قانون کی بالادستی یا مذاق
صاحبو ! مداری کا تماشا تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ وہ اشارے کرتا ہے تو چاہے حیوان
ہو یا انسان ،اُس کے اِشارے پر حرکت میں آجاتا ہے،لیکن تماشا دِکھانے سے پیشتر جو
الفاظ بھی وہ اداکرتا ہے ، اُسے لفّاظی کہا جاتا ہے۔ لفاّظی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ وہ
دنیاکو دکھانے کے لیے یا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے الفاظ زبان سے
اداکیے جائیں جن سے سننے والوں کوتو یقینی طور پر جذباتی وابستگی ہولیکن کہنے
والے کو نہ اُن پر یقین ہو اور نہ وہ ان الفاظ کے مطابق ذاتی زندگی میں عمل کرتا ہو۔
ہماری مملکت خداداد کے قابل صد احترام وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے ''عید
میلاد!'' کے سلسلے میں تقریر کر تے ہوئے فرمایا ہے کہ'' اِسلام میں خلیفہ بھی قانون
سے بالاتر نہیں ہے!''بجا و درست ۔ لیکن صاحبو! یہ صرف لفاّظی ہے اِ س کے سوا کچھ
اَور نہیں ہے۔وزیر اعظم ہوں یا ان کے دیگر ساتھی' چاہے وزیر ہوں یا مشیر ، یا پھر خود
کو قانون دان کہلانے والے ہوں، کیا وہ عملی طور پر ان الفاظ سے روگرداں نہیں ہیں؟ ۔یہ
سوال ،ہر پاکستانی شہری خود سے کرے اور جواب بھی خود کو دے لے۔ پھر کوئی
فیصلہ کرے کہ کیا تماشا اِس مملکت خداداد میں لگا ہوا ہے؟ ۔تماش بین ہیں ہم تو تماشا
دیکھ رہے ہیں اسی طرح جیسا باقیؔ صدیقی نے کہا ہے:
ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دِکھاتا ہے زمانا دیکھو
مملکت کا سربراہ قانونی عدالت کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ صرف آئین اور قانون کی
کتابوں میں تو لکھا ہوا ملتا ہے۔لیکن مملکت خداداد میں تو پچھلے تقریباً 66 برسوں میں
اِس کا عملی نفاذ د کہیں سے کہیں تک کم از کم مجھے تودِ کھائی نہیں دیا۔ پاکستان کی
عدالت عظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے سامنے ہی نہیں بلکہ ٹی۔وی پروگراموں میں
صدر کے کسی بھی حمایتی نے یہ نہیں کہا کہ وہ عدالت کو جواب دہ ہیں یا وہ کسی بھی
معاملے میں عدالت کے احکامات کی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔ یہی کہا گیا اور مملکت
کے لاچار و بے کس عوام کے سامنے یہ تصویر پیش کی گئی کہ صدر مملکت تو دیوتاؤں
کی طرح پوجنے کے قابل ہیں وہ کسی بھی قانون، کسی بھی قانونی عدالت کے احکامات
یا کسی بھی روایت کے پابند نہیں بلکہ ان سب سے ماورا ہے۔بڑے بڑے بقلم خود قانون
دان مثلاً چودھری اعتزاز احسن ، عاصمہ جہانگیر، سید محمد ظفر ہوں یا حکومتی وکیل
ہوں سب نے وزیر اعظم کے مندرجہ بالا قول کو نہیں مانا ہے اور نہ مان سکتے ہیں،
کیوں کہ ہمارے مقتدر حلقوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجیدو فرقان حمید
کو ''کتاب ِ قانون'' نہیں تسلیم کرتے!!! جس دِن انھوں نے اس کتاب کو ''کتابِ قانون'' مان
لیا ،اُس دِن سے اُن کی من مانی نہیں چل سکے گی، ان کی آمدنی ختم ہوجائے گی اور ان
کے جائز و ناجائز مفادات پر ضربِ کاری لگے گی۔ صاحبو ! یہ تماشا اب ختم ہوجانا
چاہیے کہ مسلمانوں کے اِس ملک میں ہمارے زخموں پر اس طرح نمک چھڑکنا بند ہونا
چاہیے۔ زیادہ بہتر اور مفید ہوگا کہ مقتدر ان وقت ایسے الفاظ نہ استعمال کریں جن پر نہ ان
کو یقین ہے اور نہ وہ ان الفاظ کے مطابق عمل پیرا ہیں۔
مغربی دنیا سے مرعوب اذہان اور ان کے گماشتوں کو جمہوری اقدار ،روایات کا ذکر
کرنے کا بہت شوق ہی نہیں بلکہ ہیضہ ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے انھیں جمہوری اقدار اور
روایات یاد آجاتی ہیں اوراُس وقت یاد آتی ہیں کہ جب ان کے مفادات کو زک پہنچ رہی
ہوتی ہے یا انھیں جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ لیکن روم کی جمہوری روایت انھیں یاد نہیں آتی
کہ سربراہِ ریاست کا انتخاب صرف ایک سال کے لیے ہوتا تھا اور آئینی اور قانونی طور
پر سربراہ مملکت جسے کونسل (Consul)کہا جاتا تھا وہ روم کی شہری حدود میں مسلح
ہوکر نہ تو خود پھر سکتا تھا نہ اس کے ساتھ کوئی ملازم یا خادم۔ البتہ جن دِنوں رومی
سینیٹ کا اجلاس ہورہا ہوتا تھا تو جب گھر سے نکلتا تو اُس کے آگے بارہ نقیب چلتے تھے
، جس سے یہ معلوم ہوجاتا کہ کونسل جارہا ہے۔یا وہ پیدل ہوتا تھا یا پالکی میں سوار ہوتا
تھا۔ اُس کے آگے پیچھے دو چار سو موٹروں میں ہتھیار تانے ہوئے پولیس، رینجرز کے
جوان یا اُس کے ذاتی ملازم نہیں ہوتے تھے۔ کوئی راستا بند نہیں کیا جاتا تھا۔ آج جو کچھ
تماشا ہورہا ہے ، وہ کسی کو نظر نہیں آرہا، صدر مملکت ،وزیر اعظم یا کسی اور مقتدر
کی سواری کہیں جارہی ہے تو گھنٹوں پہلے سے راستے بند کردیے جاتے ہیں، کتنی
اموات ہوچکی ہیں ، ایسے تمام افراد کے قتل کے ذِمہ دار ہماری پولیس، رینجرز، بقلم خود
حفاظتی مشیر (Security Expert)اور مقتدران خود ہیں اور اِس دنیا میں تو نہیں لیکن
روزِ جزا ، وہ سب ربّ ذوالجلال کو جواب دہ ہوں گے، تیاری کرلیں اُس دِن کی! جب
مقتدران کی وکالت کے لیے نہ تو شریف الدین پیرزادہ ہوں گے نہ عاصمہ جہانگیر، نہ
چودھری اعتزاز احسن ہوں کے اور نہ سیّد محمد ظفر یا وسیم سجاد ۔اُس دِن تو اﷲ کے
رسول علیہ الصلوٰۃ واسلام نے جو فرمایا ہے وہی کیفیت ہوگی کہ ہر شخص کہہ رہا ہو گا
: نفسی، نفسی!
روم کی یہ روایت بھی ان بقلم خود جمہوریت کے دل دادگان کو یاد نہیں آتی کہ روم کے
اُس بطل عظیم کو جس نے انتہائی کم عمری میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا کہ وہ روم کا
حکمران بھی منتخب ہوا تھا اور رومی افواج کا سربراہ تھا اور اس ہی کی قیادت میں روم
نے قرطاجنہ (کارتھیج Carthage) کو فتح کیا، شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور
صحیح معنوں میں رومی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی کہ بحر متوسط کے دونوں جانب
کوئی قوم یا ملک ایسا نہیں باقی بچا تھا جو رومیوں کی بالادستی کی مزاحمت کر سکتا۔
جب روم کی عدالت سے اُس کے خلاف سمن جاری ہوئے کہ وہ پیش ہواور جواب دے کہ
اُس نے اور اس کے بھائی نے بدعنوانی کی ہے اور اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
اس وقت وہ روم سے کچھ فاصلے پر اپنی زرعی زمینوں پر تھا ، جواب میں اُس نے کسی
استثنا کا حوالہ نہیں دیا ، کسی طور اورطریق سے یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کی کہ
وہ اور اس کا بھائی ماورائے قانون ہیں' صرف یہ کہا کہ میں چند روز بعد روم پہنچ کر
عدالت میں جواب دہی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس کا نام تھا پبلیس کارنیلیس اسکیپیو
افریقانس(P. Cornelius Scipio Africanus)۔ صاحبو! ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔
کوئی بھی شخصیت ہو ،کیسے ہی کارنامے اُس نے انجام دیے ہوں، وہ بہر صورت جواب
دہ ہے۔ اگر جواب دہی نہیں ہوگی تو بالآخر ہمارے حصّے میں صرف ناکامی ہی نہیں بلکہ
بربادی لکھ دی گئی ہے۔
حاکم وقت عدالت کو جواب دہ ہے یا نہیں اِس کے لیے بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ خلافت
راشدہ کے دوران ہونے والے واقعات کا علم تو مسلمانوں کو ہے اور ان کا ذِکر اکثر و
بیشتر ہوتا ہی رہتا ہے، تو ان واقعات کو تو میں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اندلس میں اموی
بادشاہوں کے دور کا ایک واقعہ جو کتب تواریخ میں مذکور ہے وہ بیان کردیتا ہوں۔
واقعہ کچھ اِس طرح ہے کہ قرطبہ کے قاضی ابن ابی عامر کے سامنے ایک ضعیفہ نے
درخواست پیش کی کہ اُس کے ساتھ ظلم ہوا ہے کہ اُس کا جھونپڑا کم قیمت پر اُس سے
خرید اگیا اور قرطبہ میں تعمیر ہونے والے محل میں شامل کردیا گیا۔ قاضی نے تعمیرات
کے نگران کے ساتھ ساتھ سلطانِ وقت ، حکم ثانی کو عدالت میں حاضر ہو نے کا حکم دیا۔
دونوں حاضر ہوگئے۔ مقدمہ شروع ہوا تو تعمیرات کے نگران کے متعلق درخواست گزار
نے کہا کہ اِس نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی زمین بیچ دوں، میں نے انکار کردیا تو اس
نے رقم بڑھا دی اور اس کے اصرار کی بنا پر میں نے یہ زمین فروخت کردی، مجھے تو
نہیں بتایاتھا کہ یہ زمین حاکمِ وقت کے لیے خریدی جارہی ہے؟ تعمیرات کے نگران نے
اعتراف کیا کہ ہاں اُس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ زمین ، سلطان کے قصر کے لیے خریدی
جارہی ہے۔حاکم ِ وقت سے پوچھا گیا تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے تو تمام ذمہ داری
تعمیراتی نگران کے سپرد کردی تھی اور وہی تمام معاملات کو دیکھتا رہا ہے، مجھے
کچھ نہیں معلوم! قاضی نے کہا کہ نہیں آپ ہی ذِمہ دار ہیں کیونکہ آپ حاکم وقت ہیںچونکہ
اِس ضعیفہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اِس لیے اس کی زمین اس کو واپس کردی جائے اور
جتنا حصّہ بھی تعمیر ہو اُسے گرادیا جائے۔حاکمِ وقت پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ کوئی
مداوا ہے یا نہیں ۔ ابن ابی عامر نے کہا کہ آپ اِس ضعیفہ کو راضی کرلیں تو مجھے کوئی
اعتراض نہیں۔حکم ثانی نے اُس ضعیفہ سے دوسرے کمرے میں جاکر بات چیت کی اور
جب واپس آئے تو اُس ضعیفہ نے قاضی سے کہا کہ مجھے اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قاضی نے یہ نہیں پوچھا کہ تمہیں کتنی رقم ملی ہے بلکہ یہ پوچھا کہ اﷲ کو حاضر و
ناظر جان کر یہ بتاؤ کہ تم پر حاکم وقت کی جانب سے کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا گیا۔ اُس نے
جواب میں کہا کہ نہیں بلکہ میں اس رقم سے جو حاکم وقت نے مجھے دی ہے اُس سے
پوری طرح مطمئن ہوں۔ مقدمہ خارج ہوگیا۔ اب نہ تو کوئی حکم ثانی ہے اور شاید نہ کوئی
محمد ابن ابی عامر (المنصور باﷲ) !
اب اِس دور کا واقعہ بھی سن لیجیے۔ یہ سنی سنائی نہیں بلکہ اپنی بیتی لکھ رہا
ہوں۔۱۹۸۷ء میں اپنی ملازمت کی وجہ سے میں سنگاپور میں تھا۔ کمپنی کے مالکان کے
کہنے کے مطابق جب وہاں ایک دفتر کا بندوبست کرلیا تو میں نے یہ کہا کہ اگر یہاں کچھ
لوگوں کو مستقل طور پر رہنا ہے تو ہوٹل کے اخراجات تو بہت زیادہ ہوجائیں گے اس لیے
بہتر ہوگا کہ ہم کوئی فلیٹ کرایے پر لے لیں تاکہ اخراجات کم سے کم ہوسکیں۔ مالکان نے
اجازت دے دی تو ایک فلیٹ کرایے پر لے لیا اور ہفتہ کی صبح کو سامان وغیرہ اُٹھایا
اور ہوٹل کو خیر باد کہا ، فلیٹ میں چلے گئے۔ پیر کے دِن فون پر ہمارے ایک مقامی
چینی کاروباری نے پوچھا کہ تم لوگ ہفتہ اور اتوار کو کہاں تھے ، میں ہوٹل میں فون کرتا
رہا اور مجھے یہ جواب دیا گیا کہ تم لوگ ہوٹل چھوڑ کر چلے گئے ہو۔اُسے بتایا کہ فلیٹ
کرایہ پر لے لیا اور اب وہاں مقیم ہیں۔ اس کے پوچھنے پر اسے فلیٹ کا فون نمبراور
علاقہ بتادیا۔ کہنے لگا کہ تمہیں پورے سنگاپور میں اِس سے زیادہ کوئی محفوظ علاقہ
نہیں مل سکتا۔میں حیران ہوا ،پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ایک گلی چھوڑ کر سنگاپور کے
وزیر اعظم ڈاکٹر لی کوان یو (Dr. Lee Kuan Yu)کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ کچھ
دِنوں بعد رات کے وقت میں نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا کہ کون سی عمارت ہے ،
یقین کیجیے میں اندازہ نہیں لگا سکا کہ کون سی عمارت میں سنگاپوری وزیر اعظم قیام
پذیر ہیں۔ کہیں پر نہ تو سرکاری جھنڈا لگا نظر آیا اور نہ پولیس یا رینجرز کی فوج ظفر
موج تھی۔ کسی مقامی باشندے سے پوچھنے کا حوصلہ نہیں پڑا۔ کچھ دِن بعد دفتر سے
نکلتے نکلتے شام کے چھے یا ساڑھے چھے بج گئے ، ٹیکسی والے کو بتایا کہ فلاں جگہ
جانا ہے تو اُس نے انکار کردیا۔ دوسرے پھر تیسرے ڈرائیور نے بھی یہی جواب دیا تو
پریشان ہوا ۔خیر قصّہ مختصر ایک ٹیکسی والے نے ہامی بھرلی تو بیٹھ گئے۔وہ کچھ
باتونی تھا ۔میں نے اُسے پورا واقعہ بتایا کہ اُس سے پہلے تمام ٹیکسی والوں نے انکار
کردیا ، آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ اُس نے کہا کہ ایک گلی چھوڑ کر سنگاپوری وزیر
اعظم کی قیام گاہ ہے ، کبھی کبھی ٹیکسی والوں سے سوال جواب کرلیا جاتا ہے ، اِس لیے
منع کیا ہوگا۔ اُس سے پوچھا کہ تم نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ دیکھی ہے ،کہنے لگا
ہاں، آپ کو دکھادوں گا۔ ایک گلی میں اُس نے گاڑی موڑی اور ایک عمارت کی جانب
اشارہ کردیا، جس پر کوئی جھنڈا نہیں تھا کوئی محافظ نہیں تھا۔ مجھ سے کبھی کسی پولیس
والے نے چاہے کتنی ہی رات گئے میں اپنے فلیٹ پر واپس آیا، روک کر یہ نہیں پوچھا کہ
تم کون ہو؟ کیا کرتے ہو؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟۔ مملکت خداداد میں کیا ہوتا رہا اور کیا
ہورہا ہے ، اس کے متعلق لکھنا بے کار ہے۔
صاحبو! تماشا تو تماشا ہی ہے ، دیکھتے رہے اور دیکھ رہے ہیں۔کبھی کبھی لکھتے ہوئے
ڈر تا بھی ہوں کہ کہیں میری صحیح بات بھی کسی کو بہت زیادہ بری نہ لگ جائے اور
جیسا کہ مرزا صائب ؔنے کہا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سچ بولنے کی وجہ سے
تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ، کیونکہ جیسے ہی سچ بولا تو بولنے والے کو دار پر لٹکادیاجاتا
ہے۔ اصل فارسی شعر ، آپ کی نذرہے :
گفتارِ راست باعثِ آزار می شود
چوں حرفِ حق بلندشود،دار می شود
__._,_.___
Reply via web post | Reply to sender | Reply to group | Start a New Topic | Messages in this topic (1) |
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment