Search This Blog

Tuesday, 15 May 2012

Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید kaainaat ka badtareen kafir shia kafir

 

We all like to think that , but have you got any evidences?

Sent from my iPhone

On 15/05/2012, at 10:11 AM, "Naveed Ahmed" <naveedahm44@yahoo.com> wrote:

 

totally agreed with you brother !!


From: acci jan <accijan@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Sunday, May 13, 2012 5:08 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید kaainaat ka badtareen kafir shia kafir

 
Aal-e-Saud Israil ke akhri ummid nahi bul k Iran ISRAIL ke ummid hai. Iran ke taraf say israil ko dhamkiyaan sirf topi drama hai.warna shia mazhab aur yahodi mazhab ka taqabli jaayza lia jaay tu shia mazhab yahood ka he bachcha niklay ga..shia's ka Ahl-e-bait say koi taaluq nahi sirf ahle bait ko use kartay hain.Shia mazhab aur yahood kay aaqaaid main bari yaksaaniyat hai??????
Kaainaat ka badtarin kafir agar koi hai tu Shia mazhab hai..Islam ka naam lay kar Islam par war karnay wala shia, mota k naam par zina karnay wala shia, Tahrif-e-Quraan ka Qaail aur Quraan ka monkir shia, Imamo ko Ambia (A.S) say afzal samjhnay wala shia, taqiyey ke aar main baray say bara jhoot bolnay wala shia, etc etc Bad tareen kafir nahi tu kia hai?
kia kabhi 14 SO SAAL main yahood aur shia ka takraao hoa?????????????
Allah ke naa farmaan qaum Yahood sab say zyada sakon main Iran main hai??????
 

 
From: Imran Rana <reehabimran@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Cc: "only_abidi@yahoo.com" <only_abidi@yahoo.com>
Sent: Sunday, May 13, 2012 1:14 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
 
Ji zarore batein phir hum bhi bataye me dammam me hota hoon aru us ke pas he qatif he . sub pata he ke kiya ho raha he. apna jhoot pane pass rakho dost.
iran ki koye hasiyat nahi saudia ke samne. saudia me aman he aur iran aman nahi chahta bus chatha he yahan bhi kufar ke halkoomat ho jo ALLAH nahi chahe ga..
ALLAH pak se iraniuo ki sazish ko nakam bana diya AL HAMDULILLAH.

From: Sag-e-Batool a.s <only_abidi@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, May 12, 2012 2:45 PM
Subject: Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
 
Saudi hukumat iran kay samnay kia hasiyat rakhty hain yeh saudion ko bohat khoob pata hai "THEY ARE JUST PIECE OF CAKE IN FRONT OF IRANIS" filhal main bahas barai bahas karnay kay mood main nahi hon warna bohat achy tarhan batata kha irani kia chatay hain & saudi kia .??? jhoota libada phan kar duniya ko baiwaqoof bananay walay saudi kia kar rahay hain yeh ab ahista ahista sab ko pata chal raha hai, yeh to pata nahi KABAY ko kaisay bardash kar rahay hain warna yehi saudi to kab kay kah chuukay hain KHA AGAR ZAIDA KHAYAL HAI TO APNA KABA LAI JAO,
 
 
 
 
http://irteza.istarteknix.com/images/ya_sari_ar_reza%5b1%5d.gifhttp://irteza.istarteknix.com/images/allahomma%5b1%5d.gif
 
**************************************
Maan Baap Ki Duaon Ka Talib
Sag-e-dar-e-Ahailaybait a.s
Raza Abidi
*************************************

From: aapka Mukhlis <aapka10@yahoo.com>
To: "Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>
Sent: Saturday, 12 May 2012, 13:03
Subject: Re: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
 
ایرانی حکومت کا ہدف اسرائیل نہیں سعودی عرب ہے
ایرانی حکومت نے جو اسرائیل سے اسلحہ خریدتی رہی ہے
اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔
ایران فقط حرمین پر قبضہ چاہتا ہے
کیونکہ وہ اپنے علاوہ تمام فرقوں کے لوگوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں۔
ان ہی لوگوں نے سعودی عرب میں فتنے پیدا کیے
 جس کی وجہ سے سعودی حکومت کو ان کی طرف سے محتاط ہونا پڑ رہا ہے۔
ایران اسرائیل کی مخالفت صرف عام مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے
عراق نے بھی یہی کیا تھا
مغرب میں اسرائیل کی طرف بڑھنے کی بجائے جنوب میں کویت کی طرف چل پڑا

From: Al-Syed <only_abidi@yahoo.com>
To:
Sent: Saturday, May 12, 2012 8:35 AM
Subject: [Yaadein_Meri] آل سعود اسرائیل کی آخری امید
 

آل سعود اسرائیل کی آخری امید

مقبوضہ فلسطین کے شہر اور غاصب صہیونی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب کی اسرائیلی یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں آل سعود کی حکومت کو علاقے میں اس ریاست کی آخری دفاعی لائن قرار دیا ہے/ ادھر یہودی ریاست کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ تمام ایرانی اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں۔
آل سعود اسرائیل کی آخری امید
اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ کی رپورٹ کے مطابق "عصر امت" نیوز ویب سائٹ نے اس رپورٹ کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "علاقے میں صہیونی ریاست کی حامی تمام حکومتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور وہ مزید کوئی اہم کردار ادار نہیں کرسکتیں چنانچہ ان حالات میں صرف آل سعود کی حکومت ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے کھڑی ہے اور یہ حکومت ایران کے مقابلے میں علاقے میں صہیونی ریاست کی آخری دفاعی لائن سمجھی جاتی ہے"۔
عصر امت کے مطابق اسرائیلی یونیورسٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے حکومت یمن، مصر، لبنان، عراق اور بہت سے دوسرے ممالک میں مداخلت کررہا ہے چنانچہ آل سعود کا خاندان صہیونی ریاست کے لئے بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ 
عصر امت کے مطابق "علاقے کے ممالک میں آل سعود کی مداخلت بہت حد تک واضح ہوچکی ہے اور یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ آل سعود کے حکام خطے کی عرب اقوام کے انقلابات کو ہائی جیک کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں گو کہ آل سعود کو عرب ممالک میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے حتی کہ مصر کے سنی عالم دین "شیخ محمد علاء االدین" نے مارچ 2012 میں اسلامی ممالک میں آل سعود اور قطر کے آل ثانی خاندان کی مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہوئے آل سعود اور آل ثانی کو یہودی ریاست کے خادمین کا لقب دیا ہے"۔ 
عصر امت نے لکھا: "محمد علاء الدین المہدی نے یہ بھی کہا تھا کہ سعودی عرب اور قطر شام میں امریکی صہیونی منصوبوں پر عملدرآمد کررہے ہیں اور آل سعود کا "العربیہ نیوز چینل" نیز آل ثانی کا "الجزیرہ" چینل صہیونیوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں"۔
عصر امت نے لکھا: "حال ہی میں ویکی لیکس پر منکشف ہونے والی خفیہ سفارتی دستاویزات سے واضح ہوگیا تھا کہ آل سعود نے یہودی ریاست کی خفیہ ایجنسی ـ موساد ـ کے ساتھ رابطہ بحال کرکے ایران کے خلاف جاسوسی اقدامات اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے سلسلے میں موساد کے ماہرین دہشت گردی سے صلاح مشورے کئے تھے ، اور ان خفیہ دستاویزات سے واضح ہوگیا تھا کہ موساد کے سابق افسران بڑی بڑی رقوم لے کر آل سعود کو مشورے بھی دے رہے ہيں اور جاسوسی کے لئے ضروری آلات بھی آل سعود کو فروخت کررہے ہیں۔1
ادھر عربی پریس نامی نیوز ویب بیس نے "آل سعود عرب دنیا میں اسرائیل کی آخری امید" کے زیر عنوان اپنی ایک رپورٹ میں تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "بعض عرب حکومتوں کا تختہ الٹ جانے کے بعد اسرائیل کا "تزویری ماحول Strategic Environment" تزلزل کا شکار ہوچکا ہے اور اس کے عرب حلیف یا تو رخصت ہوچکے ہیں یا پھر اپنا کردار کھو چکے ہیں چنانچہ ایران کے مقابلے میں یہودی ریاست کے تحفظ کی واحد باقی ماندہ امید آل سعود کی حکومت ہے؛ تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ آل سعود کے حکمران ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے تمام ممالک میں مداخلت کررہے ہیں اور جس دن آل سعود کی حکومت کا تختہ الٹے گا علاقے میں ایران کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹ جائیں گی"۔ 
تل ابیب یونیورسٹی کی اس رپورٹ سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ کہ صہیونی ریاست رو بہ زوال ہے اور آل سعود کی حکومت کا انجام بھی آل صہیون سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے چنانچہ آل سعود کی تمام تر ریشہ دوانیوں کا مقصد اپنی حکمرانی کو بچانا ہے اور آل سعود کو بچانے کے لئے اسرائیل کا بچاؤ بھی ضروری ہے چنانچہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے ہاتھوں بنی ہوئی ان دو حکومتوں (آل سعود اور آل صہیون) کا انجام ایک جیسا ہے اور ایک کے زوال سے دوسری کا زوال یقینی ہوجاتا ہے اور اسی بنا پر آل سعود کے حکمران اپنے تحفظ کے لئے یہودی ریاست کا تحفظ چاہتے ہيں اور آل صہیون کے پاس بھی اپنے بچاؤ کے لئے آل سعود کے تحفظ کے سوا کوئی چارہ نہيں ہے۔ 
عربی پریس نے تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ "آخری جنگ کی تیاریاں، جدوجہد برائے بقائے آل سعود" کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب، اردن اور خلیج فارس کی کم اہم عرب ممالک کے ساتھ مل کر علاقے میں رونما ہونے والی "بد انتظامی" [یعنی انقلابی تحریکوں] کو لگام دینے کے لئے قریبی تعاون کررہے ہیں۔
اس رپورٹ ميں کہا گیا ہے کہ یہودی ریاست نیز آل سعود کے حکمران اپنا تزویری حلیف "حسنی مبارک" ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اور مصر کا مستقبل غیر واضح ہے اسی وجہ سے سعودی حکومت نے پرانی پالیسی تبدیل کرکے بحرین میں فوجی مداخلت کررکھی ہے اور ایران کے حلیف ملک شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ 
تل ابیب یونیورسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "آل سعود علاقے میں ایران کے مد مقابل [امریکہ اور اسرائیل کی] آخری دفاعی لائن ہے اور آل سعود کا خاندان اپنی کمزور پوزیشن مستحکم کرنے اور امریکی و صہیونی مفادات کے تحفظ کرنے کے لئے مصر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے؛ تیل کے ہتھیار کو بروئے کار لانا چاہتا ہے اور اوپک کے رکن ممالک میں اختلاف ڈال کر نیز خلیج فارس تعاون کونسل کو توسیع دے کر ایران کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
واضح سی بات ہے کہ آل سعود کا زوال آل صہیون کے لئے کافی مہنگا پڑ رہا ہے اور اگر ایک طرف سے صہیونیوں کو اپنا اور آل سعود کا زوال قریب آرہا ہے تو دوسری طرف سے آل سعود کو بھی اپنا اور اپنے صہیونی حلیف کا زوال قریب ہی نظر آرہا ہے اور آل سعود کی اتنی وسیع و عریض اور عجلت زدہ ریش دوانیوں سے اس خاندان کی قوت کا نہیں بلکہ ضعف کا مظاہرہ ہورہا ہے لیکن آل سعود کی فکرمندیوں میں مسلم امت کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا اس کو امت کی بقاء کے سلسلے میں بھی اسرائیل کی بقاء جتنی فکر لاحق ہے؟ کم از کم ان سطور میں ہمیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آرہی ہے۔ 
تل ابیب یونیورسٹی کے یہودی تجزیہ نگاروں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: آل سعود خاندان میں تزلزل، ایران کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ علاقے پر حکمفرما تسلیم شدہ نظام (اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کی اندھی تقلید) کے پیروکار حکمرانوں کا مکمل صفایا کردے اور یہيں سے اسرائیل کے لئے آل سعود کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور چونکہ آل سعود اور یہودی ریاست کی تزویری پالیسیاں یکساں ہے چنانچہ دو طرفہ (ریاض ـ تل ابیب) مذاکرات "میں توسیع" کی ضرورت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔
رپورٹ کے اس آخری جملے کا مفہوم یہ ہے کہ آل سعود اور آل صہیون کے درمیان خفیہ اور خائنانہ مذاکرات کا سلسلہ عرصۂ دراز سے چل رہا ہے اور اس رپورٹ میں بھی اس کا سبب "یکسان حکمت عملیاں" (Similar Strategies) ہیں۔ 
ادھر صہیونی ریاست کے وزير جنگ "ایہود بارک" کا موقف بھی کافی دلچسپ ہے اس سے مذکورہ بالا رپورٹ کی تصدیق ہوتی ہے۔
ایہود بارک نے کہا ہے کہ تمام ایرانی اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں
ایہود بارک نے کہا کہ ایران کے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی، بقول اس کے، اعتدال پسند سیاستدان تھے لیکن ان کا بھی کہنا تھا کہ "اسرائیل کے لئے ایک بم کافی ہے اور اسرائیل کو ایک بم مار کر نیست و نابود کرنا چاہئے"۔
ایرانی روزنامے "کیہان" کی رپورٹ کے مطابق ایہود بارک نے حال ہی میں "اسرائیل الیوم" نامی صہیونی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے 2003 میں ہاشمی رفسنجانی کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رفسنجانی ایک اعتدال پسند سیاستدان ہیں لیکن ان کے موقف سے ایرانی تفکر کی اسرائیل مخالف رجحان کی اتہاہ گہرائیوں کا پتہ ملتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں سب اسرائیل کی نابودی کے خواہاں ہیں۔
بارک نے کہا: ہاشمی رفسنجانی نے 2003 میں کہا تھا کہ: "عالم اسلام کے مدمقابل اسرائیل کے سوا کوئی نہيں ہے اور ہماری معلومات اور اسرائیل کی حقیقت کی بنا پر صہیونی ریاست بہت چھوٹی اور ناچیز ہے اور اس کی نابودی کے لئے صرف ایک بم کافی ہے؛ اور اگر اسرائیل نے کبھی ایران کے خلاف اقدام کیا تو ہم ضرورجوابی کارروائی کریں گے لیکن ہمارے علاوہ 20 دوسری مسلم قومیں بھی اسرائیل پر حملے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ کسی شرارت کی صورت میں اسرائیل کا وجود ہمیشہ 
کے لئے روئے زمین سے مٹ جائے گا۔ 

.
http://irteza.istarteknix.com/images/ya_sari_ar_reza%5b1%5d.gifhttp://irteza.istarteknix.com/images/allahomma%5b1%5d.gif
 
**************************************
Maan Baap Ki Duaon Ka Talib
Sag-e-dar-e-Ahailaybait a.s
Raza Abidi
*************************************


__._,_.___
Recent Activity:
.

__,_._,___

No comments:

Post a Comment