باني تحريک ريشمي رومال
شيخ الہند مولانا محمودحسن عثماني نوراللہ مرقدہ
حضرت شيخ الہند دارالعلوم ديوبندکے سب سے پہلے
شاگر دہيں. حضرت شيخ الہند رح کي پيدائش 1851 ء، 1268ھ ميں بريلي ميں ہوئي جہاں ان کے والد مولانا ذوالفقار علي سرکاري محکمہ تعليم سے وابستہ تھے،ابتدائي تعليم اپنے مشہور عالم چچا مولانا مہتاب علي مرحوم سے حاصل کي، قدروي اور شرح تہذيب پڑھ رہے تھے کہ دارالعلوم کا قيام عمل ميں آيا، آپ اس ميں داخل ہو گئے? 1286ھ ميں نصاب دارالعلوم کي تکميل کے بعد حضرت ناناتوي رح کي خدمت ميں رہ کر علم حديث کي تحصيل فرمائي، بعد ازاں فنون کي بعض اعلي کتابيں والد ماجد سے پڑھيں 1290ھ 1873ء ميں حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوي رح کے دست مبارک سے دستار فضيلت حاصل کي? زمانہ تعليم ہي ميں آپکا شمار حضرت نانوتوي رح کے ممتاز تلامذہ ميں ہوتا تھا،اور حضرت نانوتوي رح خاص طور پر شفقت فرماتے تھے،چنانچہ ان کي اعلي اور ذہني صلاحيتوں کے پيش نظر دارالعلوم کے مدرسي کے لئے اکابر کي نظر انتخاب ان کے اوپر پڑي اور 1874ء ،1291ھ ميں مدرس چہارم کے حيثيت سے آپ کا تقرر عمل ميں آيا، جس سے بتدريج ترقي پاکر1308ھ ، 1890ءميں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے
ظاہري علم و فضل کي طرح باطن بھي آراستہ تھا،1294ھ ، 1877ءميں اپنے استاد حضرت نانوتوي کي معيت ميں حج سے مشرف ہوئے ، مکہ مکرمہ ميں حضرت حاجي امداد اللہ مہاجر مکي قدس سرہ سے شرف بيعت حاصل کيا، اس سفر حج ميں علماءکا ايک بڑا قافلہ بن گياتھا جس ميں حضرت نانوتوي رح کے علاوہ حضرت مولانا رشيد احمد گنگوہي رح،حضرت مولانا محمد يعقوب نانوتوي رح حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوي رح، مولانا محمد منير نانوتوي رح، حکيم ضياءالدين رام پوري رح، مولانا احمد حسن کان پوري جيسے علمائے مشاہير شامل تھے ? قافلے کے جملہ حضرات کي تعداد سو کے قريب تھي، حضرت شيخ الہند رح کو حضرت حاجي امداداللہ مہاجرمکي رح سے خلافت بھي حاصل تھي دارالعلوم ميں صدارت تدريس کا مشاہرہ اس وقت 75 روپے تھا مگر آپ نے 50 روپے سے زيادہ کبھي قبول نہيں فرمائے،بقيہ 25 روپے دارالعلوم کے چندے ميں شامل فرماديتے تھے،آپ کي زبردست علمي شخصيت کے باعث طلباءکي تعداد200 سے بڑھ کر 600 تک پہنچ گئي تھي آپ کے زمانے ميں860 طلباءنے حديث نبوي سے فراغت حاصل کي حضرت شيخ الہند رح کے فيض تعليم نے حضرت مولانا سيد محمد انور شاہ کشميري رح، حضرت مولانا عبيداللہ سندھي رح، حضرت مولانا منصور انصاري رح، حضرت مولانا حسين احمدمدني رح، حضرت مولانا مفتي کفايت اللہ دہلوي رح، حضرت مولانا شبير احمد عثماني رح، حضرت مولانا سيد اصغر حسين ديوبندي رح، مولانا سيد فخر الدين احمد رح، حضرت مولانا محمد اعزاز علي امروہي رح، حضرت مولانا محمد ابراہيم بلياوي رح، حضرت مولانا سيد مناظر احسن گيلاني رح جيسے مشاہير اور نامور علماءکي جماعت تيار کي
حضرت شيخ الہند رح کے حلقہ درس کي خصوصيات کي نسبت مولانا مياں اصغر حسين رح نے لکھا ہے
"حلقہ درس کو ديکھ کر سلف صالحين و اکابر محدثين کے حلقہ حديث کا نقشہ نظروں ميں پھر جاتا تھا، قرآن و حديث حضرت کي زبان پر ھوتا اور ائمہ اربعہ کے مذاہب ازبر صحابہ و تابعين، فقہاءو مجتہدين کے اقوال محفوظ، تقرير ميں نہ گردن کي رگيں پھولتي تھيں اور نہ منہ ميں کف آتا تھا، نہ مغلق الفاظ سے تقرير کو جامع الغموض اوربھدي بناتے تھے،نہايت سبک اور سہل الفاظ بامحاورہ اردو ميں اس رواني اور جوش سے تقرير فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ دريا امنڈ رہا ہے، يہ کچھ مبالغہ نہيں ہے، ہزاروں ديکھنے والے موجود ہيں کہ وہي منحني اور منکسر المزاج ايک مشتِ استخوان، ضعيف الجثہ، مردِخدا جو نماز کي صفوں ميں ايک معمولي مسکين طالب علم معلوم ہوتا تھا مسند درس پر تقرير کے وقت يوں معلوم ہوتا تھا کہ ايک شير خدا ہے، جو قوت و شوکت کے ساتھ حق کا اعلان کر رہا ہے? آوازميں کرختگي آميز بلندي نہ تھي، ليکن مدرسہ کے دروازے تک بے تکلف قابل فہم آواز آتي تھي لہجے ميں تضع اور بناوٹ کا نام نہ تھا، ليکن خدا تعالي نے تقرير ميں اثر ديا تھا بات دل نشين ہو جاتي تھي اور سننے والا بھي يہ سمجھ کر اٹھتا تھا کہ جو فرما رہے ہيں حق ہے
بہت سے ذي استعداد اور ذہين وفطين طالب علم جو مختلف اساتذہ کي خدمتوں ميں استفادہ کرنے کے بعد حضرت کي خدمت ميں حاضر ہوتے اپنے شکوک و شبہات کے کافي جواب پانے کے بعد حضرت کي زبان سے آيات قرآنيہ اور احاديث نبويہ?کے معاني? اور مضامين عاليہ سن کر سرنياز خم کر کے معترف ہوتے کہ يہ علم کسي کو نہيں ہے اور ايسا محقق عالم دنيا ميں نہيں ہے
مسائل مختلف فيہا ميں ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ بلکہ ديگر مجتہدين کے مذاہب بھي بيان فرماتے اورمختصر طور سے دلائل بھي نقل کرتے ۔ دور کي مختلف المضامين احاديث جن کي طرف کبھي خيال بھي نہ جاتا تھا پيش کر کے اس طرح مدعا ثابت فرماتے کہ بات دل ميں اترتي چلي جاتي اور سامعين کا دل گواہي ديتا اور آنکھوں سے نظر آجاتا تھاکہ يہ ہي جانب حق ہے
باين ہمہ ائمہ اسلام کا ادب و احترام اور ان کے کمالات کا اعتراف حضرت کي تعليم کا ايک جز لاينفک ہو گيا تھا خود بھي ايسي ہي تقرير فرماتے اور صراحت سے ذہن نشين کراتے کہ مذاہب مجتہدين حق ہيں اور وہ سب مستدل بالکتاب والسنہ، ان کي تنقيص، موجب بدبختي اور سوءادب باعثِ خسران ہے
محدثين ميں امام بخاري رح اور ائمہ مجتہدين ميں امام ابوحنیفہ رح کے ساتھ خاص تعلق تھا?
مولانا عبيد اللہ سندھي رح لکھتے ہيں:" ميں نے حضرت شيخ الہندرح سے حضرت مولانا محمد قاسم رح کي حجة الاسلام پڑھي، کتاب پڑھتے ہوئے کبھي کبھي يوں محسوس کرتا کہ جيسے علم اور ايمان ميرے دل ميں اوپر سے نازل ہو رہا ہے"
ہندوستان کي آزادي کے ليے تحريک ريشمي رومال کاآغازکيامگرمخبريوں کي وجہ سے وہ منصوبہ کامياب نہ ہوسکااوراسي پاداش ميں جزيرہ مالٹاميں قيد کرديئے گئے وہيں آپ نے قرآن کريم کاترجمہ کياجوآج تک مقبول ترين تراجم ميں شمارہے مالٹاميں سواتين سال قيدوبندکي صعوبتيں برداشت کرنے کے آپ کورہاکردياگيااور20 رمضان المبارک 1338ھ مطابق 1920ءساحل بمبئي پرقدم رنجہ فرماياجگہ جگہ شانداراستقبال کياگياديوبندپہنچ کرسب سے پہلے دارالعلوم ميں تشريف لائے بعدازاں اپنے مکان تشريف لے گئے
ہندوستان تشريف لانے کے بعد حضرت شيخ الہند رح تحريک خلافت ميں شريک ہو گئے آپ نے برطانوي حکومت کے خلاف ترکِ موالات کا فتوي ديا جس سے ملک ميں زبردست ہيجان پيدا ہو گيا، حتي کہ مسلم يونيورسٹي علي گڑھ تک کو لوگ بند کرنے پر آمادہ ہو گئے، اس زمانے ميں شيخ الہندرح سخت عليل تھے، ليکن اسي حالت ميں آپ علي گڑھ تشريف لے گئے اور جامعہ مليہ اسلاميہ (جو بعد کو دہلي منتقل ہو گئي) کا افتتاح 29 اکتوبر 1920ء(16صفر 1339ھ) کو علي گڑھ کي جامع مسجد ميں کيا، اس موقع پر آپ نے جو اہم سياسي خطبہ ديا تھا وہ ہندوستان کي سياسي تاريخ ميں ہميشہ ياد گار رہے گا
حضرت شيخ الہندرح کا ايک نماياں کارنامہ يہ ہے کہ ان کي مساعي سے علي گڑھ اور ديوبند ايک پليٹ فارم پر نظر آنے لگے، اور علي گڑھ اور ديوبند کے مابين جو بعد تھا وہ بڑي حد تک کم ہوگيا، غرض کہ آپ علم وفضل اور زہد و تقوي کے علاوہ سياست و تدبر ميں بھي کامل دستگاہ رکھتے تھے، اگر چہ مالٹا سے واپسي کے بعد صحت بگڑ چکي تھي اور قوي پيراني سالي کے باعث نہايت ضعيف ہو گئے تھے مگر بايں ہمہ آپ نے نہايت شدو مد کے ساتھ سياسي کاموں ميں حصہ ليا، طبيعت اس بار گراں کي متحمل نہ ہو سکي،اسي دوران ميں علي گڑھ کا سفر پيش آيا واپسي کے بعد جب حالت زيادہ تشويشناک ہو گئي تو بغرض علاج ڈاکٹر مختار احمد انصاري کے يہاں دہلي ليجايا گيا،حکيم اجمل خان بھي شريک علاج تھے، مگروقت موعود آچکاتھا 18 ربيع الاول 1339ھ( 30 نومبر 1920ء) کي صبح کو عازم ملکِ بقا ہوگئے
جنازہ ديو بند لايا گيا اور اگلے روز حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوي قدس سرہ کي قبر مبارک کے قريب يہ گجنينہ فضل و کمالات دنيا کي نظروں سے پوشيدہ ہو گيا
شاگردوں ميں بے شمار علماءو فضلاءکے علاوہ قرآن مجيد کا اردوترجمہ ،ادلہ کاملہ، ايضاح الادلہ، احسن القري، جہد المقل، الابواب والتراجم ،عظمت وحي اورحديث "لاايمان لمن لاامانة لہ "کي شرح اور مختلف فتاوي اور سياسي خطبات تصنيفي يادگارہيں حضرت مولانامحمديوسف لدھيانوي شہيدنے ان تصانيف کے مکمل تعارف پرايک جامع مقالہ تحريرکياہے جوحضرت مولانااحمدالرحمن سابق مہتمم جامعة العلوم الاسلاميہ علامہ بنوري ٹاون کے مقالات بنام "مقالات رحماني "ميں مندرج ہے جس کامطالعہ طلبہ حديث کے ليے بہت مفيدہے
تحرير:مولانامدثرجمال تونسوي
Regards
BazMi
Karachi-Pakistan
BazMi
Karachi-Pakistan
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment