Search This Blog

Tuesday 30 October 2012

Re: [Yaadein_Meri] خانقاہی نظام (صوفیت) ایک نظر میں

 

Dear Mr. Naveed Ahmed !!


         You didn't reply yet to my questions which I asked to you in your last post, I am still in wait for your response,


                        It is better not to fall in controversial debate but to listen to the good and solid arguments,


       instead of replying to my questions you are still postnig nagetive propeganda against Ahl-e-Sunat Wal Jamat.




            If you will not reply to my questions as per references of any other religious person from outside of Ahl-e-Sunat Wal Jamat within 10 days, I will be sure that you are also from one of those who only can shout behind a loud speaker when they got a chance at any plateform to shout at others but don't even know about their ownselves.



Best Regards,
Robeel Saleem.







2012/10/26 Robeel Saleem <robeelsaleem@gmail.com>
Dear Sir !!!  If you think there is no need to imagine the world and un seen things then you can tell to us, Why Holy Prophet (S.A.E.W) even before the age of 40 oftenly went to Ghar-e-Hira.


             Please tell us if Sofiya-e-Karam will not be there then who will do preeching of Islam to Jins which are created by Allah Ta'lla.


             Please tell us if Sofiya Karam are going to leave world for a few days of life, then why Holy Prophet (S.A.E.W) in his life, left world for month of Ramadan, when he said at the end of his Etekaaf, You are being awarded by Shab-e-Qadar


            Please name any of Sofia who not find with the evils upon earth, if these were muslims not changed their hearts and bring the most dangerous muslims of their century to the way of Allah ?

         
            Please name the Sofia Karam who not fight with Kufar in the early age ?


            Please tell us if we will not go towards Wilayat then how we will be able to control Jins who can make trouble to Human Beings ?



              I hope you will answer all my questions, I am not so much involved in Firqa Parasty as you can say Deen Islam is very old and Brailvi, Deyou Bandi, Thanwi, Najadi are not much before then 200-300 years, but I raised the questions I deserve to find answers.


Waiting for your replies,


Robeel Saleem.

2012/10/25 Naveed Ahmed <naveedahm44@yahoo.com>
 


خانقاہی نظام (صوفیت) ایک نظر میں
اللہ رب العزت کا بہت بڑا کرم اوراحسان ہے کہ اس نے ہمیں قرآن کریم جیسا جامع و مانع منشور زندگی مرحمت فرمایا، سید البشر امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کو اعلیٰ انسانیت کا اجمل و اکمل نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا۔ اور ہمیشہ کے لیے بشارت دے دی کہ قرآن اور رسولِ رحمتﷺ کی پیروی کرتے رہو کیونکہ یہی وہ یقینی اور اکلوتی راہِ ہدایت ہے جس پر چلتے چلتے تمھارے قدم جنت کے سدا بہار جھو
متے ہوئے باغوںمیں جا پہنچیں گے۔

جب ہمارے پاس قرآن کا آفتاب اور سنت کا ماہتاب موجود ہے تو پھر ہمیں کسی اور کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی کیا ضرورت ہے؟ اب یہ تاریخ کا جبر، دماغوں کی ژولیدگی اور عزم و ہمت کا فقدان ہے جس نے ہمارے بے شمار کلمہ گو بھائیوں کو قرآن و سنت کے سرچشمۂ ہدایت سے ہٹا کر تصوف کی راہ پر ڈال رکھاہے۔ اسلام نے ہمیں اِذْھَبْ إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہٗ طَغٰی کے ارشاد عالی کے ذریعے میدانِ عمل میں نکلنے اور ہر عہد کی فرعونیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اربابِ تصوف نے ہمارے بے شمار بھائیوں کے حوصلوں کی کمانیں توڑ کر انھیں مٹی کی ڈھیریوں کا پجاری، آستانوں کا فقیر، خانقاہوں کا گوشہ گیر اور حقیر ترین دنیاوی اغراض کے لیے خوئے گداگری کا اسیر بنا دیا ہے۔ ذیل میں ہم صوفیاء کے بارے میں چند جھلکیاںد کھا رہے ہیں جس سے آپ کو اِن عقائد اور نظریات سمجھنے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

٭ خانقاہی نظام فکر و عمل پر مشتمل ایک ایسا سسٹم ہے جو سوچنے کا اپنا ایک الگ انداز رکھتا ہے اس لیے ہم اسے فلسفے کی ایک شاخ کہہ سکتے ہیں اوراگر اس کے مراقبوں، مجاہدوں اور ریاضتوں کو اس کا ضابطہ ٔ اعمال سمجھ لیا جائے تو پھر یہ ایک مستقل مذہب بن جاتا ہے کیونکہ ہر مذہب فکروعمل پر مشتمل ہوتا ہے اوران میں یہ دونوں چیزیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

٭ ابتدا میں زہاد کا مرکز کوفہ تھا۔ وہاں رہتے ہوئے ان لوگوں نے اپنے خیالات و افکار کو پھیلانے اور شاگردوں کی تعداد میں اضافے کی کوئی خاص کوششیں نہیں کی تھیں۔تیسری صدی ہجری میں یہ رویہ بدلا اور حالات نے نیا رخ اختیار کرلیا۔ بغداد اس کا بہت بڑا مرکز بن گیا اور صوفیاء کے اثرات ایران، شام، مصر اور جزیرہ نما عرب تک پھیلتے چلے گئے۔ مسلم معاشرے میں یونانی فلسفے کی یلغار نے عقل پرستی اور تشکیک کو جنم دیا۔

٭ تصوف کا بنیادی مسئلہ وحدت الوجود ہے جس پر اس کی عمارت قائم ہے۔ تصوف خالق اور مخلوق کا ایک وجود مانتا ہے جبکہ اسلام خالق و مخلوق کے دو الگ الگ وجودوں کا قائل ہے۔ تصوف کا اثر اسلامی معاشرت کے اندر اس درجہ سرایت کرگیا کہ وحدت الوجود ایک مسلم حقیقت بن گئی جس نے تمام مسلم سوسائٹی کو سرتاپا متاثر کردیا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ یہی وہ حقیقت ہے جس تک انسان کو پہنچنا ہے جو ارباب طریقت کی بڑی بڑی شخصیات پر منکشف ہوئی ہے۔

٭ علم کے حوالے سے اسلام کی عمارت دو ستونوں: وحی ٔالٰہی اورانسانی عقل و بصیرت پر قائم ہے۔ ان میں سے کسی ایک ستون کو منہدم یا متزلزل کرنے کی صورت دین اسلام کی نقیض تصور ہوگی۔ خانقاہی نظام میں اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کرنے کا نام کشف و الہام(باطنی علم) رکھ دیا گیا جس نے عقیدۂ رسالت کو بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طرح سے متاثر کیا۔ مرجعِ خلائق قرآن و حدیث کی تعلیمات نہ رہیں بلکہ باطنی علم کی مدعی شخصیات لوگوں کی توجہات کا مرکز بن گئیں۔ زندگی میں ان کے آستانے (خانقاہیں) اور مرنے کے بعد ان کے مزارات لوگوں کے لیے زیارت گاہیں بن گئے، پھر عقیدت و محبت میں افراط و تفریط نے بعض شخصیات کو مقام الوہیت پر بھی فائز کردیا جو مسلمانوں میں ضعف الاعتقادی کا باعث بن گئیں۔

٭ عبادات کی اہمیت و پابندی کے حوالے سے صوفیاء کے دو طبقے ہیں۔ اولین ادوار کے صوفیاء میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو عبادات کی پابندی کرنے والا نہ ہو، تاہم متاخرین صوفیاء کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثریت عبادات سے اپنے آپ کو مبرا قرار دیتی ہے۔

٭ شریعت و طریقت کی باہمی علیحدگی، رہبانیت اختیار کرنے، رقص و سماع اور وجدو حال کو نصب العین بنا لینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بے شمار غیر اسلامی رسومات اور بدعات مسلمانوں میں رائج ہوگئیں جن کا اثر یہ ہوا کہ مساجد غیر آباد اور خانقاہیں آباد ہوتی چلی گئیں۔

٭ تزکیۂ نفس اور حصول معرفت کے لیے مساجد کے علاوہ مخصوص جگہوں کا انتخاب ہونے لگا اور وہاں رہنے کے مخصوص قواعد و ضوابط طے ہونے لگے۔ نتیجتاً ایک مکمل نظام فکروعمل، خانقاہی نظام کی صورت میں تشکیل پا گیا جس میں ایمان کامل کو آغاز عمل پر موقوف کردیا گیا اسلام کے اندر روحانیت الگ سے کسی دائرۂ عمل یا سسٹم کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھال لینا ہی سب سے بڑی روحانیت ہے جس پر عمل پیرا ہوکر صحابۂ کرامy دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کے حق دار قرار پائے۔

٭ اوائل اسلام میں فقر کا مفہوم عدم ملکیت، یعنی مال و اسباب کا نہ ہونا سمجھا جاتا رہا، لیکن اہل خانقاہ نے فقر کو اختیاری چیز بنا لیا اوراپنے مال و متاع سے از خود کنارہ کش ہوگئے اور یہی ترک تام تصوف میں حصول حقائق کی کلید ٹھہرا۔

٭ بعض صوفیاء نے شان دار علمی، دینی اور تبلیغی کارنامے سر انجام دیے۔ بالخصوص برصغیر میں ان بزرگوں کی تعلیمات کے اثر اور ان کی کوششوں سے بہت سارے غیر مسلم دائرہ ٔاسلام میں داخل ہوئے، تاہم اشاعت اسلام کے دیگر عوامل، مثلاً: مجاہدین، مسلمان حکمران، تاجروں اورعلماء کا کردار حقیقی اسلام کے فروغ میں کسی صورت کم نہیں ہے صوفیاء کے پھیلائے ہوئے اسلام میں وحدت الوجود کی آمیزش تھی، لہٰذا صوفیاء کے ان افکار کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں ایسے عناصر سرایت کر گئے جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

٭ اسلام قرآن و حدیث کی تعلیماتِ عالیہ پر مبنی ظاہر و باطن ، شریعت و طریقت، دین و دنیا اور فقر و جہاد کے باہمی ارتباط و اشتراک کا ایسا مکمل اور مثالی نظام ہے جس کا کوئی ایک جز دوسرے سے جدانہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر وہ چیز حرام اور خود کشی کے مترادف ہے جوانسان کو قوت عمل سے محروم کردے۔ خانقاہی نظام کی وجہ سے نہ صرف پرواز میں کوتاہی آئی بلکہ زمین کی پستی سے اُٹھ کر فضائے آسمانی میں اڑنے کا خیال ہی جاتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے محکومی و بے عملی کے اثرات خانقاہوں سے نکل کر تمام اسلامی دنیا میں داخل ہوگئے۔ رفتہ رفتہ احسان کو تصوف و رہبانیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ نتیجتاً چند ہی صدیوں میں اسلام بحیثیت زندہ قوت کے ختم ہوگیا اور کفر کا غلبہ روئے زمین پر ہوگیا۔ دین اسلام کا ماحصل قرآن و سنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایسا اجتماعی نظام قائم کرنا ہے جس میں فطرت کی قوتوں کو مسخر کرکے انھیں بنی نوع انسان کی منفعت ، بہبود اور نشو و نما کے کام لانا ہے تاکہ دنیاوی زندگی کی سرفرازیوں اور کامرانیوں کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کی ارتقائی منازل بھی طے ہو سکیں۔

٭ خانقاہی نظام نے اجتماعی زندگی پر جہاں رواداری، مساوات اور خدمت خلق جیسے مثبت اثرات ڈالے، وہیں پر مسلمان اس نظام کے منفی اثرات سے بھی محفوظ نہ رہ سکے جن کا دائرۂ کار وقت کے ساتھ پھیلتا ہی چلا گیا۔

٭ صراط مستقیم کی طرف مفصل، مستند اور قابل عمل راہنمائی انسان کو خالق کائنات کے عطا کردہ علم وحی سے میسر آسکتی ہے جوشک و شبہ سے بالاتر اور عملی زندگی کے لیے کامل ہدایات پر مبنی ہے جس علم و عمل کی قدامت، صداقت اور مفاد عامہ مسلّم ہے۔اس حقیقت کی تصدیق و تائید انسانی عقل اور تجربے نے بھی کی ہے اوراس کے وجدان و ضمیر نے بھی، لہٰذا جب تک انسانی اجتماعیت اپنے خالق کے دیے ہوئے نظام فکرو عمل سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کرلیتی، اس کے مصائب و آلام اور مسائل ختم نہیں ہوسکتے۔

٭ ضرورت اس امر کی ہے کہ تزکیۂ نفس اورذکر واذکار کے نبوی منہج کو اختیار کیا جائے تاکہ عبادات کی ادائیگی سے حقیقی منزل معرفت کا حصول ممکن ہوسکے اوران عبادات کا مرکز مسجد ہو نہ کہ خانقاہیں۔

٭ معاشرتی ذمہ داریوں سے فرار کے بجائے اجتماعی معاشرتی، معاشی اورسیاسی ذمہ داریوں کو احسن طریق سے ادا کرنے کی کوشش کی جائے، نیز دعوت و جہاد کے میدان میں سرگرم ہوا جائے تاکہ غلبۂ اسلام کی منزل کو پانا ممکن ہوسکے۔

٭ مختصر ً اـ یہ کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح و اصلاح پر مبنی ایک اجتماعی تحریک تھی جس نے اپنے دور کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور بین الاقوامی اقدار اور نظاموں کو بدل ڈالا تھا۔ میرے خیال میں اس جان دار تحریک کے زوال اور انحطاط کا شکار ہونے کی بنیادی وجہ دین و دنیا کی تقسیم اور فقر و رہبانیت کو اختیار کرنے کی روش ہے جس نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر بڑے دوررس منفی اثرات مرتب کیے۔
 —
 
                                                             NAVEED AZHER 



__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (1)
Recent Activity:
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment