Search This Blog

Tuesday, 31 July 2012

[Yaadein_Meri] Fw: Re: -|| T.P.W ||- نماز تراویح کی حقیقت(2)‏

 



--- On Sat, 7/28/12, Humayun Rasheed <humayunhere@yahoo.com> wrote:



جب آنکھوں پر عصبیت کی پٹی چڑھ جائے تو دن بھی رات لگنے لگتا ہے۔ شیعہ کا تو کیا ہی کہنا جنہوں نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گمراہ کہے بغیر نہیں چھوڑا۔
یہی فاروق حیدر علی زئی اعتراض کرتا ہے کہ 'قیام رمضان' کو ترجمہ میں تراویح لکھ دیا' اور آج ذرا اسی کا کیا ہوا ترجمہ دیکھیں۔ صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ کی تراویح والی روایت کا حصہ ہے؛
۔۔ فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل

اس کا ترجمہ علی زئی نے کیا ہے؛
لوگ جداجدا نماز نافلہء ماہ رمضان انجام دے رہے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نمازوں میں مشغول ہے عمر نے کہا میری رای یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا

 ذرا بتائیں؛
١- 'نماز نافلہء ماہ رمضان' کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ (یہ جواب ہے علی زئی کے اعتراض کا جب اس نے ترجمے میں موجود تراویح کے لفظ پر اعتراض کیا تھا
٢- حدیث میں واضح ہے کہ یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط یعنی (نماز پڑھنے والوں میں ایسا بھی تھا کہ) ایک نماز پڑھ رھا ہے اور ایک گروہ اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھ رھا ہے(یعنی گروہ اس کی اقتداء میں پڑھ رھا ہے)۔ یہ ترجمہ علی زئی صاحب کھا بھی گئے اور ہضم کرنے کی سعی میں ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کہیں تراویح کا صحابہ سے باجماعت پرھنا لوگوں کو معلوم نہ ہو جائے۔
ایسی تلبیس کرنے والے کی تحریر پڑھنا اسی کے گروہ کو مبارک ہو' جو حدیث کے ترجمے میں ایسے گمراہ کن کام کر سکتا ہے وہ کسی اور تحریر کا تو کیا ہی ترجمہ کرے گا۔

اہل سنت والجماعت کے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سے زائد جماعت کی بجائے ایک مسجد میں ایک جماعت قائم کی' بس یہی روایت میں ہے جسے رافضی کچھ بھی بنا دے۔

جن لوگوں کو اس ای میل میں شامل کیا گیا ہے اس کی وجہ ہے ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شائد علی زئی کی بات لاجواب ہوتی ہے' حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ جواب گروپ  پر بھیجا نہیں جاتا۔ ای میل کے ساتھ ایک فائل بھی اٹیچ کر دی گئی ہے جس میں دور نبوی علیہ السلام میں بھی تراویح کا ثبوت دیا گیا ہے۔


From: alizai alizai <alizai80@hotmail.com>
To:
Cc: MY Group <the-pakistan-world@yahoogroups.com>; "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>
Sent: Friday, July 27, 2012 7:57 PM
Subject: -|| T.P.W ||- نماز تراویح کی حقیقت(2)‏

 

نماز تراویح کی ایجاد ! مؤجد کون ؟

کسی بھی چیز کی حقیقت تک پہونچنے کیلیئے بھترین طریقہ یہی ہے کہ اسکی ایجاد وآغاز کی تفتیش کی جائے کہ یہ اسلام محمدی میں کب سے وارد ہوئی ؟ کیوں وارد ہوئی ؟ اور کسنے ایجاد کی ؟ اگرچہ نماز تراویح کا شمار ان بدعتوں میں سے ہے کہ جسکے بارے میں زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری میں نمازتراویح کی حقیقت مفصل درج ہے (عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عبد الرحمن بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمربن الخطاب لیلۃ فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال عمر انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل ثم ‏عزم فجمعھم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلۃ اخری والناس یصلون بصلاۃ قارئھم قال عمر نعمت البدعۃ ھذہ والتی ینامون عنھا افضل من التی نقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون اولہ)
ترجمہ : ابن شھاب نے عروۃ بن زبیر سے اسنے عبدالرحمن بن قاری سے روایت کی ہے کہ عبدالرحمن کا بیان ہےکہ میں ایک شب ماہ رمضان میں عمربن الخطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو دیکھا کہ لوگ جداجدا نماز نافلہء ماہ رمضان انجام دے رہے ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نمازوں میں مشغول ہے عمر نے کہا میری رای یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور کچھ عور و فکر کرنے کے بعد ابی بن کعب کی اقتداء میں سب کو جماعت کا حکم دیا۔ پھر اگلی شب عمر کے ساتھ مسجد کی روانہ ہوا تو دیکھا کہ لوگ جماعت کے ساتھ نافلہ نماز میں مشغول ہیں تب عمر نے کہا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور وہ لوگ جو آرام سے سورہے ہیں وہ ان نمازگذاروں سے افضل ہیں (چونکہ وہ آخر شب میں نافلہ انجام دینگے جب کہ یہ اول شب میں تراویح پڑھ رہے ہیں)۔[16]
شرح : انی اری میری رائ یہ ہے اس جملے کا لغوی ترجمہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں لیکن اصطلاحی ترجمہ اسطرح ہوگا کہ میری نظر یہ ہے، میری رائی یہ ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ عمر ظاہر بظاہر اپنے نظریے اور اپنی رائی سے دین میں کمی و زیادتی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اسی حملہ کی تفسیر صاحب عمدۃ القاری نے صحیح بخاری کی شرح میں تحریر کی ہے کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ جناب عمر نے اپنے اجتھاد و رائی سے یہ فعل انجام دیا اور انکے استنباط کیلیے تین دلیلیں ہوسکتی ہیں۔(ہم قارئین کے حضور تینوں دلیلیں مع جوابات پیش کررہے ہیں)
دلیل اول : پیغمبر اسلام کی رضایت کہ چند روز لوگوں نے آپکی اقتداء میں نماز تراویح انجام دی!
جواب : یہ روایت اور اسکی حقیقت انشاءاللہ آئندہ آئےگی جبکہ واضح رہے کہ اگر پیغمبراکرم اس کام کو انجام دیتے تو عمر کبھی بھی اسکو بدعت نہ کہتے ، بدعت کہنا بتارہا ہےکہ یہ کام اس سے پہلے اسلام میں انجام ہی نہیں دیا گیا۔

دلیل دوم : استحسان ، کہ یہ کام عمر کو اچھا لگا لھذا انجام دینے کا حکم دے دیا!
جواب : شریعت اسلام میں استحسان حجت نہیں ہے اور استحسان بھی ہرکس وناکس کا کہ جو بھی اچھا لگے دین میں داخل کرلیا جائے اور جو برا لگے اسکو دین سے نکال دیا جائے تو پھر دین کی کیا حالت ہوگی یہ لمحۂ فکریہ ہے! جبکہ قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہے کہ ہر چیز جو تمہیں اچھی لگے اسکے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں بھی اچھی ہو بلکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو آپکو اچھی لگتی ہیں لیکن آپ کے لیے اچھی نہیں ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ آپ کو بری لگتی ہیں جبکہ آپ کے لیے اچھی ہیں عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم
دلیل سوم : قیاس ، چونکہ واجب نمازوں میں جماعت جائز ہے بلکہ مستحب ہے لھذا نافلہ نماز میں بھی جماعت ہونی چاہیے!
جواب : قیاس دین مقدس اسلام میں باطل ہے ، اول من قاس فھو ابلیس۔ نیز یہ قیاس مع الفارق ہے اس لیے کہ واجب نمازوں میں جماعت کی تشریع موجود ہے نافلہ نمازوں میں جماعت کی تشریع تو کجا بلکہ انکار و تحریم ہے سوائے بعض موارد کے کہ جو روایات کی رو سے استثناء ہیں ۔
ثم خرجت معہ لیلۃ اخری جب دوسری رات عمر کے ساتھ مسجد کی طرف کو نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے ساتھ نمازتراویح میں مشغول ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز تراویح عمر نے نہ پڑھی ہے اور نہ پڑھائی ہے جبکہ خلیفہ وقت ہونے کی صورت میں اور انکے حضور و صحت و سلامتی کے دوران کسی دوسرے کا امامت کرنا یہ خود ذہن مسلمین میں بہت سے خطور پیدا کرتاہے ۔
نعمت البدعۃ ھذہ یعنی یہ کام بدعت ہے سنت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے پہلے کسی نے انجام دیا۔
والتی ینامون عنھا افضل من التی یقومون جناب عمر کی نظر میں نمازتراویح کو انجام دینے والوں سے انجام نہ دینے والے بہتر و افضل ہیں، جبکہ اس فعل خود ہی موجد بھی ہیں۔
اور اسکے علاوہ تمام ہی محدثین و مؤرخین و فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نمازتراویح کی ایجاد عمر کے ذریعہ سے ہوئی مثلا علامہ ابن سعد الطبقات الکبری میں عمر کا زندگینامہ تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو تراویح میں تبدیل کیا لوگوں کو تراویح کے لیے جمع کیا اور دوسرے شہروں میں تراویح کے سلسلے میں نامے ارسال کیے یہ چودہ ہجری کے ماہ رمضان کی بات ہے۔[17]
علامہ ابن عبدالبر عمر کی تاریخ زندگی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر ہی نے پہلی مرتبہ نمازتراویح کے لیے لوگوں کو جمع کیا۔[18]
علامہ قلقشندی ان چیزوں کو تحریر کرتے ہوئے کہ جنکی ابتداء عمر نے کی اور اس سے پہلے اسلام میں موجود نہ تھیں لکھتے ہیں کہ اولیات عمر میں سےایک ماہ رمضان کی تراویح ہے کہ عمر نے لوگوں کو ایک امام کی اقتداء میں نمازتراویح کیلیے جمع کیااس وقت چودہ ہجری تھی۔[19]
صاحب محاضرات الاوائل تحریر کرتے ہیں نافلۂ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا عمر کی ایجادات میں سے ہے ۔[20]
علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں کہ عمر ہی وہ پہلے ہیں کہ جنہوں نے نمازتراویح کی ایجاد ڈالی اور اسکو بدعت کا نام دیا چونکہ لفظ بدعت اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کام اس سے پہلے انجام نہیں دیا گیا۔[21]
علامہ کحلانی تحریر کرتے ہیں عمر نے نمازتراویح کی بنیاد ڈالی اور اسکو بدعت کہا۔[22]
بہر حال خود علماء اھل تسنن کے اعتراف کے مطابق نمازتراویح بدعت ہے اور یہ بعد میں جناب عمر کے ذریعہ اسلام میں وارد ہوئی ہے لھذا اب دیکھنا یہ ہے کہ خود بدعت کسکو کہتے ہیں اور بدعت کا اسلام میں کیا مقام ہے ؟


[16] - صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265
[17] - الطبقات الکبری، ج3، ص213
[18] - الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص236، حرف العین باب عمر
-[19] مآثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، ج3، ص337، الباب السابع فی ذکر الاوائل المنسوبۃ الی الخلفاء
[20] - محاضرات الاوائل، ص149
[21] - شرح الزرقانی علی المؤطا الامام مالک، ج1، ص358، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب1(الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان)
[22] - سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401

--------------------------------------------------------------
 
 
 

 

بدعت کی تعریف

باعتبار لغت : علامہ زبیدی نے تاج العروس میں علامہ فراھیدی نے کتاب العین میں علامہ راغب اصفہانی نے معجم مفردات میں علامہ ازھری نے تھذیب اللغہ میں علامہ ابن منظور نے لسان العرب میں علامہ جوھری نے صحاح اللغہ میں اور علامہ طریحی نے مجمع البحرین میں بلکہ تمام ہی لغویین نے بدعت کے ایک ہی معنی بیان کیے ہیں کہ(البدعۃ ھو الشیء الذی یبتکر و یخترع من دون مثال سابق ویبتداء بہ بعد ان لم یکن موجود من قبل) یعنی بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اسطرح ایجاد کرنا کہ وہ خود یا اسکی مثال و نظیر قبلا موجود نہ ہو۔[23]
اصطلاح شریعت میں بدعت کا مفھوم : علماء و بزرگان کی تصانیف و تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوے بدعت کا مفھوم شرع و شریعت کی اصطلاح میں اسطرح سامنے آتا ہے (ادخال ما لیس من الدین فی الدین) کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو دین میں سے نہ ہو اسکو اور واضح کرنے کیلیے مغنی لغوی کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی ایسی چیزکو دین میں داخل کرنا کہ جو نہ خود قبلا دین میں موجود ہو اور نہ اسکی مثال و نظیر موجود ہو اسکے ساتھ ساتھ بعض علماءنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ تطلق شرعا علی مقابل السنہ یعنی بدعت سنت کے مقابل کی ایک شی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شی مد مقابل ہوتی ہے اسکو خود اس شی میں داخل نہیں کیا جاسکتا لھذا بدعت کبھی بھی کسی بھی حال میں سنت واقع نہیں ہوسکتی ۔ اس صاف و شفاف بدعت کی تعریف کو دیکھتے ہوئے تراویح کی حقیقت خود سامنے آجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اہلسنت نے اسطرح کی بدعتوں کو شریعت کا لباس پنہانے کیلیے بدعت کی تقسیم حسنہ و قبیحہ سے کی ہے ایکن کیا واقعا بدعت قابل تقسیم ہے ؟


[23] - البدعۃ، ص133
------------------------------------------------------------------------------
 
 
 

کیا بدعت قابل تقسیم ہے ؟

بدعت باعتبار لغت ممکن ہے کہ تقسیم ہوجائے بلکہ انصافا عقلا بھی بدعت کی تقسیم ممکن ہے لیکن شرعا ؟ جبکہ اصطلاح شریعت میں بدعت سنت کے مقابل ایک شی ہے اور یہ جملہ البدعۃ تطلق علی مقابل السنۃ نشانگر ہے کہ بدعت کو تقسیم کرکے بدعت حسنہ کو شریعت میں داخل کرنا غیر معقول ہے چونکہ بدعت ولو حسنہ ہی کیوں نہ ہو لیکن سنت نہیں ہوسکتی اس مدعی پر محکم دلیل خود رسول اکرم کی وہ حدیث شریف ہے کہ جسکو اسلام کے تمام مکاتب فکر نے نقل کیا ہے کہ حضور کا ارشاد گرامی ہے (کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار) ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی راہی جہنم کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ بدعت کی کسی بھی قسم کا سنت میں داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس حقیقت کے بہت سے علماء اہلسنت بھی معتقد ہیں جیسے علامہ کحلانی اپنی کتاب سبل السلام میں رقمطراز ہیں کہ (قول عمر: نعم البدعۃ فلیس فی البدعۃ ما یمدح بل کل بدعۃ ضلالۃ) عمر کا قول کہ یہ اچھی بدعت ہے! جبکہ بدعت میں کوئی اچھائی نھیں پائی جاتی بلکہ ہر بدعت گمراھی ہے۔[24]
علامہ شاطبی کتاب الاعتصام میں لکھتے ہیں کہ بدعت کے سلسلے میں جتنی بھی احادیث پیغبراکرم(ص) سے منقول ہیں سب کی سب عام و مطلق ہیں اور لفظ کل کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جیسے کل بدعۃ ضلالۃ تو اگر بدعت کو تفسیم بھی کیا جائے توبھی اسکی ہر قسم ضلالت و گمراھی ہے لھذا بدعت کی کسی بھی قسم کو شریعت میں داخل نہیں کرسکتے اور پھر لکھتے ہیں کہ (انہ من باب مضادۃ الشارع و اطراح الشرع وکل ما کان بھذہ المثابۃ فمحال ان ینقسم الی حسن و قبح وان یکون منہ مایمدح و یذم) بدعت، شارع مقدس اسلام کی ضد ہے بدعت کو اپنانا گویا شریعت کو ترک کرنا ہے اور جو اس مقام پر ہو اسکی حسن و قبح اور اچھی و بری سے تقسیم محال و ناممکن ہے۔[25]
ابن رجب حنبلی تحریر کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) کا ارشادگرامی کل بدعۃ ضلالۃ ، بدعت کی تمام اقسام کو شامل ہے چونکہ اسمیں کسی چیز کو استثنا اور جدا نہیں کیاگیاہے بلکہ یہ قول جوامع حکم میں سے ہے کہ جس سے کوئی چیز خارج و علیحدہ نہیں ہوتی اور یہ ایک اصل عظیم ہے کہ جسمیں احکام و افعال دین کو تولا جاسکتاہے کہ ہر وہ چیز یہ جو بدعت ہے دین نہیں ہے بلکہ گمراھی و ضلالت ہے۔[26]
انکے علاوہ اور بھی بہت سے علماء اھل حل و عقد ہیں کہ جو یا تو اصلا تقسیم بدعت کے قائل نہیں ہیں یا تقسیم کے ساتھ بدعت کی ہر قسم کو گمراھی و ضلالت مانتے ہیں۔یہی بات معقول و قرین قیاس بھی نظر آتی ہے اسلئے کہ :
اولا : یہ قاعدہ کلی و اصلی عملی ہے کہ جو چیز شریعت میں بار بار بیان کی جائے مختلف حالات و زمان میں تکرار ہوتی رہے اور ہمیشہ عام و مطلق بیان ہو، کسی چیز کو کسی بھی وقت جدا و علیحدہ نہ کیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ شی اپنے اجزاء و اقسام کے ساتھ منظور ہے یہی حال بدعت کا ہے کہ مختلف اوقات و حالات میں متعدد مرتبہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا کل بدعۃ ضلالۃ اور کسی مرتبہ بھی تخصیص و تقیید نہ کی تو مقصد یہ ہوا کہ ہر بدعت گمراھی و ضلالت ہے۔
ثانیا: بدعت کو اگر حسنہ اور اچھا تسلیم کرکے دین میں داخل کرلیا جائے تو دین کو ناقص ماننا لازم آئےگا اسلئے کہ آیۃ اکمال(الیوم اکملت لکم دینکم) کی مخالفت ہوگی کہ جو کفر ہے۔
ثالثا: بدعت کو اگر حسنہ مان کر دین میں داخل کرلیں تو دین بازیچہ بن کر رہ جائےگا اور کوئی بھی اپنی خواہش نفس کے مطابق کسی بھی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کرسکتا ہے۔
رابعا: اگر کسی چیز کو بدعت حسنہ کہکر دین میں داخل کیا جاسکتا ہے تو کسی بھی چیز کو اسی نام سے خارج بھی کیا جاسکتاہے اسلئے کہ جب بڑھانے میں کوئی حرج نہیں تو کم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا اور پھر دین کا کیا حشر ہوگا یہ خدا بہتر جانتاہے۔
خامسا: اگر بدعت کی تقسیم کو قبول بھی کرلیا جائے تو بھی کس میزان پر پرکھا جائے کہ یہ حسنہ ہے اور یہ قبیحہ ہے کس پیمانے سے ناپا جائے اور کس ترازو میں تولا جائے، بدعت حسنہ کو بدعت قبیحہ سے کیسے مشخص کیا جائے؟؟؟


[24] - سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401
[25] - الاعتصام، ج1، ص98، الباب الثالث فی ان ذم البدع والمحدثات عام
[26]- جامع العلوم والحکم، ص325، حدیث الثامن و العشرون
-----------------------------------------------------------------------------------------
 
 
 

اسمیں بدعت کون سی چیز ہے؟

البتہ ایک سادہ لوح انسان کے لیے یہ سوال پیش آسکتا ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں مذھب شیعہ میں بھی موجود ہیں اور مذھب اھلسنت میں بھی، نافلہ نمازوں کو اسلام کے تمام فرقوں میں شرعی حیثیت حاصل ہے یہ پہلے بھی مستحب تھیں اور آج بھی مستحب ہیں تو پھر بدعت کون سی چیز ہے؟
جواب،گزشتہ مطالب کو بغور مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائےگا کہ نماز نافلہ پڑھنے والوں کو ایک خاص کیفیت کے ساتھ ایک شخص کے پیچھے جماعت کا حکم دینا اور انکا اس نماز کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، ورنہ واقعا اس حادثہ سے پہلے بھی یہ لوگ نافلہ پڑھتے تھے جس شب عمر نے جماعت کا حکم دیا اس شب بھی نافلہ ہی پڑھ رہے تھے لیکن اگلی شب جب سب کو نمازنافلۂ ماہ رمضان جماعت سے پڑھتے دیکھا تو کہا نعمت البدعۃ ھذہ ، یعنی نافلہ نمازوں کا جماعت سے پڑھنا بدعت ہے۔ اسی کا علماء اہلسنت نے بھی اعتراف کیا ہے لھذا علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں(سماھا ای عمر بدعۃ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یبین لھم الاجتماع لھا ولا کانت فی زمن الصدیق) اسکا نام عمر نے بدعت اس لیے رکھا چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس نماز کو جماعت سے انجام دینے کیلیے بیان نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی یہ جماعت ابوبکر کے زمانے میں تھی۔[27]
ابن قدامہ کا بیان ہے کہ(نسبۃ التراویح الی عمر بن الخطاب لانہ جمع الناس علی ابی بن کعب)نماز تراویح عمر ابن خطاب سے اسلیے منسوب ہے کہ عمر نے لوگوں کو ابی بن کعب کے ساتھ سے پڑھنے کا حکم دیا۔[28]
علامہ عینی رقمطراز ہیں (انما دعاھا بدعۃ لان رسول اللہ لم یسنھا لھم و لاکانت فی زمن ابی بکر) عمر نے اسکو بدعت اسلیے کہا کہ چونکہ رسول اکرم(ص) نے اس جماعت کو سنت قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی یہ ابوبکر کے زمانے میں تھی۔[29]
کحلانی لکھتے ہیں (ان عمر ھو الذی جعلھا جماعۃ علی معین و سماھا بدعۃ) یہ عمر ہی ہیں جنہوں نے نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے قرار دیا اور اسکا نام بدعت رکھا۔[30]


[27]- ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج4، ص577، ، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان، حدیث2010
[28] - المغنی، ج1، ص798 کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التراویح
[29] - عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان
[30] - شرح الزرقانی علی المؤطا، ج1، ص359، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب2(ماجاء فی الصلاۃ فی رمضان)




__._,_.___
Recent Activity:
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment