اے فلسطین کی شرعی قیادت! تمہارے وزیر صیہونی جیلوں میں، تمہیں قتل کرنے کی آئے دن کی کوششیں ، تمہارے کئی وزیر شہادت کے مرتبہ پر فائز، تم خود شہادت کے متمنی، تم چلتے پھرتے غازی، تم سوتے جاگتے اُٹھتے بیٹھتے صیہونیت اور صیہونیوں کی کٹھ پتلیوں کے نشانوں پر، اغیار اور اغیار کے آلہ کار تمہارے خون کے پیاسے، پھر بھی تم اتنے نڈر؟ میں اللہ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری قیادت نے کبھی بھی چٹائیوں پر بیٹھنے میں عارمحسوس نہیں کی تھی! اور تمہارے دل اُن سے جڑے ہوئے جن کے دل اللہ سے جڑے ہوئے تھے، قیامت تک کا ساتھ! اے اللہ، اپنے ان عاجز اور منکسرمزاج بندوں کو فتح اور نصرت سے نواز دے یا رب! ************************ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص83) (یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے یا اللہ، یہ کس قسم کے لیڈر ہیں، ٹھٹھرتی سردی میں فٹ پاٹھ پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کا انتظار کرتے ہوئے۔ ************************ ہم نے تو نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی یہ سنا تھا کہ کوئی وزیرِ اعظم جھاڑو اُٹھائے سڑکوں پر صفائیاں کرتا تھا۔ جب بھی دیکھا یا سنا تو یہی کہ قیادتیں ہاتھوں میں قینچی اُٹھائے صرف لال ربن کاٹا کرتی تھیں۔ سارے اچھے رواج تم ہی ڈالو گے کیا؟ ************************ شہیدوں اور صیہونی قید میں پابندِ سلال خاندانوں کے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتے ہوئے۔ ************************ مشائخ اور علماء کرام کی عزت تیرا وطیرہ رہا ہے۔ ************************ اللہ اکبر، اے اللہ اسلام کو فتح و نصرت سے نواز دے۔ میں گواہ ہوں کہ تو نے غزہ میں لشکر کی بنادیں ڈالی تھیں۔ ایسے لشکر، جو تیرے پیچھے سمندر میں کود جائیں گے، اگر تو پہاڑ پر چڑھے گا تو تیرے شانہ بہ شانہ ہونگے۔ وزیرِ اعظم صاحب، سوٹ تو تبدیل کر لیتے یہ جفا کشی کرتے ہوئے!!! ************************ آپ بچوں سے پیار کرتے تھے تو بچے بھی آپ سے محبت کرتے تھے ۔ ************************ اے انوکھے وزیرِ اعظم صاحب، آپ نے تو سچ کر دکھایا کہ حکمران کی جگہ تو اپنی رعایا اور عوام میں ہوتی ہے۔ ************************ کوئی بھی تو ایسا عوامی کھانا نہیں ہے جس پر فخر کیا جائے! لوبیا، چنوں کا ملیدہ، ماش کے پکوڑے، یہی ہے ناں عوامی کھانا؟ تو نے وہی کھایا جو تیری رعایا اور عوام نے کھایا۔ تیرے جیسے اور وزیرِ اعظم تو پورے بکرے پر بھی راضی نہ ہوتے ہوں شاید؟ نہ تیرا منصب اس میں رکاوٹ بنا ہے اور نہ ہی تیرا سوٹ بوٹ۔ اے تاریخ لکھ لے یہ سب کچھ۔ آنے والی نسلوں کو تو نے بتانا ہے کہ جب اسی کرہ ارض پر ہمارے حکمرانوں جیسے لوگ تھے، عین اُسی وقت یہ فقیر منش انسان بھی حاکم ہوا کرتا تھا۔ ************************ جب وزیرِ اعظم جناب اسماعیل ھنیہ نے قطر کا دورہ کیا تو لوگوں کے دلوں میں ان کیلئے محبت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ ************************ وزیرِ اعظم جناب اسماعیل ھنیہ صاحب حرم شریف میں حاضری دیتے ہوئے۔ ************************ یہ مسلم حکمران مسلمانوں کی نماز کیلئے امامت کراتا ہے، قرآن شریف کی احکامات کے مطابق تلاوت ہو یا کہ خطبہ دینا ہو، وہ ہر معاملے میں ممتاز ہے۔ ************************ کیا آپ کسی ایسے حکمران کو جانتے ہیں جو اذان کی آواز سنے تو اپنی ملاقات پر آئے ہوئے وفد کی نماز کیلئے امامت کرے؟ جی ہاں ! اس تصویر میں وزیرِ اعظم صاحب ترکی سے آئے وفد کی اپنے آفس میں امامت کرا رہے ہیں۔ یہی نہیں، ہر نماز کے اوقات میں انکے دفتر میں ہر قسم کا کام موقوف کر دیا جاتا ہے۔ ************************ جب کبھی کسی ساتھی کی شہادت کی خبر آتی ہے، اندرونی و بیرونی محاصرے کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے یا حکومت چلانے میں دشواری پیدا کی جاتی ہےتو درد بڑھ جاتے ہیں۔ بات اگر عوام کے دکھ درد کی ہو یا ذمہ داریوں کا احساس، جذبات آنسوؤں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔ ************************ ہزار تصویروں کی ایک تصویر ، اسماعیل ہنیہ صاحب ایک معمر خاتون کے آنسو پونچھتے ہوئے، صیہونی فوجیوں نے اس عورت کا مکان مسمار کر دیا تھا۔ یا اللہ، کیسا عظیم حکمران ہے یہ!!! اور کتنی محبت ہے اس کے دل میں اپنی رعایا کیلئے!!! ************************ وزیرِ اعظم صاحب اپنے دفتر میں بھی وہی دال ہی کھاتے ہیں جو ان کی عوام کے کسی غریب شخص کے گھر میں پکتی ہے۔ ************************ سنت پر پابندی تو ہر حال میں کی جائے گی۔ اسماعیل ہنیہ صاحب ایک نو مولود کے کان میں اذان دیتے ہوئے۔ ************************ غزہ پر ظالموں کے محاصرے میں باہر نکل کر عوام سے یک جہتی کا اظہار ، ایک ضعیف عورت سے اسکا حال احوال پوچھتے اور تسلی دیتے ہوئے۔ ************************ غزہ پر محاصرے کے دوران بچوں سے ہنسی مذاق کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے۔ ************************ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسالم کے ارشاد کے مطابق کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داریوں کا جواب لیا جائے گا ۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرتے ہوئے ، جو راتوں کو اُٹھ کر عوام کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ وزیرِ اعظم صاحب ایک غریب اور نادار خاندان کے گھر پر افطاری کیلئے تشریف لے گئے۔ ************************ اور تو اور، ایک ایسے شخص نے بھی وزیرِ اعظم صاحب کو دعوت دے ڈالی جسکا گھر 20 مربع میٹر سے بھی چھوٹا تھا۔
************************ مدینہ رفحہ کی مسجد بلال بن رباح کے امام صاحب کی دعوت پر تشریف لے گئے، نہ صرف یہ کہ نماز تراویح کی امامت کی، بلکہ بعد میں ایک خطبہ بھی دیا، کیوں نہ جاتے، آخر یہ مسجد اس سال 40 حفاظ کا تحفہ جو پیش کرنے جا رہی ہےناں۔
************************ جی ہاں، کفایت شعاری کی مہمیں ہمارے ہاں بھی خوب چلتی ہیں، درونِ خانہ کون جانتا ہے کیا کفایت ہوتی ہے۔ مگر اس وزیرِ اعظم صاحب کی تو کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے نا! ملاحظہ فرمائیے وزیرِ اعظم ہاؤس!
اے اباالعبد، اللہ تیری حفاظت فرمائے، تیری سیرت تو گلاب کے پھولوں سے بھی زیادہ مہک رکھتی ہے، مگر میری آنکھوں سے یہ آنسو کیوں نکل آئے ہیں یہ چھوٹا سا نذرانہ عقیدت ہے میری طرف سے، خراجِ تحسین ہے تیری عظمت کو۔ یا اللہ اپنے اس بندے کو عمرِ مدید عطا فرما، اے اللہ،غزہ کو ظالموں کے محاصرے سے آزادی دے یا رب! ************************ حسبِ سابق یہ مضمون بھی عربی سے اردو میں ترجمہ کرکے آپکی خدمت میں پیش کیا ہے، آپکی دعاوں کا طالب ہوں۔ محمد سلیم/شانتو-چائنا |
No comments:
Post a Comment