کچھ تو کمی ہے' مگر کیا؟ زندگی میں جینا منزل کے تعین سے مشروط ہے اور بنا مقصد زندگی کا مفہوم فقط موت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ انسان جن کی زندگی جہد مسلسل سے تفسیر ہو اور جن کا مقصد عظیم ہو۔ اسلام واحد عالمگیر مذہب ہے جو اپنے اندر لا محدود وسعت لیے ہوئے ہے ایسی وسعت جو کسی بھی شعبہ زندگی میں تعطل نہیں تسلسل کی سفارش کرتا ہے۔ نئے جہانوں کو کھوجنے' دیگر مخلوقات کو دریافت کرنے ان کی تفصیلات کو جاننے' آسمان کی وسعتوں سے زمیں کی گہرائیوں تک رسائی پانے' حیات کے رازوں سے شفاء کے حصول میں تندہی اور جانفشانی سے سرکرداں رہنے میں اگر کوئی مذہب رکاوٹ نہیں ڈالتا تو وہ فقط اسلام ہے اور جو نہ صرف علم کے حصول کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اسلام ایسا واحد عالمگیر مذہب ہے جو عبادات کے ساتھ ساتھ سائنس، ادب، حساب، تاریخ، مہم جوئی اور ایک مکمل سماجی ڈھانچے کی بھی مکمل، مفصل اور مرکوز تعریف کرتا ہے جسے سنگ میل بنا کر کسی بھی معاشرے کو اوج کمال کی حدوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ باقی مذاہب کتب اور آراء پر مشتمل ہیں مگر اسلام کتب، آراء اور مشورے کے ساتھ ساتھ نا صرف عمل کی تلقین کرتا ہے بلکہ اللہ کے تمام نبی اور پیغمبر (علیہ السلامہ) اس کا عملی مظاہرہ بھی پیش کرتے ہیں۔ جس کی سب سے بہترین مثال آخری رسول خدا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں۔ آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل جب سر زمین حجاز پر ظلمت کے بادل چھائےہوئے تھے اور لوگ نفاق اور نسلی تفاخر کے ساتھ دیگر ہزاروں برائیوں کے مرتکب رہتے تھے۔ تب حق کی ایک آواز، روشنی کا ایک مینارہ، بہار کا سب سے خوبصورت حصہ زمین پر آیا اور نور کا چاند بن کر سر زمین عرب کو اپنے نور سے جگمگانے لگا۔ جہاں ظلمت کے بادل چھائے رہتے تھے، جہاں ظلم کی آندھیاں چلتی تھیں، جہاں نفرت کا راج تھا اس مسکرانے والے (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی آمد سے وہ مقام خوشیوں اور رحمتوں کے گلشن میں تبدیل ہو گیا اور وہاں سے علم کے دریا بہنے لگے۔ اسی نوری انسان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسانیت کو سب سے بہترین تحفے یعنی ''اسوہ کامل'' سے نوازا، جو راہ نجات بھی ہے جو راہ بقاء لافانی بھی ہے۔ اور دنیا میں سب سے سخت ظالم لوگ اس کی برکت سے آسمان میں ایسے چمکنے والے ستارے بن گئے کہ اگر ان میں سے کسی بھی ستارے کے قدموں پر قدم دھرتے چلتے جائیں تو منزل کا حصول لازم ہے۔ جن کی ناصرف زندگیاں بلکہ موت بھی قابل فخر اور قابل تقلید ہے۔ بے شک کرہ انسانی پر انبیاء کے بعد سب سے بہترین انسان وہ ہی ہیں۔ وہ اعلیٰ تھے۔ وہ افضل تھے۔ رات کے چاند تھے اور دن کے سورج بھی۔ لیکن کیا ان کی زندگیاں آسان تھیں؟ کیا وہ روز پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے؟ کیا ان کی پوشاک زمانے بھر میں ممتاز ہوتی تھی؟ کیا وہ عظیم و الشان درو دیوار والی عمارتوں کے مکین تھے؟ کیا انہیں زمانے بھر سے زیادہ اعلیٰ آرام اور سہولیات میسر تھیں؟ یقیناً نہیں!!! تو پھر وہ کیا چیز تھی جو انہیں اس قدر افضل بناتی ہے کہ انبیاء اکرام کے بعد وہ دنیا کے سب سے بہترین انسان ہیں؟؟؟ کیونکہ' وہ شکایت کرنے والوں میں سے نہیں تھے وہ بہترین صبر اور توکل کرنے والے تھے۔ پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہوتے تھے۔ بھوک سے غشی پر غشی طاری ہوتی تھی۔ مگر اس حالت میں بھی ان سے منہ سے ''الحمد اللہ'' کی ثنائیں ہی سنائی دیتی تھیں۔ خود تین دن کے روزے سے ہوتے اور صدا کرنے والے دروازے پر صدا دیتا۔ ساری افطاری اس کے حوالے کرتے خود اپنے بچوں کے ساتھ پانی اور کجھوروں سے افطاری کر تے مگر ان کے منہ سے پھر بھی کلمہ شکر ہی جاری ہوتا ۔ اور ایسی ہزاروں مثالوں سے اس امت کی تاریخ بھری پڑی ہے جس امت سے اپنے تعلق کرتے اظہار کرتے نا ہم تھکتے ہیں اور نا ہی فخر سے پھولے سینے سے کبھی ہوا نکلنے دیتے ہیں۔ لیکن کبھی ان لوگوں کی تقلید نہیں کرتے۔ ایک ہلکی سے گرم ہوا بھی ہمیں چھو جائے تو ہم منہ پھلا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، مہنگائی زیادہ ہو رہی ہے، معاشرے میں کرپشن عام ہے، صحت اور تعلیم کی سہولیات ہمیں میسر نہیں، فیکٹری اور مل مالکان اپنے مزدوروں پر ظلم کررہےہیں، نا اہل افراد ہمارے سروں پر چڑھے حکمرانی کر رہے ہیں، ملک سے باہر کے بینکوں میں ہم سے لوٹے کروڑوں کھرب کے انبار لگے ہوئے ہیں، میڈیا (فلم، ڈرامہ، ٹی وی، کتاب اور دیگر) فحاشی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، سیاستدان ہمیں علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ہاتھوں مروا رہے ہیں، اقوام غیر ہمارے گرد گھیرا تنگ کیے جا رہی ہیں، دہشت گرد ہماری جڑیں کاٹ رہے ہیں، قدرتی آفات نے ہماری بنیادوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور ہاں علماء بھی تو اپنی زمہ داری صحیح طریقے سے انجام نہ دینے اور فرقہ پرستی کا الزام لیے ہمارے زیر عتاب ہیں اور ہمیں اپنی فریسٹریشن کا دباؤ نکالنے کا بھر پور موقع فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ہم ان تمام نعمتوں کا زکر اور شکر ادا کرتے ہیں جو ہمیں حاصل ہیں۔ ایک آزاد مسلم ریاست، پورے ہاتھ پاؤں، بینائی، سماعت، چھونے اور محسوس کرنے کی حس، سونگھنا اور چکھنا، سر چھپانے کے لیے گھر، کھانے کے دو وقت کی روٹی، بدن ڈھانپنے کے لیے لباس، روشنی دینے کے لیے سورج، سانس لیے کے لیے ہوا، پینے کے لیے پانی، سایہ دینے کے لیے درخت، سفر کرنے کے لیے جانور اور گاڑیاں، گناہ معاف کروانے کے لیے آنسو۔ اس کی عطا کی ہوئی ان گنت نعمتیں ہم ہر پل استعمال کرتے ہیں۔ شکر اور شکوے کے حساب میں کس کا حاصل ایسا نکلے گا کہ وہ آنکھیں اٹھا سکے تو پھر شکوہ کس بات کا۔ تکلیف و آزمائش اگر مقدر ہے تو وہ ہم اس کے سزا وار ہیں۔ وہ مجاز ہے۔ وہ حاکم ہے ۔ وہ ہی مالک ہے ۔ جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں، وہ عاجز ہو جاتے ہیں اور عاجز وہ ہوتا ہے جو بین نہیں کرتا، جو چیختا نہیں، جو کمر پر پڑنے والی ہر ضرب کو اپنی خطا کے بدل کا حصہ قرار دیتا ہے۔ تو کامیابی کا فارمولا بہت واضح ہے۔ تکلیفوں، مشکلوں اور پریشانیوں میں بھی مسکرانا سیکھ لیں۔ کسی قسم کی کمی محسوس ہی نہیں ہو گی۔ کم ازکم اس جہاں میں تو نہیں جہاں پر ہمارا انتظار ہو رہا ہے اور جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔ ختم شد |
__._,_.___
.
__,_._,___
No comments:
Post a Comment