے ہیں ان تمام کا قیام و طعام مدرسہ برداشت کرتا ہے ۔ تمام اساتذہ علماء اور طلباء نے مخالف جہیز مہم کو غور سے سنا اور تائید کی کہ وہ سوشیو ریفارم کے اس بائیکاٹ اپیل کا ساتھ دیں گے ۔ اتنے بڑے مدرسے سے وابستہ اعلیٰ علمی مقام پر فائز علما و مدرسین نے ایک غیر مدرسے کے فرد کو جس دلچسپی ، انکساری اور اہمیت سے سنا اور قدر دانی کی ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ عام طور پر مدارس اور علما کا رویّہ یہ ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہمارے ہوتے ہوئے کسی غیر مدرسے کے فرد یا تنظیم کو دین کے نام پر کوئی تحریک چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن مدرسہ رحمانیہ کا رویّہ منفرد اور قابل تعریف تھا۔ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر مسلم معاشرے میں کوئی انقلاب آسکتا ہے تو صرف اصلاح معاشرے کے ذریعے آسکتا ہے ان کے لیے بہار کی سرزمین ایک آئیڈیل جگہ ہے لوگ سننا چاہتے ہیں اور ساتھ دینے تیار ہیں اب وہاں کوئی آگے بڑھے اور جہیز مٹاؤ مہم کے ذریعے لوگوں کو ساتھ لے اور دوسری اصلاحات پر عملی اقدامات اٹھائے ۔ یہاں بھی بنگال کی طرح ایک چیز کی شدّت سے کمی محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کی آبادی پچیس فیصد اور بعض بعض انتخابی حلقوں میں ستر فیصد ہونے کے باوجود مسلمان سیاسی طور پر دوسرے درجے کے شہری جیسے ہی ہیں۔ بلکہ دلت اصل شہری اور مسلمان اصل دلت محسوس ہوتے ہیں۔ عام مسلمانوں میں ہم نے یہ احساسِ کمتری پایا کہ مسلمانوں کی ترقی لالو جی یا نتیش جی کی خوشنودی پر منحصر ہے۔ کانگریس اور بی جے پی وغیرہ میں بھی مسلمان ہیں لیکن ان کی ذہنیت کا عالم بھی یہی ہے۔جرنلسٹ ایک سے قابل ایک ملے جن کے اخلاق و خلوص سے میں بے حد متاثر ہوا۔ یہ لوگ بہت دلیری سے لکھتے ہیں لیکن سوائے اردو اخبار کے یہ کہیں اور نہیں شائع ہوتا۔ اتفاق سے جن دنوں میں پٹنہ میں تھا انہی دنوں بمبئی میں مسلم پرسنلا بورڈ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا۔جسمیں مدارس بورڈ، چودہ سال تک کی لازمی تعلیمی پالیسی اور تحفظات وغیرہ امور پر بحث ہورہی تھی۔ سھارا جو کئی زبانوں میں نکلتا ہے اس میں اور ای ٹی اردو اور زی ٹی وی اور دور درشن جیسے ٹی وی چینل جو بشمول اردو کئی زبانوں میں چلتے ہیں۔ اردو ایڈیشن یا اردو چینل پر تو شاندار سرخیا ں لگا کر مسلمانوں کو خوش کررہے تھے اور بے وقوف مسلمان خوش ہوکر تبصرے بھی کررہے تھے لیکن جب میں نے یہی ساری خبریں انگریزی، ہندی اور دوسری زبانوں کے اخبار یا چینل پر دیکھنے کی بہت کوشش کی تو مجھے بے حد مایوسی ہوئی۔ اگرچہ کہ دوسری زبان کے اخبارات اور چینل میں کام کرنے والوں میں مسلمان ملازمین بھی شامل ہیں لیکن ان کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ مسلمانوں کی خبر کو دوسری زبان والوں تک پہنچا سکیں۔ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ بہار کی وہ سرزمین جہاں آج بھی گاؤں گاؤں شہر شہر اولیاء کرام، مشائخین، علمائ، مدارس ، حکمرانوں اور دانشوروں کی نشانیاں موجود ہیں۔ خدابخش لائبریری کی سینکڑوں کتابیں گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے اس سرزمین سے بڑے بڑے دینی، علمی و سیاسی و سماجی انقلابی پیدا کیئے اورانقلابات برپا کئے۔ سلفی یا اہلِ حدیث تحریک پٹنہ سے اٹھی اور پورے شمالی ہندوستان میں پھیل گئی۔ امارت شریعہ بہار جسکے سرکردہ علما نے مسلم پرسنل بورڈ کے قیام میں بنیادی رول ادا کیا اور خود امارت شریعہ بہار سارے ہندوستان کیلئے ایک مثالی دارالقضا بن گیا۔دارلعلوم دیوبند اور دیوبند تحریک کو جس نے آزادی کی جنگ سے لے کر آج تک کئی انقلابات برپا کئے اس کو بہار نے بے شمار جان نثار علما و مجاہدین دیئے ہیں۔ آج بھی ایک عام تعلیم یافتہ بہاری مسلمان معاشی طور پر اگرچہ پسماندہ ہے لیکن اپنی گفتگو اوراخلاق سے دوسری ریاستوں کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر کرتا ہے۔ لیکن سیاسی طور پر یہ پوری ریاست ایک مسلمان قیادت سے محروم ہے۔ مسلمانوںکی ایک اپنی طاقتور سیاسی پارٹی کا قیام لازمی ہے۔ مسلمانوں کو احساسِ کمتری سے باہر آنا ہوگا۔ آنے والے ہندوستان میں اگر فاشسٹ ہندوتا پارٹیوں کے شر سے محفوظ رہنا ہے اور ملک کوگودھرا، گجرات اور بابر مسجد انہدام جیسی دہشت گردیوں سے بچانا ہے تو ان کیلئے لازمی ہیکہ اپنی طاقت پیدا کریں ۔ ساٹھ پینسٹھ سال میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الکفر ملۃ واحدہ۔ کانگریس، بی جے پی، کمیونسٹ اور علاقائی ساری پارٹیاں بشمول نیتش جی یا لالو جی مسلمانوں کے لئے صرف زبانی ہمدردی رکھتے ہیں۔ بے شمار معصوم لڑکوں کو گھروں سے اٹھالیاجاتا ہے اور ان پر جھوٹے مقدمات چلائے جاتے ہیںسوائے اخبار میں ایک دو ہمدرد صحافیوں کے اور کوئی ان کا زکر بھی نہیں کرتا۔ ہر نئی گرفتاری پچھلی گرفتاری کے واقعے پر پردہ ڈال دیتی ہے۔مسلمان اگر ہمت کرکے ایک مسلم پارٹی کی بنیاد ڈالتے ہیں تو یہ ریاست میں ایک بادشاہ گر کا رول ادا کرسکتے ہیں ورنہ یہ لوگ ساری عمر دوسری پارٹیوں میں غلام اور چمچے بن کر زندگی گزاریں گے۔ دوسری طرف جہیز جیسی لعنتوں کی وجہ سے ان کی معاشی، اخلاقی، علمی اور دینی جڑیں جو پہلے ہی کٹ چکی ہیں رفتہ رفتہ ان کو ایک مکمل دلت بلکہ اس سے بھی بدترقوم بناکر چھوڑ دینگی۔ *** رپورٹ: بموقع پانچ روزہ انسداد جہیز مہم ، پٹنہ یکم مئی 2012ء علیم خان فلکی http://socioreforms.com/ur/news-ltr-posts/ |
No comments:
Post a Comment