ترکی میں عام انتخابات میں وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے لگا تار تیسری بار شاندار کامیابی حاصل کرکے ترکی میں اتاترک کے دور کے خاتمے اور نجم الدین اربکان کی اسلامی جڑوں کی واپسی کی پالیسی کی جانب عوامی توثیق کا مرحلہ مکمل کردیا ہے۔ طیب اردگان کی دوراندیشانہ قیادت میں ترکی نے بغیر تشدد اور خون خرابے کے خاموش انقلاب بر پا کیا جو پورے عالم اسلام کے لئے مشعل راہ ہے ۔ ایک جانب جہاں لیبیا یمن شام، بحرین وغیرہ میں عوامی انقلاب کے لئے عوام کا خون بہا یا جارہا ہے وہیں ترکی نے جمہوری ذرائع سے وہ سب حاصل کرلیا جو کمال اتاترک کے دور میں اس سے چھن گیا تھا ۔ یورپ اور امریکہ نے کمال اتا ترک اور ان کے انقلاب کی صرف اس حد تک پذیرائی کی جہاں تک ان کی اسلام دشمنی اس کی اجازت دیتی تھی اس کے علاوہ ترکی کو خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور کمال اتا ترک کے انقلاب سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو یہاں تک کہ اسے پہلے یورپ کا حصہ نہیں سمجھا گیا اور بعد میں یورپی یو نین میں شمولیت کی اس کی ہر کوشش ناکام کردی گئی کیونکہ وہاں کی اکثریت مسلمان تھی۔ اتاترک اور ان کا سیکولر ترکی خلافت عثمانیہ کے دور کی طرح ہی مرد بیمار بنارہا ہے اور عالمی امور میں اس کی نہ کوئی شناخت بن پائی اور نہ ہی اسے کسی معاملہ میں قابل اعتنا سمجھا گیا صرف اس کے سیکولر ازم کی بڑھا چڑھا کر تعریف کی جاتی رہی کیونکہ وہ ہندوستانی و مغربی سیکولر ازم کی طرح مذہبی روا داری پر مبنی نہیں تھا بلکہ خالصتاً اسلام دشمنی پر مبنی تھا۔
عام انتخابات تقریباً 87 فیصدی ووٹ پڑے تھے جس میں سے طیب اردگان کی جسٹس اینڈ دیولپمنٹ پارٹی کو50 فیصدی ووٹ ملے جو ہر اعتبار سے ایک شاندار کامیابی ہے لیکن 1980 کے فوج کے تیار کردہ آئین میں ترمیم کرنے کی طیب اردگان کی خواہش شائد پوری نہیں ہوسکے گی کیونکہ ان کے اپنی پارٹی کی پوزیشن کی بنیاد پر وہ آئینی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت نہیں حاصل کر سکتے ۔ یہ آئین فوج نے 1980 فوجی بغاوت کے بعد مرتب کیا تھا جس میں فوج کو ملک کے سیاسی امور میں مداخلت کا حق دیا گیا ہے اس کے علاوہ اسے ملک کے سیکولر ازم کا محافظ بھی قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے منتخب حکومت کے ہاتھ پیر کافی حد تک بندھے ہوئے ہیں۔ حتی یہ کہ طیب اردگان نے صدارتی الیکشن میں جب اپنے وزیر خارجہ عبداللہ گل کو امیدوار بنانا چاہا تو فوج نے اس پر صرف اس بنیاد پر اعتراض کردیا کہ ان کی اہلیہ سر پر اسکارف باندھتی ہیں جبکہ اتاترک کے ترکی میں برقعہ پہنا غیر قانونی ہے۔
مغربی میڈیا کو اس بات کی بہت فکر ہے کہ مسٹر طیب اردگان جو آئینی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اس میں ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرکے اسے '' اسلامی تشخص '' فراہم کردیا جائے گا۔ لیکن طیب اردگان کی اتنی دنوں کی حکمرانی میں وہاں سے کبھی اسلام کے نام پر ظلم اور زیادتی کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ ضرور ہے کہ ترکی نے اسرائیل کی کھل کر مخالفت شروع کردی یہاں تک کہ غزہ کے محصورین کو امداد فراہم کرنے کے لئے فریڈم فلو ٹیلا نامی بحری بیڑا بھیجا اپنے9 فرزندوں کی قربانی پیش کی۔ جبکہ اتا ترک کا ترکی مغرب کے اشارہ پر اسرائیل کا دم چھلا بنا ہوا تھا۔ اگر طیب ارگان ترکی کو ایک روشن خیال جمہوری مسلم ملک بنا سکے تو یہ ایک مثالی کامیابی ہوگی اور مغرب کے اس پرو پیگنڈہ کی کاٹ بھی ہوجائے گی کہ اسلام اور جمہوریت میں بعد المشرقین ہے ۔
اندرونی طور سے بھی دیکھا جائے تو ترکی میں سماجی تبدیلی کے علاوہ طیب اردگان کی حکومت نے 10برسوں میں ترکی کی معیشت کو بھی خاصہ مستحکم کیاہے اور ان کی سیاسی کامیابی میں ان کی معاشی پالیسی کی کامیابی کا بڑا دخل رہا ہے ۔ حالانکہ یہی دورعالمی کساد بازاری کا بھی رہا ہے اور ترکی کی مجموعی گھریلو پیدا وار(GDP) کے مقابلہ میں8 فیصدی کھاتہ جاتی خسارہ ظاہر کرتاہے کہ ترکی بھی اس کساد بازاری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ترکی میں اس وقت بے روز گاری کی شرح 11فیصدی ہے جو عالمی معیار کے مطابقت سے تو کوئی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن بے روز گاروں کی ایک بڑی فوج کا کھڑا ہو جانا کسی بھی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ طیب اردگان کو بیرونی سرمایہ کاری اور صنعت کاری کی جانب توجہ دینی ہوگی ۔ اب تک انہیں امید تھی کہ یورپی یو نین کی رکنیت مل جانے کے بعد یورپ کی مجموعی معاشی ترقی کا فائدہ ترکی کو بھی ملنے لگے گا اور ڈالر کے مقابلہ میں مستحکم یورو (Euro) ترکی کی معیشت کے استحکام میں مدد گار ہوگا لیکن اب جبکہ ان امیدوں پر پانی پھر گیا ہے ترکی میں سماجی تبدیلی کے ساتھ ہی ساتھ معاشی خوش حالی کی جانب بھی انہیں بھر پور توجہ دینی ہوگی اس سلسلہ میں انہیں یورپ اور امریکا سے بھی کسی خاص مدد کی امید نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ اس کی خارجہ پالیسی یورپ اور امریکا کو چڑھانے والی ہے۔ طیب اردگان نے عرب ملکوں میں عوامی تحریک کی حمایت کی یہی نہیں شام کے پناہ گزینوں کے لئے ترکی کی سرحد کھول کر انہوں نے ہزاروں لوگوں کی جان بھی بچائی۔ لیبیا میں قذافی کے ہاتھوں اپنے ہی عوام کے خلاف فوجی کارروائی کی بھی مخالفت کی اور لیبیا پر ناٹو کے حملے کی بھی کھل کر مذمت کی ۔ یعنی عالم اسلام میں ترکی نے ایک بار خلافت عثمانیہ کے دور والا قائدانہ کر دار ادا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔
اندرونی طور سے اگر مسٹراردگان کو اتا ترک حامی فوج اور آئینی اصلاحات سے نپٹنا ہے تو کردوں کا روایتی مسئلہ بھی سامنے کھڑا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ عراقی کردو ایرانی کردوں اور ترکی کردوں پر مشتمل ہے ۔ جغرافیائی طور سے منقسم ہونے کے باوجود وسیع تر کردستان کا مسئلہ عالمی مسئلہ ہے ۔ترکی کے کردوں کی وہاں کی پارلیمنٹ میں اچھی خاصی نمائندگی ہے اور اگر مسٹر اردگان آئینی ترمیم کے اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنا نا چاہتے ہیں تو انہیں ان کی مدد در کار ہوگی۔اس کے لئے انہیں اپنی روایتی افہام و تفہیم کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا جو انہوں نے چند برسوں قبل فوج اور کرد علاحدگی پسندوں کے ٹکراؤ کے بعد ترک کردی تھی۔ کردوں کے لئے مزید معاشی آزادی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں ان کو برابری کا حصہ دے کر ان کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
ترکی جو کبھی یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا اب ایک نئی کروٹ لے رہا ہے ہے۔ اتاترک کا ترکی قصہ پارینہ ہونے جارہا ہے اور ان کی جگہ نجم الدین اربکان کے خوابوں کا ترکی جنم لے رہا ہے جس کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری طیب اردگان کے کاندھوں پر پڑی ہے۔ تاریخ بہت کم لوگوں کو ایسے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن حاصل مواقع کا کامیابی سے استعمال کرکے منزل مقصود حاصل کرنے والے تاریخ میں اپنا نام بھی محفوظ کر جاتے ہیں اردگان انہیں چند خوش قسمتوں میں سے ہیں۔
عام انتخابات تقریباً 87 فیصدی ووٹ پڑے تھے جس میں سے طیب اردگان کی جسٹس اینڈ دیولپمنٹ پارٹی کو50 فیصدی ووٹ ملے جو ہر اعتبار سے ایک شاندار کامیابی ہے لیکن 1980 کے فوج کے تیار کردہ آئین میں ترمیم کرنے کی طیب اردگان کی خواہش شائد پوری نہیں ہوسکے گی کیونکہ ان کے اپنی پارٹی کی پوزیشن کی بنیاد پر وہ آئینی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت نہیں حاصل کر سکتے ۔ یہ آئین فوج نے 1980 فوجی بغاوت کے بعد مرتب کیا تھا جس میں فوج کو ملک کے سیاسی امور میں مداخلت کا حق دیا گیا ہے اس کے علاوہ اسے ملک کے سیکولر ازم کا محافظ بھی قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے منتخب حکومت کے ہاتھ پیر کافی حد تک بندھے ہوئے ہیں۔ حتی یہ کہ طیب اردگان نے صدارتی الیکشن میں جب اپنے وزیر خارجہ عبداللہ گل کو امیدوار بنانا چاہا تو فوج نے اس پر صرف اس بنیاد پر اعتراض کردیا کہ ان کی اہلیہ سر پر اسکارف باندھتی ہیں جبکہ اتاترک کے ترکی میں برقعہ پہنا غیر قانونی ہے۔
مغربی میڈیا کو اس بات کی بہت فکر ہے کہ مسٹر طیب اردگان جو آئینی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اس میں ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرکے اسے '' اسلامی تشخص '' فراہم کردیا جائے گا۔ لیکن طیب اردگان کی اتنی دنوں کی حکمرانی میں وہاں سے کبھی اسلام کے نام پر ظلم اور زیادتی کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ ضرور ہے کہ ترکی نے اسرائیل کی کھل کر مخالفت شروع کردی یہاں تک کہ غزہ کے محصورین کو امداد فراہم کرنے کے لئے فریڈم فلو ٹیلا نامی بحری بیڑا بھیجا اپنے9 فرزندوں کی قربانی پیش کی۔ جبکہ اتا ترک کا ترکی مغرب کے اشارہ پر اسرائیل کا دم چھلا بنا ہوا تھا۔ اگر طیب ارگان ترکی کو ایک روشن خیال جمہوری مسلم ملک بنا سکے تو یہ ایک مثالی کامیابی ہوگی اور مغرب کے اس پرو پیگنڈہ کی کاٹ بھی ہوجائے گی کہ اسلام اور جمہوریت میں بعد المشرقین ہے ۔
اندرونی طور سے بھی دیکھا جائے تو ترکی میں سماجی تبدیلی کے علاوہ طیب اردگان کی حکومت نے 10برسوں میں ترکی کی معیشت کو بھی خاصہ مستحکم کیاہے اور ان کی سیاسی کامیابی میں ان کی معاشی پالیسی کی کامیابی کا بڑا دخل رہا ہے ۔ حالانکہ یہی دورعالمی کساد بازاری کا بھی رہا ہے اور ترکی کی مجموعی گھریلو پیدا وار(GDP) کے مقابلہ میں8 فیصدی کھاتہ جاتی خسارہ ظاہر کرتاہے کہ ترکی بھی اس کساد بازاری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ترکی میں اس وقت بے روز گاری کی شرح 11فیصدی ہے جو عالمی معیار کے مطابقت سے تو کوئی بہت زیادہ نہیں ہے لیکن بے روز گاروں کی ایک بڑی فوج کا کھڑا ہو جانا کسی بھی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ طیب اردگان کو بیرونی سرمایہ کاری اور صنعت کاری کی جانب توجہ دینی ہوگی ۔ اب تک انہیں امید تھی کہ یورپی یو نین کی رکنیت مل جانے کے بعد یورپ کی مجموعی معاشی ترقی کا فائدہ ترکی کو بھی ملنے لگے گا اور ڈالر کے مقابلہ میں مستحکم یورو (Euro) ترکی کی معیشت کے استحکام میں مدد گار ہوگا لیکن اب جبکہ ان امیدوں پر پانی پھر گیا ہے ترکی میں سماجی تبدیلی کے ساتھ ہی ساتھ معاشی خوش حالی کی جانب بھی انہیں بھر پور توجہ دینی ہوگی اس سلسلہ میں انہیں یورپ اور امریکا سے بھی کسی خاص مدد کی امید نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ اس کی خارجہ پالیسی یورپ اور امریکا کو چڑھانے والی ہے۔ طیب اردگان نے عرب ملکوں میں عوامی تحریک کی حمایت کی یہی نہیں شام کے پناہ گزینوں کے لئے ترکی کی سرحد کھول کر انہوں نے ہزاروں لوگوں کی جان بھی بچائی۔ لیبیا میں قذافی کے ہاتھوں اپنے ہی عوام کے خلاف فوجی کارروائی کی بھی مخالفت کی اور لیبیا پر ناٹو کے حملے کی بھی کھل کر مذمت کی ۔ یعنی عالم اسلام میں ترکی نے ایک بار خلافت عثمانیہ کے دور والا قائدانہ کر دار ادا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔
اندرونی طور سے اگر مسٹراردگان کو اتا ترک حامی فوج اور آئینی اصلاحات سے نپٹنا ہے تو کردوں کا روایتی مسئلہ بھی سامنے کھڑا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ عراقی کردو ایرانی کردوں اور ترکی کردوں پر مشتمل ہے ۔ جغرافیائی طور سے منقسم ہونے کے باوجود وسیع تر کردستان کا مسئلہ عالمی مسئلہ ہے ۔ترکی کے کردوں کی وہاں کی پارلیمنٹ میں اچھی خاصی نمائندگی ہے اور اگر مسٹر اردگان آئینی ترمیم کے اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنا نا چاہتے ہیں تو انہیں ان کی مدد در کار ہوگی۔اس کے لئے انہیں اپنی روایتی افہام و تفہیم کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا جو انہوں نے چند برسوں قبل فوج اور کرد علاحدگی پسندوں کے ٹکراؤ کے بعد ترک کردی تھی۔ کردوں کے لئے مزید معاشی آزادی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں ان کو برابری کا حصہ دے کر ان کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔
ترکی جو کبھی یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا اب ایک نئی کروٹ لے رہا ہے ہے۔ اتاترک کا ترکی قصہ پارینہ ہونے جارہا ہے اور ان کی جگہ نجم الدین اربکان کے خوابوں کا ترکی جنم لے رہا ہے جس کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری طیب اردگان کے کاندھوں پر پڑی ہے۔ تاریخ بہت کم لوگوں کو ایسے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن حاصل مواقع کا کامیابی سے استعمال کرکے منزل مقصود حاصل کرنے والے تاریخ میں اپنا نام بھی محفوظ کر جاتے ہیں اردگان انہیں چند خوش قسمتوں میں سے ہیں۔
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment