انتقام کا جغرافیہ؟
شاہنواز فاروقی
اقبال نے کہا تھا
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اکثر لوگ غلامی کو سیاسی اور معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں لیکن اقبال نے اس شعر میں بتایا ہے کہ غلامی اتنی خوفناک چیز ہے کہ وہ افراد کیا قوموں کے ضمیر کو بدل ڈالتی ہے۔ یہاں تک کہ غلاموں کو اپنی ہر چیز بری نظر آنے لگتی
ہے اور ''آقائوں'' کی ہر شے میں انہیں خوبیاں اور حسن و جمال سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو غلامی ''قوموں'' کے لیے اتنی خطرناک ہے وہ ''افراد'' کے لیے کتنی ہولناک ہوگی۔ تاریخ عالم کا تجربہ
بتاتا ہے کہ بعض افراد غلامی سے اتنا مرعوب ہوجاتے ہیں وہ اپنی خودی ہی کھودیتے ہیں اور کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ اس کی کلاسیکل مثال سرسید ہیں۔ سرسید مغرب سے اتنا مرعوب ہوئے کہ انہوں نے مغربی
تہذیب کے زیر اثر مسلمانوں کے پورے علم تفسیر کو مسترد کردیا۔ انہوں نے حدیث کا انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنت و دوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ فرشتے دراصل انسان کی باطنی قوتیں
ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کے اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی قرار دیا۔ انہیں تمام مشرقی علوم ''زوال'' کی علامت نظر آنے لگے اور ''مغربی علوم'' میں انہیں عروج ہی عروج دکھائی دینے لگا۔ لیکن سرسید ایک ''فرد''
نہیں تھے۔ سرسید ایک ''ذہنیت'' ہیں۔ وہ ذہنیت جو بعض لوگوں میں صرف غلامی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ سرسید غلط تھے مگر وہ چھوٹے آدمی نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی غلط فکر کی بنیاد پر تحریروں کا انبار لگا
دیا۔ لیکن سوچا جاسکتا ہے کہ اگر سرسید جیسے بڑے لوگوں کا غلامی کے نتیجے میں یہ حال ہوسکتا ہے تو سرسید سے چھوٹے لوگوں کا غلامی کیا حشر کرسکتی ہے؟ اس حشر کی ایک تصویر رفیعہ زکریا ہیں۔ وہ امریکا میں وکیل ہیں۔
constitutional Law اور سیاسی فلسفے کی استاد ہیں اور پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں کالم لکھتی ہیں۔ انہوں نے 19 ستمبر 2012 ء کے ڈان میں اسلام اور رسول اکرمؐ کے خلاف امریکہ میں
بننے والی فلم Innocence of Muslims کی عجیب و غریب توجیہہ کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فلم کا خالق 55 سالہ نکولا بیسلی مصر کا کوپسٹک کرسچن ہے۔ وہ کبھی مصر میں رہائش پذیر تھا مگر مصر میں
کاپسٹک عیسائیوں کے ساتھ امتیازی سلوک نے اسے مصر چھوڑنے اور امریکہ میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ رفیعہ زکریا نے لکھا ہے کہ مصر کے 19 ویں صدی کے ایک قانون کی وجہ سے کوپسٹک کرسچن
اپنے لیے نیا چرچ تعمیر نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ پہلے سے موجود گرجوں کی مرمت بھی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کوپسٹک عیسائیوں کی لڑکیوں کے اغواء کے واقعات ہوتے ہیں اور ان لڑکیوں کو جنسی
زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رفیعہ کے بقول کوپسٹک عیسائیوں کو مصر میں سماجی اور ثقافتی امتیاز کا بھی سامنا ہے۔ رفیعہ نے لکھا ہے کہ نکولا بیسلی مذہبی امتیاز کے زخم لے کر امریکا پہنچا اور اس نے امریکا میں دستیاب آزادی
کو استعمال کرتے ہوئے مقامی لوگوں کی مدد سے ایک فلم بنا ڈالی۔ رفیعہ کے اس کالم کا لب لباب یہ ہے کہ اگر مسلم اپنے ملکوں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ براسلوک کریں گے تو ان اقلیتوں کے لوگ موقع ملتے ہی وہی
کچھ کریں گے جو نکولا بیسلی نے کیا۔ اس کی ایک مثال انہوں نے پاکستان کے حوالے سے بھی پیش کی ہے کہا کہ چونکہ پاکستان میں آباد ہندوئوں کے ساتھ برا سلوک ہورہا ہے اس لیے وہ پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں اور
بھارت میں آباد ہورہے ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو رفیعہ زکریا نے اس کالم میں پوری تاریخ کو مسخ کردیا ہے اور حقائق کے میدان میں الٹی گنا بہادی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول اکرمؐ کی رسالت کا انکار کیا اور کافروں اور
مشرکوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں تو کیا مسلمانوں نے انہیں ''مذہبی امتیاز'' کا نشانہ بنایا ہوا تھا اور یہ تمام انتقام کے جغرافیے میں کھڑے ہوکر کلام کررہے تھے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ پوپ
اربن دوئم نے جب معاذ اللہ اسلام کو شیطانی مذہب قرار دے کر عیسائی دنیا کو صلیبی جنگوں کی ابتداء کرنے کی دعوت دی تو کیا پوپ اربن دوئم بھی کسی ''مذہبی امتیاز'' کی روشنی میں ایسا کررہا تھا؟ رفیعہ زکریا کو اس سوال
کا جواب بھی دینا چاہیے کہ یورپی طاقتیں جب پوری مسلم دنیا پر قابض ہوئیں تو کیا ان کا قبضہ بھی مسلمانوں کے کسی ''مذہبی امتیاز'' کا ''نتیجہ'' تھا؟ یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ امریکا کے سابق صدر جارج بش نے کہا کہ
صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ انہوں نے یہ کہا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ امریکا کی جان ہاپکنگ یونیورسٹی کے مطابق اس جارحیت سے ایک لاکھ براہ راست اور مزید پانچ
لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر ہلاک ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ بھی مسلمانوں کے کسی امتیازی سلوک کا ردعمل تھا۔ اگر نہیں تو رفیعہ زکریا کو تاریخ کے اتنے بڑے بڑے واقعات میں سے کچھ بھی یاد نہیں؟ انہیں
مصر میں چند کاپسٹک لڑکیوں کا اغواء ہونا تو ''قابل ذکر'' نظر آتا ہے مگر بوسنیا ہرزیگووینا' کشمیر اور میانمار میں ہزاروں مسلم خواتین کا اغواء اور بے حرمتی کا ایک فیصد بھی انہیں یاد نہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں
نے تاریخ میں مغرب کے ہاتھوں اتنے بڑے بڑے مظالم سہنے کے باوجود ان کے خلاف ''جوش انتقام'' میں کیا کیا؟ مسلمان انبیاء و مرسلین کے خلاف کچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ایسا کریں گے تو ان کا ایمان
جائے گا۔ لیکن مسلمانوں نے تو پوپ اربن دوئم اور نوآبادیاتی دور ایجاد کرنے والوں کے خلاف بھی کچھ نہیں کیا۔ نہ کوئی نفرت انگیز کتاب لکھی نہ کوئی نفرت انگیز فلم بنائی حالانکہ اگر رفیعہ زکریا کی دلیل کو تسلیم کرلیا
جائے تو مسلمانوں کو اب تک عیسائیوں' یہودیوں' ہندوئوں اور بدھوں کے خلاف ہزاروں نفرت انگیز کتابیں اور فلمیں بنالینی چاہیے تھیں۔ مگر مسلمان تاریخ کے بدتری تجربات کو جذب کیے بیٹھے ہیں اور مسلمانوں کا
دین انہیں یہی سکھاتا ہے' ایسا نہ ہوتا تو مسلمان ایک ہزار سال تک صلیبی جنگوں کا ''انتقام'' لیتے رہتے۔ بوسنیا میں مسلمانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا کہ اس کی بنیاد پر آرتھوڈوکس عیسائیوں کے خلاف کم از
کم تین سو سال کے انتقام کی بنیاد استوار کی جاسکتی تھی۔ عراق میں کسی جواز کے بغیر چھ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام مسلمانوں کو کم از کم پانچ سو سال تک امریکا سے انتقام لینے پر اکسا سکتا ہے۔
بلاشبہ مسلم معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے اکّا دکّا واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ان کے لیے کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم معاشرے مذہبی اقلیتوں کی مذہبی آزادی اور ان کی جان و مال اور
عزت و آبرو کے تحفظ کے پابند ہیں یہ پابندی خود ان کا دین ان پر عائد کرتا ہے مگر مسلم معاشروں میں ہونے والے اکّا دکّا واقعات کو جس طرح رفیعہ زکریا نے ''داستان'' بنا کر پیش کیا ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔ دوسری
بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے اگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کررہے تو مذہبی اقلیتوں کے اراکین زیادہ مسلمانوں کے خلاف جوش انتقام کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن یہاں تو نکولابیسلی خود اسلام اور رسول
اکرمؐ پر حملہ آور ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کا کیا اخلاقی اور علمی جواز ہے؟ کیا اسلام اور رسول اکرمؐ کی کسی تعلیم سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف طرز عمل کا کوئی جواز فراہم ہورہا ہے؟ کیا اسلام اور مسلمان اور رسول
اکرمؐ اور مسلمان ایک ہی چیز ہیں؟ رفیعہ زکریا کو خوش کرنے کے لیے ان کی اس بات کو تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بعض مسلم معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے لیکن مسلم معاشروں
میں مذہبی اقلیتیں کتنی بڑی ہیں؟ پاکستان میں ہندوئوں کی مجموعی تعداد پانچ چھ لاکھ ہوگی۔ لیکن بھارت میں تو 20کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اب مسئلے کی نوعیت یہ بنی کہ پاکستان نے چھ لاکھ ہندوئوں کو اور بھارت نے 20
کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں مثالوں میں زیادہ بڑا مجرم کون ہے؟ پاکستان یا بھارت؟ مصر میں کوپسٹک عیسائیوں کی تعداد 15لاکھ ہے اور مغرب کے سب سے لبرل ملک فرانس میں
65 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور فرانس ان مسلمانوںکو ''اسکارف'' تک اوڑھنے کی ''آزادی'' دینے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مصر کا ظلم زیادہ بڑا ہے یا فرانس کا ظلم زیادہ بڑا ہے؟ رفیعہ زکریا اور ان جیسے لوگوں
کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کہیں کبھی مسلمانوں کی حالت زار نظر نہیں آتی اور اگر آتی بھی ہے تو وہ مسلمانوں کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں مگر انہیں مسلم معاشروں میں چھوٹی چھوٹی غیرمسلم اقلیتیں خوب نظر آتی ہیں
اور وہ ان کی حالت زار کے بارے میں یہ خیال نہیں رکھتے کہ یہ لوگ کبھی خود اپنی حالت کے ذمے دار ہوسکتے ہیں؟ یہ صورتحال انصاف کے ہر تقاضے کے خلاف ہے اور اپنی خودی کو کھو دینے کا نتیجہ ہے۔
__._,_.___
Reply via web post | Reply to sender | Reply to group | Start a New Topic | Messages in this topic (1) |
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment