شرک گناہ کبیرہ اور سنگین جرم ہے۔ اس کا مرتکب اپنے خالق اور محسنِ حقیقی کا ایسا مجرم ہے کہ اس پر جنت کو حرام کردیا گیا ہے (المائدہ:72) اور اگر یہ بغیر توبہ کیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی تمام راہیں مسدود ہیں (النسائی:48) قیامت کے روز اس کا سب کِیا دھرا غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا (الفرقان:23 )
 
انسانوں سے عقیدت و احترام کا تعلق روا رکھنا، مستحسن عمل ہے مگر یہ رویہ شرک باللہ کی صورت اختیار کرلے تو اِس سے زیادہ قبیح حرکت بھی کوئی نہیں ہے۔ خدا کی ذات سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔ خالق، معبود اور مقتدر ہونے کی حیثیت سے وہ تنہا اور لاشریک ہے۔ اُس کی بزرگی اور عزت و توقیر کے سامنے تمام کائنات کی بزرگیاں اور عزتیں ہیچ ہیں۔ اسلام نے فلسفۂ ادب و اخلاق میں جس اہم اصول کا اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ خالق اور مخلوق کے مابین ذات اور صفات کے لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ہے۔
مخلوقات میں سے مثال کے طور پر رسول، نبی، ولی، بزرگ، صاحب سلطنت و وقار، یہ سب قابل احترام ہیں، مگر خدا اور خدائی صفات کے مقابلے میں یہ بجاے خود محتاج اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے ایک سانس کو بھی فرحت ِ جاں نہیں بنا سکتے، یہ کسی بھی جہت سے مارواے اسباب افعال و اعمال اختیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی امداد نہیں کرسکتے جو سمجھ میں آنے والی یا دِکھنے والی نہ ہو۔ مادی ذرائع کے بغیر کسی کی فریاد نہیں سن سکتے۔ مرنے کے بعد زندہ انسانوں سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رکھ سکتے۔
انسانی تاریخ میں اکثر و بیشتر جو شرک ہوا ہے وہ ذات باری کے ساتھ نہیں ، بلکہ اللہ کی صفات کی جہت سے تھا۔ یہ دعویٰ تو معدودے چند لوگوں کا رہا ہے کہ اس کائنات کے خالق دو ہیں یا فلاں بزرگ و ہستی اللہ کی طرح ہے یا اللہ کے برابر ہے۔ عام طور پر جو شرک زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، آج بھی موجود ہے اور جس کی تردید میں قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ نازل ہوا ہے، وہ صفاتِ باری کے ساتھ شرک ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہ 'علم ِغیب'اللہ کی خاص صفت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بغیر سبب کے ماوراے حواس اشیا کا ادراک حاصل کرلینا، خبر پہنچے بغیر مستقبل کے احوال جان لینا، از خود نوشتہ تقدیر پر مطلع ہو جانا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں، جو کسی معمولی درجے میں بھی غیراللہ کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اس حوالے سے صریح ارشاد ہوا ہے:
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النمل:65
ان سے کہو: اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ تمہارے معبود تو یہ بھی  نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے۔
اسی طرح بغیر کسی سبب کے امداد و نصرت کرنا، عالم دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی زندوں سے ربط و تعلق باقی رکھنا اور اِن کی فریاد سننا، تغیرات زمانہ پر اختیار و طاقت رکھنا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں۔ یہ صفات کا شرک مختلف ادیان و مذاہب سے وابستہ حضرات کے عقائد میں پایا جاتا ہے اور یہی شرک فی الصفات اسلام سے قبل مکہ میں بھی رائج تھا۔ یہ سب لوگ اللہ عزوجل ہی کو کائنات کا خالق، بادشاہ، سمیع و بصیر، رازق و ممیت سمجھتے تھے، مگر اس کے باوجود قرآن کے مطابق یہ اصل مشرک قرار پائے اور یہی تھے جن پر جنت کو حرام کردیا گیا۔
اِس سلسلے میں ہمارے پیش نظر جو مسئلہ ہے وہ یہ کہ کیا اُمت مسلمہ کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس شرک میں مبتلا ہوجائے؟ یا سرے سے یہ امکان ہی پیدا نہیں ہوتا اور مسلمان ہوجانے کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا ناممکن افعال میں سے ہے۔ 
 ایمان لانے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ (الانعام: 82
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ 
چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ''جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: اس کی مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو… بلکہ اِس سے مراد شرک ہے۔ '' (بخاری:32 ؛ مسند احمد:444/1)
 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ (آل عمران:100)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (النحل:106)
جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے وہ اگر مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔
وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ (یوسف: 106)
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔